شاہ جی اور شورش کی میراث ـــــ چند حقائق


چند روز قبل “ہم سب” پر ایک صاحب نے اپنی ایک تحریر پر ہمارے ملاحظات کا جواب کچھ اس طرح دیا کہ ہمیں بے اختیار یہ شعر یاد آیا

اتنی نہ بڑھا پاکئ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ

“شاہ جی اور شورش کی میراث” کے عنوان سے اپنے اس مضمون میں انھوں نے نہایت چابک دستی سے خود کو “غیر جانبدار” کی حیثیت سے پیش کیا اور بزعمِ خویش یہ نتیجہ نکالا

 شاہ جی، شورش اور دیگر احرار رہنما مغلظات بکنے کے عادی تھے

 بدزبان اور فحش گو تھے۔

 مذہب کے نام پر پنجاب کے عوام کو بہکایا کرتے تھے۔

 انگریز سرکار کے ڈر سے قتل کے فتوے جاری کرنے سے گریزاں رہتے، لیکن

قاتلین کو غازی اور شہید کے تاج بھی پہنایا کرتے۔

چندہ خور تھے اور مالی خرد برد میں ملوث تھے۔

ذیل میں ہم صاحبِ مضمون کے ان تمام دعاوی کی قلعی کھولنے کی کوشش کریں گے جو انھوں نے “شاہ جی اور شورش کی میراث” میں کیے ہیں اور تاریخی شواہد سے یہ ثابت کریں گے کہ

مغلظات بکنے، فحش گوئی اور بدزبانی میں کون اُتارو تھا اور من حیث الجماعت یہ کس ٹولے کا طرہ امتیاز رہا؟

مذہب کے نام پر پنجاب کے عوام کو کس نے بہکایا اور الو بنایا؟

کون سا ٹولہ تھا جو انگریز سرکار کے عہد سے ہی اپنے مخالفین کو قتل کروا رہا تھا؟

چندہ خور کون تھا، مالی معاملات میں خردبرد میں کون ملوث رہا، آف شور کمپنیاں کس کی نکلیں، شاہ جی و شورش اور ان کے خانوادے کی یا جماعتِ احمدیہ کے بزرجمہروں کی؟

موصوف نے اپنے سابقہ اور موجودہ مضمون میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور دیگر احرار رہنماؤں کی بابت جس نکتہ کو بطور اعتراض اٹھایا ہے وہ شاہ جی کی مبینہ “بدزبانی، گالم گلوچ اور فحش گوئی” ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں وہ ایک بھی ثبوت پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی ان دونوں مضامین میں انھوں نے شاہ جی کی کسی ایک گالی کا حوالہ دیا ہے۔ اپنے حالیہ مضمون میں تو انھوں نے یہ کہہ کر اپنے رخ سے نقاب بھی اتار دیا ہے

“راقم کا تعلق جس طبقہ سے ہے اس کا اوڑھنا بچھونا ہی تحمل اور کشادہ دلی اور کشادہ خیالی ہے۔ جو دوست اس مغالطے کا شکار ہوں کہ ان اصحاب پر تنقید بے جا کی گئی ہے وہ تصحیح فرما لیں۔ اور یہ بھی دیکھ لیں کہ جماعت احمدیہ کا رویہ احرار کے لیڈروں سے نہ صرف مہذبانہ رہا ہے، بلکہ بوقت ضرورت ان سے احسان کا سلوک بھی رکھا گیا۔”

چلیں ہم یہاں یہ مان لیتے ہیں کہ شاہ جی اور دیگر احرار رہنما برطانوی سامراج اور اس کے سیاسی و مذہبی لے پالکوں کے لیے زبان کے استعمال میں قدرے غیر محتاط واقع ہوئے تھے لیکن شاہ جی تو ٹھہرے چودھویں صدی کے ایک مسلمان، جن کا واحد آسرا خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت تھی اور بس! ہم نہ تو شاہ جی کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی عصمت و معصومیت کے قائل ہیں اور نہ ہی شاہ جی نے کبھی ایسا دعویٰ کیا۔

لیکن صاحبِ مضمون جن صاحب کو مصلح موعود اور مسیحِ موعود مانتے ہیں، جنھیں صاحبِ مضمون سمیت تمام احمدی “سلطان القلم” کے لقب سے یاد کرتے ہیں، انھوں نے اپنے مخالفین نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ دین کی بنیادی ستون ہستیوں کے لئے جو زبان استعمال کی ہے، کیا وہ آئینِ شرافت کے عین مطابق ہے؟ کیا نبی کی زبان ایسی ہوا کرتی ہے؟ جو “لولوئے لالہ” مرزا صاحب نے اپنی تحریروں میں بکھیرے ہیں، واقعہ یہ ہے پڑھ کر ایک شریف النفس انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان کی بعض تحریریں تو اس قدر فحش اور بازاری ہیں کہ مجمع عام تو درکنار اکیلے پڑھنےمیں بھی ندامت محسوس ہوتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مرزا صاحب کے ناوکِ دُشنام سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا! مرزا صاحب کی محبوب گالیاں تو بہت سی تھیں لیکن اپنے مخالفین و منکرین کے لیے “زانیہ عورتوں کی اولاد” ان کی سب سے زیادہ محبوب گالی تھی۔ دوسری گالی جس سے مرزا صاحب کا نطق تسکین پاتا، وہ “حرام زادہ” کا لفظ تھا۔ آپ کوشاہ جی، شورش اور دیگر احرار رہنماوں کی مبینہ دشنام طرازی پر اعتراض ہے، چلیے وہ سب تو ٹھہرے اس دور کے مسلمان، لسانِ نبوت تو ایک عام گناہ گار مسلمان کی زبان سے بہرحال اعلیٰ و ارفع ہونی چاہئیے ناں!

جماعتِ احمدیہ کے مدار المہام اور استعماری ٹکسال میں ڈھلے ہوئے مرزا غلام احمد صاحب کی “کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی زبان” ملاحظہ کیجئے اور سر دھنیے!

“یہ میری کتابیں ہیں جن کو ہر مسلمان دوستی اور محبت کی نظر سے دیکھتا ہےاور مجھے قبول کرتا ہے اور میری تصدیق کرتا ہے اور ان کتابوں میں، میں نے جو معرفت کی باتیں لکھی ہیں، ان سے نفع اٹھاتا ہے، مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں) کی اولاد کہ وہ قبول نہیں کرتے۔”

(ائینہ کمالاتِ اسلام/ دافع الوساوس، روحانی خزائن جلد 5، ص 547)

بتائیے صاحب! یہ نبوی اخلاق ہیں؟ یہ معاذاللہ نبوت کی زبان ہے؟ قارئین انصاف کیجئے کہ ہم مسلمانوں نے مرزا صاحب کا کیا قصور کیا تھا کہ اس شخص نے ہمیں “ذریۃ البغایا” کی گالی دی؟

لطف کی بات یہ ہے کہ خود مرزا صاحب ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

“ناحق گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔”

(ست بچن، روحانی خزائن، جلد 10، ص 346، مطبوعہ لندن)

اپنے اس “ارشادِ” کی روشنی میں مرزا صاحب اور ان کے امتی مرزا صاحب کے لیے کیا القابات پسند فرمائیں گے؟

مزید ملاحظہ کیجیے:

“دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔”

(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن، جلد 14، ص 53، مطبوعہ لندن)

کیا شاہ جی، شورش یا کسی احرار رہنما نے کبھی مرزا صاحب یا ان کے متبعین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے؟ قادیانی عورت کو “کتیا” یا قادیانیوں کو “جنگلوں کے سور” کہا؟ مرزا صاحب کے ماننے والوں کو کبھی کسی احراری نے “کنجریوں کی اولاد کہا؟ نہیں اور ہرگز نہیں

مرزا صاحب کی “پاک صاف” زبان کی ایک اور مثال ملاحظہ کیجئے

“اور (جو) ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔۔۔۔۔ ورنہ حرام زادہ کی یہی نشانی ہے سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔”

(انوار الااسلام، روحانی خزائن، جلد 9، ص 31، 32، مطبوعہ لندن)

مرزا صاحب کی “خوش اخلاقی و حسنِ گفتار” ملاحظہ کیجئے کہ انھوں نے جب اپنے ایک مخالف کےلیے لعنت کا لفظ استعمال کیا تو بجائے یہ کہنے کہ تجھ پر ہزار بار لعنت ہو، باقاعدہ لعنت کی بوچھاڑ کر دی اور تقریبا چار صفحات لعنت لعنت لعنت لکھتے چلے گئے اور گن کر ایک ہزار بار لعنت کا لفظ استعمال کیا! ستم ظریفی یہ ہے کہ صاحبِ مضمون اور ان ایسے مرزا صاحب کے گھامڑ مریدین پھر بھی ایسے شخص کو “سلطان القلم” سمجھتے ہیں!

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

لعنت بازی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں

(نور الحق، روحانی خزائن، جلد 8، ص 158-162، مطبوعہ لندن)

معاف کیجئے! شاہ جی اور ان کے رفقاء نے کبھی مرزا صاحب یا ان کے ٹولے کےلیے اس طرح لعنت لعنت لعنت کی گردان نہیں کی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے لیے سخت سے سخت زبان بھی استعمال کی جاتی تو شائد پھر بھی کمی رہتی۔ اب ایسے شخص جو نبی ہونے کا مدعی ہے، کے بارے میں کیا زبان استعمال کی جائے؟ انسانیت کے کس مقام پر اس کو درجہ دیا جائے اور کیا درجہ دیا جائے؟ کیا یہ کسی شریف آدمی کی زبان ہے؟ کیا ایسے آدمی کو شریف کہا جا سکتا ہے؟

یہ تو تھا برطانوی استعمار کے بغل بچے پنجابی نبی کا لہجہ و دشنام طرازی، اب ایک جھلک شاہ جی کے ایک خطیبانہ شہ پارے کی طرف بھی، جعلی نبی اور حلقہ بگوشِ محمدِ عربی ص کی زبان کا فرق صاف دیکھا جا سکتا ہے:

“تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے۔ اس کے نقوش میں توازن نہ تھا، قدوقامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کریکٹر کی موت تھی، سچ کبھی نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل اور ٹوڈی تھا، تقریری و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔۔۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی 45 انچ کی، کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتا نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، مردِ میدان ہوتا، کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا ماہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپئیر اور اردو کا ابولکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟۔۔۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر علی رض دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی، سیدنا ابوبکر صدیق رض، سیدنا فاروق اعظم رض اور سیدنا عثمان غنی رض بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انھیں نبی مان لیتا؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی ایسا انسان نہیں جو تختِ نبوت پر سج سکے اور تاجِ امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔”

(خطاب: امیرِ شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ستمبر 1951، کراچی)

لیجئے صاحب! مرزا صاحب کی تحریریں اور شاہ جی کی تقریر کا اقتباس پڑھنے کا بعد خود فیصلہ کر لیجئیے کہ مغلظات کون بکتا ہے، گالم گلوچ کس کی فطرت اور خمیر کا حصہ ہے! ہم اس پر مزید تبصرہ نہیں کرتے، قارئین خود محسوس فرمائیں گے کہ مرزا صاحب کی تحریروں کے اقتباسات سے طبیعت میں جو یبوست و انقباض پیدا ہوا اور جس طرح طبیعت منغض ہوئی، شاہ جی کی رواں دواں، گنگا جمنی زبان سے وہ کیفیت جاتی رہی ہے!

یہاں یہ بات کافی اہم ہے کہ مرزا صاحب کی ہرزہ سرائی اور دریدہ دہنی یوں ہی بلا مقصد نہیں تھی، بلکہ یہ خوب سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔ اس باب میں مرزا صاحب اپنے آقا انگریز بہادر کے پے رول پر تھے۔ اس لیے استعماری حکومت مرزا صاحب کی اس زبان کا حوصلہ بڑھاتی۔

شورش کاشمیری لکھتے ہیں:

“واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق انتہائی نازیبا زبان استعمال کر کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عیسائی مشنریوں کی زبان کھلوائی اور مسلمانوں کی ذہنی زندگی کو ایک ایسے الجھاؤ میں پھنسا دیا جس کا بدیہی نتیجہ ان حالات میں انگریزی حکومت کی مصلحتوں کے لیے نفع آورتھا۔”

اسی طرح راج پال اور بعض دوسرے شاتمان رسول کے فتنے کا سرِ آغاز بھی درحقیقت مرزا صاحب کے ہندو دھرم پر رکیک حملے تھے۔ ہندوؤں میں آریہ سماج ایک ترقی پسند فرقہ اپنی ابتداء میں تھا، سوامی دیانند اس کے بانی تھے، مرزا صاحب نے اس فرقہ کو ہدف بنا کر ہندو دھرم پر گھٹیا حملے کیے۔

شورش لکھتے ہیں:

” نتیجۃ آریہ سماج نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن و اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کا آغاز کیا اور عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا کہ اسلام میں پیغمبروں کی زبان یہی رہی ہے اور جو شخص خود کو محمدِ عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا “ظل و بروز” کہتا ہے، اس کی زبان اتنی غلیظ ہے، تو جس کا “بروز و ظل” ہے، اس کی زبان (خاکم بدہن) کیا ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بدگوئی کی مہم کا سبب مرزا صاحب کے یہی مباہلے، مجادلے اور مناظرے تھے! نتیجۃ آریہ سماجیوں سے مناظروں میں بدگوئی کی سزا مرزا صاحب کے بجائے اسلام کو بھگتنی پڑی۔ چنانچہ “ستیارتھ پرکاش” کا پہلا ایڈیشن جو 1875 میں راجہ جے کشن داس سی ایس آئی کے زیر اہتمام بنارس میں چھپا تھا اور جس کے حقوق سوامی دیانند نے ان کے ہاتھ فروخت کر دیئے تھے، ابتدا میں بارہ ابواب پر مشتمل تھا۔ اس میں تیرہویں اور چودھویں باب کا اضافہ مرزا صاحب کی ان تحریروں کے بعد ہوا جن میں آریہ سماجیوں کے “نیوگ” ایسے معاشرتی مسئلے کو چھیڑ کر ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان کے بعض عقائد کو مضحکہ خیز قرار دیا گیا تھا، سوامی دیانند 30 اکتوبر 1883 کو انتقال کر گئے تو مرزا صاحب نے ان کی موت بھی اپنی پیشین گوئیوں سے وابستہ کر لی، چنانچہ ان کی رحلت کے بعد “ستیارتھ پرکاش” کا جو دوسرا ایڈیشن چھپا، اس میں تیرھویں اور چودھویں باب کا اضافہ تھا جن میں خدا اور رسول پر رکیک حملے کیے گئے تھے،

ہمارے کچھ دوست مہاشہ راجپال کے قتل کرنے کے غازی علم الدین شہید کے اقدام اور اس ضمن میں شاہ جی کی تقریر کا حوالہ تو خوب زوروشور سے دیتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں “ہم سب” پر ہی جناب حاشر ابن ارشاد صاحب نے تین اقساط میں ایک مضمون بھی گھسیٹ ڈالا، لیکن انھوں نے بھی محض شاخوں اور پتوں کا تجزیہ کرنے پر ہی اکتفا کیا اور برعظیم پاک و ہند میں اس دریدہ دہنی، ہرزہ سرائی کی بنیاد ڈالنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کو وہ بھی فراموش کر گئے کہ اسلام کو گالیاں بکنے کی جو روایت برعظیم میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں کے یہاں نظر آتی ہے، اس کی طرح ڈالنے والا کوئی اور نہیں بلکہ برٹش امپریلزم کا “خود کاشتہ پودا” مرزا غلام احمد قادیانی ہی ہے!

صاحبِ مضمون نے شاہ جی کے بارے میں عبدالمجید سالک کی ایک روایت ذکر کی ہے، جو سالک کی “سرگزشت” میں موجود ہے۔ بات کچھ نہیں بس بے تکلف دوست احباب کی محفل میں ایک دوسرے پر کی جانے والی دوستانہ چوٹیں ہیں، واقعہ یہ ہےکہ ایام اسیری کے دوران شاہ جی نے بطور لطیفہ ایک قصہ سنایا، جس میں ایک تحصیل دار صاحب کو چڑائے جانے کا ذکر تھا، تین چار دن کے بعد دوستوں نے طے کیا کہ شاہ جی کو چڑایا جائے اور انھوں نے اتنا چڑایا کہ زچ کر دیا تو شاہ جی نے پہلے تو انھیں ڈانٹا جب پھر بھی احباب باز نہ آئے تو شاہ جی نے غصے میں مغلظات تک سنا دیں۔ بات بس اتنی سی تھی، جس کو زیبِ داستاں کے لیے کہاں سے کہاں پہنچا دیا گیا۔ بارِ دگر عرض ہےکہ شاہ جی اس دور کے انسان تھے، انسانی کمزوریوں سے مبرا کیونکر ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی خوبیاں قدرت کی عطا تھیں اور کسی بھی شخصیت کو اس کی کلیت میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ جزوی طور پر شخصیت کی compartmentalization کر کے!

جہاں تک سالک صاحب کا احرار کی “ریشہ دوانیوں” کے نقاد ہونے کا تعلق ہے تو اس کے کچھ مخصوص سیاسی وجوہ ہیں۔ سالک کا سیاسی مسلک احرار سے الگ تھا، انھوں نے “انقلاب” کے صفحات یونینسٹ پارٹی کے لیے وقف کر رکھے تھے۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ سالک مرزائیوں کے بارے میں بوجوہ نرم گوشہ رکھتے تھے جب کہ احرار مرزائی امت کے شدید ترین ناقد! پسرِ سالک نے تو اس ضمن میں بنا کسی لگی لپٹی مرزائیوں کی وکالت اور علمائے کرام پر جانبدارانہ تنقید کو اپنا شیوہ بنا لیا تھا۔

صاحبِ مضمون نے بڑے رسان سے سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور کے 1935 کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے، لیکن اس کے مالہ و ماعلیہ کو وہ پھر شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس مقدمے، اس کے تاریخی تناظر، شاہ جی کی تقریر، مقامِ تقریر، تقریر کی وجہ اور موقع و محل پر بھی روشنی ڈالتے اور پھر سپیشل مجسٹریٹ کے اس فیصلے کی جو تنسیخ مسٹر جی ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپورنے اپنے تاریخی فیصلے 6 جون 1935 کے ذریعے کی جس سے قادیانی امت بے نقاب ہو گئی، اس پر بھی خامہ فرسائی کرتے۔ لیکن وہ بھلا ایسا کیوں کرنے لگے! یہ تو بیچ چوراہے اپنے “پوتڑے” دھونے کے مترادف ہوتا!

سیشن جج گورداسپور مسٹر کھوسلہ نے شاہ جی کے جرم کو محض اصطلاحی قرار دے کر تااجلاسِ عدالت قیدِ محض کی سزا دی۔ مرزائیوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا انھوں نے اس فیصلے کے بعض حصوں کو محذوف کرانے کے لیے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔ فی الاصل یہ پہلا عدالتی جائزہ تھا کہ قادیان میں مرزائیوں کی “ریاست اندر ریاست” کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا گیا اور بقول شورش کاشمیری

“حکومت کو بھی غالبا پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ اس کا “خود کاشتہ پودا” خودسر بھی ہے!”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).