پادری، ابن سینا اور اینڈوکرنالوجسٹ


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر تھا جس کا نام نارمن تھا۔ اس شہر میں‌ تین مشہور صحت اور روحانی علاج فراہم کرنے والے افراد رہتے تھے۔ ایک چرچ کے پادری تھے، دوسرے تحقیق دان ابن سینا اور تیسرے ایک اینڈوکرنالوجسٹ۔ چرچ کے پادری صاحب ہر وقت پرانی کتابیں‌ پڑھتے اور اپنی کتابیں‌ لکھتے رہتے۔ اینڈوکرنالوجسٹ کو نئے جرنلز میں‌ چھپنے والی اسٹیڈیز پڑھنے کا خبط تھا اور وہ ہر سوال اٹھا کر اس پر آرٹیکل ڈھونڈنے لگ جاتے۔ ابن سینا ہر روز نت نئے خیالات پیش کرتے اور طرح طرح‌ کے تجربات میں‌ لگے رہتے۔

ایک مرتبہ اینڈوکرنالوجسٹ صاحب انسانوں کی جلد کے رنگ کا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں کہ سینکڑوں سال پہلے گزرے دانشور افریقیوں کے رنگ سے متعلق ٹھیک لائنوں پر سوچ رہے تھے۔ نئی تحقیق اس بات کی سمت اشارہ کرتی ہے کہ سارے انسان افریقہ یا ایشیاء سے ہی شروع ہوئے تھے پھر آہستہ آہستہ شمال کی سمت بڑھتے گئے اور سورج کی شعاعوں‌ کی مدد سے اپنی جلد میں‌ وٹامن ڈی بنانے کی وجہ سے ان کی جلد کا رنگ ہلکا ہوتا چلا گیا۔ انہوں‌ نے اس بات کا بھی مشاہدہ کرلیا کہ جو انسان دھوپ میں‌ باہر نہیں‌ آتے اور بہت زیادہ خود کو کپڑوں میں‌ لپیٹے رکھتے ہیں، ان میں‌ وٹامن ڈی کی کمی زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس بات کو کسی نے جاکر پادری کے شاگردوں‌ کو بتا دیا۔ ان کا پارا چڑھ گیا اور انہوں‌ نے کہا کہ یہ محض فضولیات ہیں، کالے اس لیے کالے ہیں‌ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ وہ کالے ہوں۔

کچھ لوکل ڈاکٹرز دماغ اور ہاتھ کے درمیان تعلق تلاش کرنے کی کوشش میں‌ لگے ہوئے تھے تو پادری نے ان کا مذاق بنایا اور کہا کہ ہاتھ اس لیے ہلتے ہیں‌ کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ ہاتھ ہلیں۔ ان کے برعکس ابن سینا ہر وقت تجربات اور مشاہدے میں لگے رہتے تھے۔ لوکل ڈاکٹرز میں ابن سینا بہت مقبول ہونا شروع ہوگئے۔ ان ڈاکٹرز نے ان کو ”الشیخ رئیس“ یعنی کہ عقلمند انسانوں کے رہنما کے لقب سے بھی کھلم کھلا پکارنا شروع کردیا۔ اور تو اور وہ لوگ ابن سینا کی میڈیکل کی کتاب قانون بھی اپنے میڈیکل کالجز میں‌ پڑھانے لگے۔ یہاں‌ تک کہ کچھ نے تو ان کو ”اطباء کا شہزادہ“ تک کہہ ڈالا۔

ایک مرتبہ ایک ٹرک ڈرائیور اپنا سالانہ چیک اپ کرانے گئے تاکہ ان کا پروفیشنل لائسنس پھر سے نیا کیا جاسکے۔ جب ان کا پیشاب کا ٹیسٹ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس میں‌ شوگر ہے۔ لیکن ان کے فیملی ڈاکٹر کو یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ خون کے ٹیسٹ نارمل تھے اور ان صاحب کو ذیابیطس نہیں‌ تھی۔ اس پیچیدہ مسئلے کو سلجھانے کے لیے انہوں‌ نے اس مریض‌ کو ابن سینا، پادری اور اینڈوکرنالوجسٹ سے مشورہ کرنے بھیجا۔

پہلے وہ آدمی پادری کے پاس گیا۔ انہوں‌ نے کچھ دیر سوچا پھر ایک سرمہ دانی جیسی چیز میں‌ سے ان کے سر میں‌ پانی کے چھینٹے مار کر کہا کہ آپ کے پیشاب میں‌ شوگر اس لیے آرہی ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ آپ کے پیشاب میں‌ شوگر آئے۔ اب میں‌ کیا کروں؟ اس آدمی نے پریشانی سے پوچھا تو پادری نے کہا کہ وہ صرف غیب کو پتا ہے، آپ کے ہاتھ میں‌ کچھ نہیں اور جو مقدر میں‌ ہوگا وہ ہو جائے گا۔

اس کے بعد وہ آدمی ابن سینا کے پاس گیا اور رو رو کر اپنا مسئلہ بتایا۔ انہوں‌ نے توجہ سے اس بات سنی اور اس کیس پر دن رات اپنے شاگردوں‌ کے ساتھ ریسرچ کرنا شروع کردی۔ یہ لوگ اس مریض‌ کے سارے خاندان کے پیچھے پڑ گئے، ان سے بہت سارے سوال کیے اور بہت سارے ٹیسٹ بھی کیے۔ اس کے بعد ابن سینا کے شاگردوں‌ نے ”فیمیلیل رینل گلوکوزیوریا“ نامی ایک عجیب نئی جین میوٹیشن تلاش کرلی۔ پھر ان کی اگلی نسل کے شاگردوں‌ نے ایسی دوا بھی بنا لی جو ذیابیطس کے مریضوں میں‌ استعمال کرنے سے وہ بھی اپنے خون میں‌ پائی جانے والی زیادہ شوگر کو پیشاب کے زریعیے خارج کرسکیں جس سے ان کی ذیابیطس بہتر ہوسکے۔

اینڈوکرنالوجسٹ نے جب اس نئی ایجاد کے بارے میڈیکل جرنلز میں‌ پڑھا تو وہ فوراً اس کو سیکھنا شروع ہوگئے، اپنے مریضوں‌ کو لکھ کر دینے لگے اور اس کے علاوہ سفر کرکے دیگر ڈاکٹرز کو بھی اس نئی دوا کے بارے میں‌ سکھانا شروع ہوگئے۔ انہوں‌ نے اپنے پروفیشنل لیٹر ہیڈ پر خط بھی لکھ کر دیا کہ اس مریض کو ایسا کوئی صحت کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ ٹرک نہ چلا سکے۔ اس سے ٹرک ڈرائیور کی نوکری بحال ہوگئی اور وہ خوش خوش چلا گیا۔ ایک دن دروازہ بجا۔ کھولا تو دیکھا کہ پادری کھڑے ہیں۔ ”میں‌ آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟ “ اینڈوکرنالوجسٹ نے پوچھا۔ پادری نے کہا کہ مجھے ذیابیطس ہوگئی ہے اور آپ مجھے وہ نئی دوا لکھ کر دیں‌ جو آپ نے میرے پڑوسی کو لکھ کر دی تھی تاکہ میری ذیابیطس بھی بہتر ہوجائے۔ اینڈوکرنالوجسٹ نے پرسکرپشن پیڈ اٹھایا اور پادری کے لیے نئی ”ایس جی ایل ٹی ٹو انہیبٹر“ کلاس کی دوا لکھ دی۔
دی اینڈ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).