پاکستانی صحافیوں کو مولوی پسند ہے؟


​پاکستان کے جن صحافیوں کی تحریریں ہم تک پہچتی ہیں ان کا مطالعہ کرکے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے کچھ صحافیوں پر مولوی بننے اور دین کی ٹھیکیداری کا بھوت اکثر سوار رہتا ہے۔ حامد میر صاحب اپنے قارئین کو یاد دلاتے ہیں کہ احمدیوں کو کافر قرار دینے کا معاملہ متفق علیہ ہے، اوریا مقبول جان کو لگتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو مغرب نے اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تیار کیا ہے اور عامر لیاقت حسین صاحب لٹھ لے کر بہت دنوں تک ان بلاگروں کو ڈھونڈتے پھرے جنہوں نے سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مواد نشر کیا ہے۔ مجھے ان بزرگوں پر اکثر حیرت ہوتی ہے اور سوچتا ہوں کہ کیا صحافیوں کا یہی کام ہے کہ وہ فرد، قوم یا جماعت کے خلاف لوگوں کو اکسانے کی کوشش کریں؟۔

حامد میر صاحب احمدیوں کے سلسلہ میں پاکستانیوں کی یادداشت تازہ فرما رہے ہیں۔ ان کی نیک نیتی اپنی جگہ لیکن کیا اس موقع پر اس سے ضروری یہ نہیں تھا کہ حساس مذہبی معاملات پر لوگوں کے جذبات برانگیختہ کرنے والے صاحبان جبہ و دستار سے سوال کیا جائے؟، کیا اس وقت اس حکومت کا احتساب ضروری نہیں تھا جس نے اشتعال انگیزی کرنے والی چند سو افراد کی بھیڑ کے آگے ریاست کو سرینڈر کرا دیا؟، کیا یہ وقت اس بات کی فکر کرنے کا نہیں ہے کہ آگے کوئی اور اس طرح ریاست کو یرغمال نہ بنا سکے؟ کیا یہ تشویش کا موضوع نہیں کہ بیس دن سے زیادہ چلے دھرنے کے دوران سوشل میڈیا پر جن افراد کو بطور گستاخ رسول متعارف کرا دیا گیا ہے ان میں سے کسی کو یا ان سب کو کوئی غازی ممتاز قادری ثواب کے لالچ میں ٹھوک نہ دے؟َ کیا یہ بات اہم نہیں کہ عوام کو بیدار کیا جائے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ یہ جماعتیں بطور حکومت یا حزب اختلاف مذہب کی آڑ میں ہر جائز ناجائز اقدام کو قبول نہ کریں؟ اتنی ساری باتوں کو چھوڑ کر ہمارے محترم حامد میر صاحب کو اس بات کی فکر لگی کہ کہیں دھرنے سے پیدا غصہ کا نتیجہ احمدیوں کے ساتھ ہمدردی یا ان کے بارے میں موقف پر نظر ثانی کی شکل میں سامنے نہ آ جائے۔

اوریا مقبول جان صاحب یہ ماننے کوتیار نہیں کہ سوات میں واقعی کسی ملالہ یوسف زئی کوطالبان نے گولی ماری تھی۔ جان صاحب کا مسلک ہے کہ مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ملالہ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جان صاحب کا مذہب اور اپنے ملک سے عشق سر آنکھوں پر لیکن انہیں شاید خیال نہیں رہا کہ خواتین پر ہونے والے ظلم کے سلسلہ میں بدنام کرنے کے لئے کسی ملالہ کی الگ سے ضرورت نہیں ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ دن کے اجالے میں جو کچھ ہوا، وہی کسی معاشرے کے برسوں کی شرمندگی کے لئے کافی ہے۔ قندیل بلوچ کے ساتھ غیرت کے نام پر جو کچھ کیا گیا اس سے بھی نیک نامی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی بچی کی تکیلف دہ بے حرمتی سے زیافہ اذیت اس پر ہونی چاہیے کہ اس صوبے مین حکمران جماعت کے نام نہاد غیرت مند لیڈر کو مظلوم بچی کے سر پر ہاتھ رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے اکثر جوان بچیوں کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں اور ایسے واقعات سے اوریا مقبول جان بوجوہ بہتر طور پر باخبر ہیں اس کے بعد بھی کیا انہیں لگتا ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے کسی ملالہ کے سر میں گولی مارنے کا ڈرامہ کھیلنا ضروری ہوگا؟

عامر لیاقت حسین صاحب ان دنوں اسکرین سے دور ہیں لیکن جس وقت وہ ٹی وی پر آیا کرتے تھے اس وقت اکثر یہ تعین کرنا دشوار ہوتا تھا کہ ہم کسی صحافی کو سن رہے ہیں یا کسی نور علیٰ نور مولوی کے بیان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ صحافت کا تعلق آگاہ کرنے سے ہے لیکن ان بزرگوں کا طرز عمل مفروضہ دشمن کی طرف سے ناحق وسوسوں میں گھرے کسی مولوی جیسا معلوم ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں مذہبی جذبات بھڑکا کر ہفتہ دس دن میں کوئی بھی امیر المجاہدین اور شیر اسلام بن جاتا ہو وہاں اسی بیانیہ کو آگے بڑھانا صحافت کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ ایسے حالات میں پیشہ وارانہ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے کے بپھرے جذبات کو معمول پر لانے کے لئے کام کیا جائے۔ مشتعل بھیڑ کے ساتھ نعرے لگا دینے سے آپ وقتی طور پر بھیڑ کے عتاب کا شکار ہونے سے تو بچ سکتے ہیں لیکن آپ اس پیشہ کے ساتھ انصاف نہیں کرتے جو آپ سے معاشرے میں خرد افروزی اور انسان دوست اقدار کو فروغ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter