پاکستان: ’یہ ریاست ہے یا مولوی کے گھر کی لونڈی؟‘


ملالہ یوسفزئی سر میں گولی لگنے کے بعد

اپنے وطن کی یادیں ہمہ وقت ساتھ رہتی ہیں۔ بالخصوص اپنی جنم بھومی سوات کی کھٹی میٹھی یادیں۔ لیکن گزشتہ کئی ہفتے اسلام آباد کے شہری جس عذاب سے گزرے میں برمنگھم میں بیٹھ کر اس کرب کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کرب نے 2007، 2008 اور 2009 میں طالبان کے دور کے سوات کی تلخ یادیں ایک بار پھر تازہ کر دیں۔

جس درد اور کرب سے اس وقت سوات کے لوگ گزرے تھے، بالکل وہی حالات میں ملک کے دارالحکومت میں 21 دنوں تک جاری رہنے والے دھرنے کی وجہ سے دیکھ رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ سب کچھ اسلام آباد میں سوات کے حالات کا ری پلے تھا۔ حکومت کی وہی بے بسی، عوام میں عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس اور وہی افراتفری جس کا میں شاہد رہ چکا ہوں، البتہ فرق محض اتنا تھا کہ سوات میں روز خود کش حملے ہوتے تھے، بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوتا تھا اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بھی عائد تھی لیکن اسلام آباد میں حالات اس حد تک نہیں بگڑے تھے۔

سوات اور اسلام آباد میں مماثلت یہ تھی کہ ہر طرف خوف کا عالم تھا، جو خوف تین برسوں کے لیے سوات میں تھا، وہ خوف دو تین ہفتوں کے لیے اسلام آباد میں رقص کرتا رہا۔ حکومت مفلوج، حکومتی وزرا بے بس اور مجبور بھی۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کی موقع پرستی کی سیاست اور فوج کا ثالث کا کردار، یہ ساری چیزیں سوات کے حالات کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔

جس طرح اسلام آباد میں پولیس بدترین تشدد کا نشانہ بنی، اسی طرح سوات میں بھی پولیس غیر معمولی دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ سوات میں طالبان کے ساتھ جدید اسلحہ اور مواصلات کے جدید آلات تھے اور اسلام آباد میں بھی دھرنے والوں کے پاس کچھ ایسے حفاظتی آلات موجود تھے جو کسی عام شخص کے پاس نہیں ہوسکتے۔

وزیرِ داخلہ احسن اقبال اپنی صفائی دے رہے تھے کہ میں نے کب آپریشن کا حکم دیا، بقول ان کے آپریشن تو اسلام آباد کی انتظامیہ ہائی کورٹ کے سو موٹو ایکشن پر کر رہی ہے۔ اسی طرح سابق وزیر داخلہ بھی اپنے گھر پر ہونے والے واقعات کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔

اور پھر دھرنے والوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ زاہد حامد تھے، ان بےچارے کو تو حلفاً اپنے عقیدے کا اظہار کرنا پڑا کہ ’میں مسلمان ہوں، ختم نبوت پر میرا پختہ ایمان ہے اور اس معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں ہے‘۔

حکومتی اہلکاروں اور انتظامیہ کی یہ بے بسی اور غیر ریاستی عناصر کے لیے اپنی صفائیاں طالبان کے سوات میں بھی عام تھیں۔ پولیس، ایف سی اور این جی اوز کے اہلکار ان الفاظ کے ساتھ اخبارات میں اشتہار کے ذریعے حکومت اور ریاست سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے تھے کہ وہ اب سرکار یا کسی غیر سرکاری تنظیم کا حصہ نہیں اور وہ جان کی امان چاہتے ہیں۔

پھر اسلام آباد کے دھرنے والوں سے ہونے والے معاہدے کو پڑھ کر مجھے طالبان سے کیے گئے شکئی، سرا روغہ اور سوات کے معاہدے بھی یاد آئے۔

اسلام آباد کے معاہدے سمیت یہ تمام معاہدے دراصل دو فریقین کے درمیان کچھ دو اور کچھ لو جیسے مشترکہ نکات پر اتفاق نہیں بلکہ یہ معاہدے انتہا پسندوں کے مطالبات پر حکومت کا متفق ہونا ہے، جسے معاہدوں کا نام دیا گیا ہے۔ ان تمام معاہدوں میں ریاست مجبور اور کمزور ہو کر انتہا پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر سر تسلیم خم کرتی ہے، یہی کچھ سوات سمیت قبائلی علاقوں میں بھی ہوا اور اسلام آباد میں بھی۔

تو جس قیامت سے اسلام آباد کے شہری تین ہفتے گزرے اسی کرب اور تکلیف سے ہم لوگ تین سال تک گزرے ہیں اور پختونخوا کے قبائلی علاقوں کے کچھ حصوں میں تو اب بھی یہی صورتحال ہے۔

میں یہاں مسلم لیگ ن کی صفائیاں دینے والے وزرا کو بھی قصوروار نہیں ٹھہراؤں گا کیوں کہ ان کے سامنے تو اے این پی کے ہلاک ہونے والے ان سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کی مثال موجود ہے جنھوں نے سیاہ قوتوں اور انتہا پسندوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی تھی اور اس کا خمیازہ اپنی جانیں قربان کر کے بھگتا تھا۔ تو آپ اندازہ کیجیے کہ جن انتہا پسند عناصر کے سامنے پوری ریاست جھک جائے تو ان کے سامنے افراد کے لیے کھڑا ہونا تو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس معاہدے میں بھی ریاست کمزور اور انتہا پسند طاقتور ثابت ہوئے اور اسی وجہ سے عوام کا ریاست پر اعتماد بہت کمزور پڑ چکا ہے۔ کیا وہ ریاست جو چند شرپسندوں کے خلاف جھک جائے، اپنا بنیادی فرض یعنی عوام کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کر سکے گی؟ ہرگز نہیں۔

جب سوات میں طالبان سے معاہدہ ہوا تو صوفی محمد، فضل اللہ اور اس کے ساتھی طالبان اتنے دلیر ہوگئے تھے کہ انھوں نے اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ یہی صورتحال موجودہ معاہدے کے بعد بھی ہوسکتی ہے، اس سے انتہا پسند مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔

اسلام آباد معاہدے کا پہلا نکتہ دیکھ کر مجھے بیس کروڑ لوگوں کی ریاست پر بہت ترس آیا۔ اس معاہدے کے مطابق ’وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، جن کی وزارت کے ذریعے اس قانون میں ترمیم پیش کی گئی تھی، کو فوری اپنے عہدے سے برطرف (مستعفی) کیا جائے۔ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی‘۔

گویا مولوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے خلاف موت کا فتویٰ دیں یا اس پر رحم کھا کر معاف کریں۔ ادھر مولانا سیالوی پنجاب كے وزیر قانون رانا ثنااللہ سے دوباره كلمہ طیبہ پڑھنے كا مطالبہ كر رہے ہیں۔ یوں اب پاکستان کے شہری فتوؤں سے جان کی امان بھی مانگیں گے۔ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ ریاست ہے یا مولوی کے گھر کی لونڈی۔

اس بنیادی اصول کو تو سب کو ماننا ہو گا کہ پاکستان بیس کروڑ کے عوام پر مشتمل ایک باقاعدہ خود مختار ریاست ہے جہاں کسی ایک مسلک یا مخصوص عقیدے کو طاقت کے زور پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہر مسلک اور مذہب کے پیروکاروں کو اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہونے کا آئینی حق حاصل ہے۔

ہم فلسطینیوں اور روہنگیا کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف تو متحد ہیں لیکن اپنا ملک تباہی کی جس ڈگر پر چل نکلا ہے اس پر ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات تک نہیں کر سکتے۔ بیس کروڑ عوام پر مسلط دہشت گردی اور انتہا پسندی سب سے بڑا قومی بحران ہے جس کے خلاف متحد ہونے کی بجائے ہم آپس میں ہی دست و گریباں رہتے ہیں۔ ایسے قومی بحرانوں میں عوام، عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور فوج مل کر ریاست کہلاتے ہیں۔

ہم یہ کہنے سے کیوں کتراتے ہیں کہ ایسے معاہدوں میں فوج کو ثالث کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔

میری گذارش یہ ہے کہ فوج ریاست کا ایک ناگزیر حصہ ہے تو فوج کو تو ثالث بننے کی بجائے حکومت کے احکامات کے تحت ریاست کی رٹ بحال کرنی چاہیے۔

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہمیں ایک فلاحی اور روشن خیال ریاست کے طور پر 20 کروڑ عوام کو جان و مال کا تحفظ دینا ہے یا ہم نے انھیں انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔

پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک حقیقی جمہوریت میں مضمر ہے۔ اس کے بعد ہی ایسی صورتحال پیدا ہوگی کہ ہم ایک جدید فلاحی ریاست کی طرف بڑھ سکیں گے۔ اگر ہم موجودہ روش پر چلتے رہے تو پورا پاکستان 2008 والے سوات میں بدل جائے گا، جہاں بہت سے خاندانوں نے طالبان کی صفوں میں اپنے گھر کا ایک ایک فرد اس لیے شامل کروا دیا تھا تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ ورنہ اس طرح تو دنیا بھر میں پاکستان اور اس کے عوام کو انتہا پسند سمجھا جائے گا اور روز وطن عزیز کی عالمی سطح پر تذلیل ہوتی رہے گی۔

ایک پشتون شاعر درویش درانی کے ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ ’جو لوگ سانپ کی پیٹھ پر چلتے ہیں، ان کی اگلی منزل سانپ کا سر یعنی زہر کا سمندر ہوتا ہے‘۔

ضیا الدین یوسف زئی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ضیا الدین یوسف زئی

ضیا الدین سف زئی ماہرِتعلیم، سوشل ورکر اور دانش ور ہیں۔ اعلیٰ پائے کے مقرر ہیں۔ ان کی تحریر میں سادگی اور سلاست ہے یہی وجہ ہے کہ گہری بات نہایت عام فہم انداز میں لکھتے ہیں۔ان کا تعلق وادئ سوات سے ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ضیا الدین یوسف زئی اقوام متحدہ سے مشیر برائے گلوبل ایجوکیشن کی حیثیت سے بھی وابستہ ہیں۔

ziauddin-yousafzai has 17 posts and counting.See all posts by ziauddin-yousafzai