تم سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہو


میرا خواب پائلٹ بننے کا تھا لیکن یہ خواب اسی روز ٹوٹ گیا جب میرے والد اچانک یہ دنیا چھوڑ گئے چار بہنوں کا میں اکلوتا بھائی تھا اور اس وقت ساتویں جماعت میں تھا۔ والد کے جانے کے بعد والدہ کو آٹے دال چاول کا بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا، بہنوں کو سستے جوڑے مل جانے کی خوشی میں نہال پایا۔ وہ اسی فکر میں رہتی تھیں کہ بس کسی طرح جلدی جلدی سال گزریں اور ان کی تعلیم ختم ہوتے ہی وہ نوکری ڈھونڈ لیں جبکہ امی کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ وہ اپنے اپنے گھروں کی ہوجائیں۔ ایسے میں اٹھتے بیٹھتے امی مجھے دیکھ کر ایک ہی بات دہراتی چلی جاتیں کب تم بڑے ہوگے کب گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاوگے۔ وہ خواب جس میں، میں نے کئی بار خود کو جہاز کے کاک پٹ میں دیکھا اور پھر ہواوں کو چیرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھوتے دیکھا وہ خواب اب دھندلا پڑنے لگا۔ آخری بار بڑا عجیب خواب دیکھا کہ میں رن وے پر کھڑا ہوں اور ایک دیو ہیکل جہاز کو اپنے ہاتھوں سے پیچھے دھکیل رہا ہوں کہ اچانک آنکھ کھلی تو پسینے سے شرابور تھا جبکہ وہ موسم سرما کی رات تھی۔ پھر کبھی کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا۔

میں آج ایک بینک میں ملازمت کرتا ہوں اور روزانہ پچیس سے اٹھائیس کلومیٹر کا سفر موٹر سائیکل پر طے کر کے جب گھر آتا ہوں تو آج بھی ماں کو گھر کے بجٹ کا حساب کتاب پر الجھا ہوا پاتا ہوں۔ دل و جان سے خوشی محسوس ہوتی ہے جب اپنی بڑی بہنوں کو کوئی تحفہ دوں اور وہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر مجھے مسکرا کر دیکھیں۔ اماں کی راشن اور فرمائشوں کی لسٹیں پوری کرنا میرا فرض ہے لیکن جب یہ سنوں کہ تم مرد تو بس بے حس ہوتے ہو تم لوگ کیا جانو کہ گھر کے مسائل کیا ہیں ایک نوکری کر کے سب جنجالوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہو، تو کبھی یونہی یہ خیال بھی دل میں آتا ہے کہ کہ کیا واقعی میں احساس سے عاری ہوں؟ کیا مرد کبھی قربانی نہیں دیتا؟ کیا اس کے سب ہی خوابوں کو تعبیر مل جاتی ہے؟ کیا وہ کبھی نہیں تھک سکتا؟ پھر کان میں آواز آتی ہے۔ نہیں۔ مرد حساس نہیں ہوتا، وہ نہیں تھک سکتا، وہ نہیں ہار سکتا، وہ نہیں رک سکتا اور پھر میں اگلی صبح ہیلمٹ پہن کر ٹائی جیب میں ڈالے اپنی سیکنڈ ہینڈ موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کر کے اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھول اڑاتا ہوا بینک روانہ ہوجاتا ہوں۔

میں اس روز شدید تذبذب کا شکار ہوجاتا ہوں جس روز میری بیوی یہ حکم صادر کرے کہ آج آپ میرے ساتھ بازار چلیں۔ عجیب سی وحشت ہوتی ہے۔ اسے تو اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اس نے آج تھیلے بھر بھر کر گھر لانے ہیں جب کہ میری فکر کچھ الگ ہوتی ہے وہ دن تو قیامت کے ہوتے ہیں جب یہ فرمائش عید کے دنوں میں کی جائے۔ بازاروں کا ہوشربا رش میرے اوسان خطا کردیتا ہے لیکن ان عورتوں کو کون سمجھائے کہ بھئی ہم مردوں کو بھی ڈر لگتا ہے جی ہاں ڈر! کہ اس بازار کی بھیڑ میں اگر غلطی سے بھی کسی خاتون یا لڑکی سے چھو کر گزر گئے تو سر بازار عزت کا جنازہ نکلنے میں منٹ نہیں لگے گا۔ یہ خواتین تو خوب ہراساں کیے جانے کا واویلا کرتی ہیں پر کوئی ہم سے بھی تو پوچھے کہ ہمیں ان خواتین سے خوف آتا ہے جن کو ایک لمحہ لگتا ہے شور شرابا کرنے کا کہ جرات کیسے ہوئی مجھے چھونے کی کیونکہ ان کی چیخ و پکار پر دنیا پہلے مارتی ہے بعد میں اصل وجہ پوچھتی ہے۔

ارے محترمہ عید اور شادیوں کے سیزن میں بازار وں کی بھیڑ میں آپ عورتوں کی نظریں چمکتی دمکتی دکانوں اور سستی چپلوں اور جھمکوں کے ٹھیلوں پر جمی ہوتی ہے خود کو معلوم ہوتا نہیں کہ دائیں جانا ہے یا بائیں، رکنا ہے یا مڑنا ہے، بیچ بازار میں کھڑے ہوکر پیسوں کا حساب کرنا اور پچھلی گلی میں چھوڑی ہوئی دکان سے دوپٹہ لینے کا ارادہ بنانے میں آپ یہ بھول جاتی ہیں کہ اس بازار میں کچھ مرد آنے کا ہر گز شوق نہیں رکھتے ان کی بیگم انھیں زبردستی لائی ہیں۔ اب ایسے میں کسی چوراہے پر بناءسگنل کے اندھوں کی طرح چاروں سمت سے آنے والی ٹریفک کی مانند آپ سے کوئی بچتے بچاتے بھی ٹکرا جائے تو اس کو یہ کہہ کر تو ذلیل نہ کریں کہ تم سب مرد ایک جیسے ہوتے ہو اپنی ماؤں بہنوں کی بھی عزت کرتے ہو یا نہیں؟

کراچی کی مشہور شاہراہ پر سے روز گزرنے والے حسن کا یہ ماننا ہے کہ بھائی کراچی میں ٹریفک کا معاملہ پانامہ کیس کی طرح الجھا ہی رہے گا لیکن اگر میرے قریب سے کوئی ایسی گاڑی گزرے جسے خاتون چلا رہی ہوں تو میں اپنی کار کی رفتار کم کردیتا ہوں بھلے پیچھے سے آنے والے مجھے کتنی ہی بددعائیں کیوں نہ نکالیں میں بس یہ سوچتا ہوں کہ یہ آگے نکل جائیں باقی سب خیر ہے کیونکہ اتفاقاً بھی گاڑی کی رفتار کم اور زیادہ ہونے کی صورت میں اگر بار بار کسی خاتون کی گاڑی کے اطراف آپ نظر آجائیں تو انھیں یہ گمان ہوجاتا ہے کہ آپ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اوپر سے وہ شاہراہیں جہاں بازار ہیں ہاتھوں میں بن کباب، رول پراٹھے اور کئی کئی شاپنگ بیگ اٹھائے فاتح عورتوں کے گروہ ایسے سڑک پار کرتی ہیں جیسے شام کو پرندے غول کی صورت میں گھروں کو لوٹ رہے ہوں اب ان کو کون سمجھائے کہ محترمہ نہ آپ کبوتر ہیں نہ ہی یہ سڑک آسمان۔

سڑک آپ نے خود غلط پار کرنی ہے اور اس پر یہ ظلم کہ سڑک کے درمیان فیصلہ لینا ہے کہ آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹوں اور جب آپ کا ارادہ ہوجائے تو اچانک بریک لگانے والے مرد کو آپ کوستی ہوئی کہ ”اندھے ہو نظر نہیں آتا؟ کچھ تو عورتوں کا احترام کرلو“۔ کہہ کر رول پراٹھے کا بڑا نوالہ لیتے ہوئے آپ آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس لمحے میں گاڑی کی رفتار زیرو اور بلڈ پریشر ہائی ہوچکا ہوتا ہے جی ہاں میں واقعی خواتین کے احترام سے عاری انسان ہوں چونکہ ان کی مرضی کا احترام نہیں کرسکتا تو کسی خاتون کو گاڑی بھی چلاتا ہوا دیکھ لوں تو اس کی رفتار کم کر کے کچھ تاخیر سے گھر پہنچنے کا ترجیح دے دیتا ہوں۔

خواتین کو ہراساں کرنے کا موضوع واقعی بہت حساس ہے لیکن وہ مرد کیا کریں جو عورتوں کے ہاتھوں بھی ہراساں ہوجاتے ہیں؟ عمران کا ماننا ہے کہ کئی ایسی خواتین بھی ہیں جو مردوں کو گھورتی ہیں، بلاوجہ دیکھ کر مسکراتی ہیں، ٹیکسٹ میسجز یا کال کر کے تنگ بھی کرتی ہیں اور بعض اوقات اپنا کام نکلوانے کی غرض سے ان سے بے تکلف ہونے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور پھر بعد میں مظلوم بن کر مرد کو پھنسوا دیتی ہیں۔ کئی ایسے ادارے جہاں ہراساں کیے جانے کی شکایات سننے کا شعبہ موجود ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ اکثر ایسی شکایات بھی سامنے آتی ہیں جس میں شکایت کرنے والی لڑکی کا پہلے لڑکے سے رابط ہوتا ہے بے تکلفی بڑھتی ہے اور جب کہیں معاملہ بگڑتا ہے تو لڑکی اس پر الزام دے کر ہراسیت کو جواز بنادیتی ہے۔ اس ضمن میں یہ تحقیق کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ پیش آیا کیسے؟

اگر یہ بات سامنے آجائے کہ لڑکی غلط الزام لگارہی ہے تو لڑکے کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی تاہم تب تک اس لڑکے کے حوالے سے ادارے میں طرح طرح کی باتیں پھیل چکی ہوتی ہیں۔ جتنی عزت ایک لڑکی کی ہے اتنی ہی ایک مرد کی بھی ہے ایسے جھوٹے من گھڑت الزامات سے ایک مرد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ذہنی اذیت الگ۔ لیکن مرد چونکہ عورتوں کے مقابلے میں حالات سے لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو وہ کم حوصلہ نہیں دکھائی دیتے لیکن یہ سب بظاہر ہی ہوتا ہے۔ مرد کو بھی اپنی عزت اور ساکھ کی خرابی کا دکھ اندر سے اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک عورت کو۔ کیونکہ وہ مرد ہونے کے ساتھ ایک انسان بھی ہے اور ہر انسان حساس ہوتا ہے۔

مرد اور عورت کے احساسات کی بحث پر اپنی رائے دیتے ہوئے سلمان کا کہنا ہے کہ جتنا دباؤ خواتین پر ہوتا ہے اتنا بلکہ اس سے زیادہ مردوں پر بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں مرد کو اپنی تکلیف کے اظہار کا اور دکھ و ملال کا تذکرہ کرنے کی اجازت نہیں اس لئے وہ خواتین کے نزدیک ایک جابر، ظالم اور اس شیطان کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کا صرف اور صرف کام عورت کو ایضا پہنچانا اور اس کیعزت نفس کو مجروع کرنا ہے۔ سلمان کا کہنا ہے کہ وہ اس جملے سے شدید چڑتے ہیں جب عورتیں یہ کہتی ہیں کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ان کا کہنا کہ کیا پاکستان میں ہر مرد ہاتھ میں تیزاب کی بوتل پکڑے گھوم رہا ہے؟ کیا ہر مرد کسی عورت کو ہراساں کر رہا ہے؟ کیا ہر مرد ہوس پرست ہے؟ کیا ہر مرد عورت کو استعمال کی شے سمجھتا ہے؟ ہر گز نہیں معاشرے میں اچھے برے لوگ ہیں فرق تعلیم اور تربیت کی کمی کا بھی ہے۔

