میں ”ہم سب“ پر کیوں لکھتی ہوں؟


یہ بلاگ اگر چھپ گیا تو یہ ہم سب پر شائع ہونے والا میرا پچاسواں بلاگ ہو گا۔ نیچے جو گنتی آ رہی ہوگی وہ تھوڑی سی غلط ہے کیونکہ اس میں وہ آرٹیکلز بھی گنے گئے ہیں جو سہوا دو مرتبہ چھپ گئے تھے۔ مجھے تو سچ میں پچاس بلاگ لکھ لینے کی کافی ایکسائیٹمنٹ ہے۔ بالکل آسکر ایوارڈ لینے کے بعد جیسی تقریر کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ پچھلے سال میرا پہلی مرتبہ ہم سب سے تعارف ہوا۔ ہم سب کی سالگرہ کے دن تھے اور یہ تو پہلی نظر کی محبت جیسا معاملہ ہو گیا۔ کن کن لوگوں کی تحریروں نے متاثر کیا، یہ لکھا تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی اور اگر کوئی نام لکھنے سے چوک گئی تو برا نہ لگے کسی کو، مگر حسنین جمال نے شاید سب سے زیادہ کیونکہ ان کے اور میرے ماضی میں اکثر یادیں ایک سی ہیں اور پھر عدنان صاحب کا طنز و مزاح، لبنی مرزا، ڈاکٹر سہیل اور اب ڈاکٹر غزالہ قاضی، حاشر، لینہ، رامش، پھر امتیاز احمد کا ناسٹیلجیا، سعدیہ، فرح، وصی بابا، ظفرعمران پھر وجاہت صاحب، وسعت صاحب اور نورالہدی شاہ جیسے بڑے نام، تو بہت زیادہ انسپائریشن مل گئی یہاں۔

انہیں دنوں میں بچوں کو اردو پڑھانے کے لئے اشتیاق احمد کے ڈھیر سارے ناول خرید کر لائی تھی۔ بچوں کو پڑھانے سے زیادہ خود دوبارہ پڑھنے کا شوق دل میں تھا۔ پڑھتے پڑھتے لکھنے کا شوق دل میں اٹھا تو میاں کا گھٹنا ہلا کر کہا، جہانزیب میرا خیال ہے کہ میں اردو میں لکھ سکتی ہوں۔ تو لکھو، میاں صاحب نےفرمایا اور لیپ ٹاپ میں گم ہو گئے۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ لکھا کیسے جائے؟ سافٹ وئیر ڈھونڈیں پر ٹائپ کرنا بہت مشکل، کاغذ قلم لے کر صفحے پر لکھنا شروع کیا اور سامنے کمپوزنگ والے کو پکڑایا کہ بھائی ان پیچ میں لکھ دو، تین دن کے وعدے پر اس نے وہ کاغذ تھاما۔ اب ان پیج کی فائل مل گئی تو ہم سب پر بھیج دی۔ لکھا ہوا تھا کہ تین دن انتظار کریں۔ تین دن مشکل سے کاٹے مگر آرٹیکل نہ چھپا، ڈان نیوز میں بھیج دیا، انہوں نے ٹھک کر کے چھاپ دیا، مگر مجھے تو ہم سب میں لکھنے کا شوق تھا۔ ڈان نیوز میں چھپ گیا، یعنی آرٹیکل تو اچھا تھا۔ بہت سوچا کہ معاملہ کیا ہے؟ پھر سمجھ میں آیا کہ شاید ان پیج کی فائل سے کاپی کرنا مشکل ہو شاید۔ پھر ایک آن لائن کی بورڈ ڈھونڈا جو یونی کوڈ میں لکھتا تھا۔ اس میں لکھنا شروع کیا اور ٹائیپنگ آ ہی گئی۔ اب تو اردو ٹائپ کرنے کے کچھ طریقے آ ہی گئے ہیں مجھے۔ ای میل میں براہ راست بھی اردو لکھ سکتی ہوں۔ اب تو مجھے لگتا ہے کہ بولنے کی نسبت زیادہ تیزی سے لکھا جاتا ہے مجھ سے۔

سن دو ہزار آٹھ کی بات ہے جب لمز میں گوگل پاکستان نے پہلا بلاگرز میٹ اپ کروایا۔ بدر خوشنود جو اس وقت کنٹری ریپ تھے انہوں نے مجھ وہاں ٹاک دینے کے لئے بلایا، میں تب بھی فری لانس کام کرتی تھی۔ ٹاک سے پہلے میرے ساتھ ایک حسین مہین بلاگر خاتون بیٹھی تھیں، میں نے پوچھا کہ بلاگنگ ہوتی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بس اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار لکھ کر کر لیتے ہیں لوگ جیسے ڈائری میں لکھیں۔ میں نے پوچھا مگر کوئی پڑھتا کیوں ہے کسی اور کے خیالات؟ کچھ خاص دلچسپی نہ بنی میری بس ایسے ہی اٹھ کر اپنے خیالات لکھ دینے میں۔

اس وقت مجھے لگتا تھا کہ میرے خیالات بہت ذاتی ہیں، کسی اور کو بتانے کی کیا ضرورت ہے اور دوسرے یہ بھی لگتا تھا کہ اگر کسی چیز میں پیسے نہیں ہیں تو اس پر وقت صرف کا کوئی اتنا فائدہ نہیں ہے۔ ویسے بھی دس سال پہلے میرے پاس کہنے کے لئے اور سوچنے کے لئے بہت ہی کم تھا شاید۔ مگر اس واقعے کے آٹھ، دس سال بعد جب ہم سب پر بلاگز اور کالم پڑھے تو پھر مجھے لگا کہ ہاں لکھنا چاہیے۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں یونیورسٹی کے ہاسٹل جانے لگی تو والدہ نے نصیحت کی کہ مذہب اور مذہبی خیالات یا سیاست کے بار ے میں کسی سے بات نہ کرنا۔ جب ہم سب پر لکھنا شروع کیا تو میاں صاحب نے کہا، سیاست اور مذہبی خیالات کے بارے میں ہرگز نہ لکھنا۔

مگر لکھنے سے بہت فائدے ہوئے۔ ایک تو دل ہلکا ہو جاتا ہے، چاہے کسی فرد کی وجہ سے تحریک پیدا ہو دل میں یا کسی واقعے کی وجہ سے۔ دوسرے یوں لگتا ہے کہ یہاں پڑھنے والے میری بات سمجھتے ہیں، یہ احساس کم لوگوں سے بات کرنے پر ہی ہوتا ہے۔ پھر یوں لگتا ہے کہ ایک کنبے کا حصہ ہوں میں، یہاں سب میرے ہی گاؤں کے لوگ ہیں۔ اچھا اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ لکھنے سے میری سوچوں میں اور ذات میں ایک ٹھہراؤ آتا جا رہا ہے، کچھ تو عمر کی وجہ سے بھی ہے مگر سچ مانیں اس میں اس سال لکھنے کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ اظہار کر دینے سے ایک سکون مل جاتا ہے۔

لکھتی ہوں اگر تو پھر پڑھتی بھی ہوں دوسرے لوگوں کا لکھا ہوا، اس سے سیکھنے کو زیادہ مل رہا ہے۔ پھر جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کو دیکھنے کا تناظر اب مختلف ہوتا ہے میرا۔ اچھا مجھے لگتا ہے کہ لکھنے والی مریم میں اور مجھ میں بھی ایک فرق ہے، بعض مرتبہ میں اپنا ہی لکھا پڑھ کر اس سے نئے معنی اور نئی باتیں سمجھ سکتی ہوں۔ پھر کمنٹس سے بعض اوقات کسی بات کا ایک اور رخ بھی سامنے آتا ہے جو لکھتے ہوئے ذہن میں نہیں ہوتا، کن لوگوں نے بات کی توثیق کی ہے اور کن لوگوں نے رد کیا ہے، اس بات سے بھی سوچ کو فرق پڑتا ہے، تو سیکھنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔

خیر اصل میں تو یہ تحریر شکریہ ادا کرنے کے لئے لکھی ہے ہم سب کے محترم مدیران کا کہ جنہوں نے یہ پلیٹ فارم بنایا ہوا ہے اور جو میری تحریروں کو جگہ دے کر سیکھنے میں میری مدد کرتے ہیں اور پڑھنے والوں کا بھی۔ مجھے امید ہے کہ ہم سب کا اور میرا ساتھ قائم رہے گا اور ہم سب مل کر سیکھتے رہیں گے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim