حامد میر اور 1974 میں قومی اسمبلی کی کارروائی


مورخہ 30 نومبر 2017 کو مکرم حامد میر صاحب کا مضمون ’ختم نبوت پر ایک سوشلسٹ کا موقف“کے نام سے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ اس میں پاکستان کی آئینی اور مذہبی تاریخ کے حوالے سے بعض امور کا ذکر کیا گیا ہے۔ میری رائے میں کئی امور کا اس طرح نامکمل ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے نا واقف پڑھنے والے کے ذہن میں ایسا تاثر پیدا ہو سکتا ہے جو کہ حقائق کے بالکل بر عکس ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مکرم حامد میر صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ

”موجودہ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے اکثر اراکین ارکان کو ختم ِ نبوت کے معاملے کی حساسیت سے آگاہی نہ تھی ۔ ان ارکان نے 1974 میں پاکستان کی منتخب قومی اسمبلی میں ختم نبوت پر ہونے والی تفصیلی بحث پڑھی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ معاملہ صرف چند علماء نے نہیں اُٹھایا تھا….“

ہمیں حیرت ہے کہ اگر حامد میر صاحب نے یہ کارروائی پڑھی ہے تو وہ یہ خلافِ واقعہ بات کیوں لکھ گئے ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ 30جون 1974کو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی اس سوال کا جائزہ لے گی کہ اسلام میں اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو کہ حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو آخری نبی نہیں مانتا ؟ اور اس موضوع پر اور ان موضوعات پر جن کا ذکر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف پیش کی جانے والی اپوزیشن کی قرارداد میں ذکر کیا گیا ، جماعت کا موقف مورخہ 22 اور 23جولائی کو قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں ایک محضرنامے کی صورت میں پڑھا گیا تھا۔جو ہمارے پاس کتابی شکل میں موجود ہے اور اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اب جو حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کی یہ کارروائی شائع کی گئی ہے اس میں ان دو دنوں کی کارروائی شامل نہیں ہے جن دنوں جماعت ِ احمدیہ کا موقف پیش کیا گیا تھا۔اس کے بعد5 اگست سے 24اگست تک وقفہ کے روز نکال کر جماعت ِ احمدیہ کے وفد سے سوالات کیے گئے ۔لیکن یہ بات پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈالے گی کہ جماعت احمدیہ کے وفد سے کئے گئے سوالات میں اس سوال کے بارے میں جس کا جائزہ قومی اسمبلی نے لینا تھا یا مسئلہ ِ ختم ِ نبوت کے بارے میں سوالات کیے ہی نہیں گئے تھے۔ یہ تمام روز غیر متعلقہ موضوعات پر سوالات کرتے ہوئے ضائع کیے گئے تھے مثلاََ جماعت ِ احمدیہ کی تعداد کتنی ہے ، پہلی جنگ ِ عظیم کے اختتام پر قادیان میں چراغاں ہوا تھا کہ نہیں ، کیا مشرقی پاکستان جماعت ِ احمدیہ کی وجہ سے علیحدہ ہوا تھا؟ جماعت نے مودودوی صاحب کومسٹر کیوں لکھا، مولانا کیوں نہیں لکھا، باؤنڈری کمیشن میں جماعت ِ احمدیہ کا موقف کیا تھا؟ وغیر ہ ۔ ظا ہر ہے ان سوالات کا مسئلہ ختم ِ نبوت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاہم ان سوالات کے بھی تسلی بخش جوابات جماعت احمدیہ کے وفد نے دئیے تھے۔ اس کے بعد 7ستمبر تک جو کارروائی ہوئی تھی اس میں جماعت ِ احمدیہ کا وفد شامل ہی نہیں تھا اور اُس وقت مفتی محمود صاحب اور مولوی عبد الحکیم صاحب نے اپنی تقاریر میں مسئلہ ختم نبوت کا ذکر کیا تھا لیکن اُس وقت جماعت ِ احمدیہ کا وفد موجود نہیں تھا اس لیے ان باتوں پر اپنا موقف پیش نہیں کر سکتا تھا اوریہ کارروائی کئی دہائیوں تک خفیہ رکھی گئی تھی۔اس طرح قومی اسمبلی میں سوال و جواب کے دوران مسئلہ ختم ِ نبوت یا زیر غور سوال پر کوئی بحث نہیں ہوئی تھی۔اور اس کارروائی کے دوران اس بات کی نشاندہی ایک ممبر اسمبلی نے بھی کی اور ان سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔جو کارروائی قومی اسمبلی کی طرف سے شائع کی گئی ہے اس کے صفحہ504پر ملاحظہ فرمائیں ، ایک ممبر محمد سردار خان صاحب نے کہا

“I should say before the special committee of the assembly the question is as to what is the status of the person who does not believe in the finality of the Prophethood. That question or that point is still untouched.”

ترجمہ: مجھے یہ کہنا چاہیے کہ اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کے سامنے سوال یہ ہے کہ جو شخص ختم ِ نبوت پر یقین نہیں رکھتا اس کی حیثیث کیا ہے؟ اور اب تک ہم نے اس موضوع کو چھوا بھی نہیں ہے۔

اس کے بعد کارروائی کا صفحہ 2916اور2917 پر ظفر احمد انصاری صاحب اور عبد الحق صاحب کے واضح بیانات موجود ہیں کہ اس کارروائی میں ہم مسئلہ ختم ِ نبوت یا اس موضوع پر کہ احمدی مسلمان ہیں یا نہیں ہیں کوئی بات ہی نہیں کر رہے۔جبکہ قواعد کی رو سے انہوں نے اسی مسئلہ پر بات کرنی تھی۔اور اگر اس مسئلہ پر بات نہیں کرنی تھی تو پھر یہ کمیٹی قائم کیوں کی گئی تھی؟

اگر یہ پہلو نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ سوال و جواب غیر متعلقہ موضوعات پر ہوئے تو بھی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جو بھی اعتراضات پیش کیے گئے ان کی بنیاد وہ حوالے تھے جو کہ جماعت ِ احمدیہ کے لٹریچر سے پیش کیے گئے تھے اور کارروائی کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ حوالے بار بار غلط ثابت ہوتے رہے حالانکہ کتابیں سامنے پڑی ہوئی تھیں۔سوالات ممبر لکھ کر دیتے جنہیں اٹارنی جنرل صاحب پیش کرتے۔جب ایک کے بعد دوسرا حوالہ غلط ہوتا گیا تو اٹارنی جنرل صاحب نے تنگ آکر کہا

©”I request the honorable memebers not to supply me loose balls to score boundries”(page 548)

ترجمہ :میری معزز ممبران سے درخواست ہے کہ مجھے ایسی خراب گیندیں مہیا نہ کریں جن پر چوکے چھکے پڑیں۔

سپیکر صاحب نے ممبران کے پیش کردہ حوالے نہ ملنے پر بار بار اظہار  ناراضگی کرنے کے بعد کہا

©” We should not cut a sorry figure before the members of the delegation. And these members should be here upto 6″(Page 425)

ترجمہ: ہمیں وفد کے ممبران (یعنی جماعت ِ احمدیہ کے وفد کے ممبران ) کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ممبران چھ بجے یہاں پہنچ جائیں گے۔

اُس وقت کارروائی اور سوالات کا جو معیار تھا اس کے بارے میں ایک اور ممبر عبد الحمید جتوئی صاحب نے یہ تبصرہ کیا

’….ہم اس ہاو ¿س میں جج بنے ہیں اور فیصلہ کریں گے۔میں سمجھتا ہوں ہماری پوزیشن وہی ہے جیسا کہ ایک نان ایڈووکیٹ کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیا جائے …. فیصلہ کرنے کا اس آدمی کو کیسے حق آپ دیتے ہیں جس کو فیصلہ کے قانون کا پتہ نہ ہو۔ “(کارروائی صفحہ256)

اسی طرح حامد میر صاحب نے ملک جعفر صاحب کی تقریر کا جو حوالہ دیا ہے اس میں بھی قرآنِ مجید اور احادیث ِ نبویہ کے حوالے سے مسئلہ ختم نبوت پر کوئی بحث نہیں کی گئی تھی بلکہ جماعت ِ احمدیہ پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ہم نے شائع کردہ کارروائی سے ممبران ، اٹارنی جنرل صاحب اور سپیکر صاحب کے تبصروں کے اصل الفاظ درج کردیئے ہیں۔ ان کو پڑھ کر ہر شخص حامد میر صاحب کے دعوے کے بارے میں اپنی رائے خود قائم کر سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).