ان کے نزدیک برائی ازل سے ہے اور ظلم بھی جاری رہے گا تاہم معاشرے میں آج آگاہی دینے کے کئی بہتر ذرائع موجود ہیں لیکن افسوس کہ میڈیا ان ہی خبروں کو بریکنگ بناتا ہے جس میں کوئی مرد عورت کا استحصال کرے۔ ڈراموں میں بھی مر د کو دھوکے باز اور بد نیت دکھایا جاتا ہے جب کہ عورت کتنی مظلوم ہے کس کس نوعیت کے مظالم اس پرکیے جاسکتے ہیں یہ ڈرامے بڑے زورو شور سے دکھاتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ دور حاضر میں عورت اتنی مظلوم ہے تو 80 اور 90 کی دہائی میں جب چینلز کا زور نہیں تھا اور ہم اتنے ماڈرن لبرل بھی نہیں تھے تب کے ڈرامے میں عورت کا کردار اتنا مضبوط کیوں دکھایا جاتا تھا۔ اسے اتنا روشن خیال، نڈر، بے خوف اور اپنے حقوق سے واقف اور آزاد کیسے بتایا جاتا تھا۔ کیا اس وقت مرد برے نہیں تھے؟ کیا اس وقت کوئی عورت مظلوم نہیں تھی؟

لیکن اس تمام تر بحث سے قطعہ نظر ایک عورت ہونے کے ناطے میرا ماننا ہے خواب ایک مرد بھی دیکھتا ہے اس کے ٹوٹنے پر کرچیاں بھی خود سمیٹتا ہے۔ دل اس کا بھی دکھتا ہے، خوف اس میں بھی پلتا ہے۔ وہ محتاط بھی ہے احترام کرنا بھی جانتا ہے۔ اپنے گھر کی عورت کی اگر حفاظت کرنا جانتا ہے تو باہر کام کرنے والی عورت کو عزت دینا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے۔ سڑک پر اگر کوئی گاڑی نہ رکے تو دور سے چل کر آنے والا ٹریفک اہلکار اگر کسی خاتون کے قریب آکر رکے اور ٹریفک کو رکنے کا اشارہ دے کر سڑک پار کروائے تو یہ اس کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک عورت کو دیا جانے والا احترام ہے۔ اے ٹی ایم کے باہر لگی مردوں کی لمبی قطار میں اگر کوئی شخص اپنی باری پر آپ کو بھیج دے تو اس سے ثابت ہوتا ہے وہ آپ کا اتنے رش میں بے بسی سے اپنی باری کا انتظار کرنا پسند نہیں کر رہا اسے آپ میں اپنے گھر کی کسی عورت کا دکھائی دینا اس عمل کو کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

بس میں اگر کوئی شخص اپنی سیٹ سے اٹھ کر کسی عورت کو بیٹھنے کی جگہ دے تو ضروری نہیں کہ وہ برا ہی ہو۔ دفتر میں بیٹھی اکیلی خاتون کو برابر میں بیٹھے تین سے چار مرد کولیگ اپنے گھر سے لایا کھانا کھانے کی پیشکش کریں تو یہ ان کی اچھی پرورش ہے۔ فیلڈ پر کام کرنے والی خاتون کو دیکھ کر دوسرے ادارے کا کوئی مرد رپورٹر آگے بڑھ کر سلام کرے تو وہ بدنیتی نہیں احترام ہوتا ہے۔ سڑک کنارے خراب گاڑی لئے کسی پریشان خاتون کو دیکھ کر اگر کوئی مرد ان کی مدد کو رکتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنا ٹائم پاس کرنے آیا ہے۔ جو بات ہم اپنے لئے پسند نہیں کرتے اگر اسے دوسروں کے لئے بھی سوچیں تو بہت سی تلخ باتیں کہنے، الزامات لگانے اور غلط فہمی دلوں میں پیدا کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ پھر یہ بحث دم توڑ سکتی ہے کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں، ساری عورتیں مظلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ احساس و جذبات کسی ایک صنف میں نہیں ہر انسان میں ہوتے ہیں جن کا احترام ہم سب کو کرنے کی ضرورت ہے۔

(سدرہ ڈار، نیو نیوز میں بطور رپورٹر سماجی مسائل، ماحولیات، موسم پر کام کر رہی ہیں، سیاسیات کی طالبہ ہے جبکہ لکھنا ان کا شوق ہے، صحافت سے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں )

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar