جوڑیاں جگ تھوڑیاں: مستانہ، پروانہ کی گلوکار جوڑی ٹوٹ گئی


\"khalidبعض اموات صرف گھر والوں کو دکھ دیتی ہیں بعض صرف دوستوں اور لواحقین کو اور کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جن کا صدمہ پورے وسیب کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے اوررشتہ داری یا خون کے بندھن سے باہر بھی مونجھ دور دورتک محسوس کی جاتی ہے،فنکار کا تعلق بھی چونکہ ایک وسیع آبادی کے ساتھ ہوتاہے اور پیارکرنے والے بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی میں کبھی ان کے ساتھ ملے بھی نہیں ہوتے،چہرے کی شناسائی تک نہیںرکھتے ہوتے مگر وہ فنکار کو اپنے دل کے بہت قریب پاتے ہیں اور جس طرح نصیر مستانہ بھرےامیلہ چھوڑ کر یوں چل دیئے ہیں،ایسے دکھ کو بھلا ان کاکون مداح ہو گا جومحسوس نہ کر رہاہوگا۔ ان کا 5 مارچ 2016کو یوںمکمل خاموشی کے ساتھ کوچ کر جانا ہر ایک کے دل پر کاری ضرب لگا گیاہے ،ان کے تمام مداح ان کے لئے مغفرت کی دعا میں شامل ہیں ،آمین۔ بتایا گیاہے کہ وہ درویش منش اور سادہ طبیعت والا فنکار تیمارداری اور علاج کامرہونِ منت ہوئے بغیرملک عدم کو سدھارگیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

یہ بات بر ملاکہی جاسکتی ہے کہ سرائیکی زبان ،شعرو سخن اور فوک (بشمول شاعری اور سنگیت) بڑے شہروں میں ہائی کلاس جینٹری کے ڈرائنگ رومز تک لے جانے کا پہلا اعزاز زاہدہ پروین کو حاصل ہے جنہوں نے استاد عاشق علی خان (پٹیالہ گھرانہ )کی شاگرد ہوتے ہوئے بھی کافی گائیکی میں خان صاحب توکل حسین خان (گوالیار گھرانہ)کا انگ اپنایا اوراسی بناپر وہ اب تک اپنی خوبصورت کافی گائیکی میں ’ناقابل تسخیر ‘ سمجھی جاتی ہیں، شاید بہت سے احباب کو اس امر کاعلم نہ ہو کہ اس مٹھڑی زبان کو اپنی مدھر آواز کے ذریعے عام کرنےوالی زاہدہ پروین سرائیکی سپیکنگ نہ تھیں بلکہ وہ ہجرت میں ایسٹ پنجاب سے یہاں آئی تھیں ،اس عظیم گائیکہ کے بعد سرائیکی زبان کو لاہور ،اسلام آباد اور پنجاب کے دیگرخصوصاً غیر سرائیکی علاقوں میں مقبول عام بنانے میں بھائیوں کی اس گائیک جوڑی نصیر مستانہ جمیل پروانہ کا بہت بڑا حصہ ہے۔کسی شاعر یا ادیب کو ماں بولی کی ترویج و ترقی کا یہ اعزاز اورفخر حاصل نہ ہوا ہوگا جو احمد پورشرقیہ کی اس گائیک جوڑی کو حاصل رہا ہے اور ہمیشہ یہ کریڈ ٹ بھی انہی کارہے گاکہ انہوں نے سرائیکی وسیب کے کئی نئے اور پرانے گیت غیر سرائیکی وسیب میں بھی مقبول بنا دیئے اور \” ماکھی توں مٹھڑی ڈھولے دی بولی \” کو سب کی ڈارلنگ بنا دیا۔

\"mastanaنصیر مستانہ جمیل پروانہ خاندانی لحاظ سے میرعالم نہیں تھے بلکہ کئی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس میں یہ بتایا گیاہے کہ وہ احمد پور شرقیہ جو بہاولپور کی ایک معروف تحصیل ہے کے رہنے والے جناب محمد امین خان ر اجپوت کے صاحبزادے تھے،نصیر مستانہ عمر میں بڑے تھے جب کہ جمیل پروانہ عمر میں چھوٹے مگر قامت میں دراز قد تھے ۔وہ چھہ بھائی ہیں ایک داغ مفارقت دے گئے پانچ اللہ کے فضل سے حیات ہیں ،سب سے بڑے عبدالرشید خان،پھر بشیر احمد خان،نصیر مستانہ، خورشید احمد خان (پٹواری)،جمیل پروانہ اور چھوٹے خلیل احمد وہ بھی پٹواری ہیں۔جمیل پروانہ اب چھوٹے بھائی خلیل (جو خلیل قیصر کے نام سے معروف ہیں اور اس جوڑی کےساتھ وہ ہارمونیم پر سنگت کرتے تھے ) کے ساتھ نئی جوڑی بنائیں گے اور اس کام کو رکنے نہیں دیں گے۔

بہاولپور کے کلاسیکل گائیک استاد مبارک علی خان کے بقول مستانہ نہایت ملنسار اور درویش طبیعت کے مالک تھے جن میں عاجزی بدرجہ اتم تھی، وہ ایک سریلے گائیک تھے ،ان دونوں بھائیوں نے گلوکاری کی تعلیم سلابت علی خان مرحوم سے حاصل کی تھی جو خود بھی ایک درویش صفت اور سب سے محبت و انس رکھنے والے انسان تھے۔دونوں بھائیوں نے اپنے وسیب کے ثقافتی گیت گائے اور دیگر شاعروں کا بھی معیاری کلام ہی منتخب کیا۔کئی گیت صرف ان کی گائیکی کی وجہ سے امر ہوگئے ہیںاور کتنے ہی گیتوں کی وہ پہچان بن گئے ہیں ،یہی پہچان ہوتی ہے کسی بڑے فنکار کی۔استاد مبارک علیخان نے بتایاکہ مستانہ ایک مٹے ہوئے اور ہر انسان کےساتھ محبت رکھنے والے فنکارتھے اور ایسی صفات والے لوگ شوبز میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ملکی سطح کی شہرت پانے کے باوجود اس درویش گلوکار کی عاجزی و انکساری بڑھتی ہی چلی گئی تھی،یہ عظیم لوگوں کا شیوہ ہے۔

اگر بہاولپور اور اس کے نواح پر ایک نظر ڈالیں تو سنگیت کے میدان میں ہمیں کئی گائیک جوڑیاں نظر آتی ہیں۔کلاسیکل گلوکاری میں استاد توکل حسین خان کے بیٹے اور استاد اعجازتوکل خان کے والد محترم خان صاحب منیر توکل خان اور کلاسیکل گلوکار استاد مبارک علی خان کی جوڑی موجود رہی،انہوں نے کئی راگ ریکارڈ کرائے جو ریڈیو پاکستان بہاولپور کی لائبریری کا حصہ ہیں۔ابتدا میںمائی اللہ وسائی اوران کی پوتی رقیہ کی گائیک جوڑی مشہور رہی ،لگ بھگ اسی دور میں شمل اور شادو کی گائیک جوڑی مشہور ہوئی جو آپس میں بہنیں بتائی جاتی ہیں۔انہی کی اولاد میں سے سسو نسرو (یعنی سسی اور نسرین )کی گائیک جوڑی مقبول ہوئی وہ دونوں جواں اور خوبصورت تھیں اور گاتے ہوئے رقص بھی کرتی تھیں، یہ بفضل تعالیٰ دونوں حیات ہیں مگر سنگیت کو ایک مدت سے خیرباد کہہ چکی ہیں ۔

مردوں میں عاشق رمضان (یعنی استاد عاشق حسین اور رمضان جو دونوں اگرچہ احمدپور ،ڈیرہ نواب سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کی مہربانی سے زندہ و سلامت ہیں)مگر وہ آپس میں رشتہ دارنہیں ہیں اور ان میں سے صرف استادعاشق حسین میر عالم ہیں جو نواب صاحب کے شاہی گلوکاروں کے خاندان میں سے ہیں جبکہ رمضان اتائی تھے لیکن گائیکی میں اس جوڑی نے بھی کمال درجہ کی شہرت پائی۔یہ جوڑی مستا نہ پروانہ سے ذرا سینئر تھی۔ استادعاشق حسین کی دوبیٹیاں شیریں کرن (شیریں کنول اور کرن آفرین) کی جوڑی بھی مشہور ہوئی ،اب ایک عرصہ سے وہ جوڑی کے بجائے انفرادی حیثیت میں گا رہی ہیں اور وسیب میں بہت مقبول ہیں۔مرید حسین اور ملنگ حسین کی جوڑی کی بھی شہرت ہوئی جو گلوکار تو نہ تھے ملنگ حسین شہنائی میں باکمال فنکار سمجھے گئے اور مرید حسین زیل بجانے ( جو چھوٹے سائز کا نقارہ یا نوبت ہے)،یہ جوڑی بھی خوب رونق بناتی ہے۔

خواتین کی گلوکار جوڑی کا ذکر کریں تو حسینہ ممتاز کی وہ مقبول ترین گائیک جوڑی رہی ہے جو تیس چالیس سا ل تک گلوکاری کے میدان پر چھائی رہی ہے،ان کے گائے ہوئے گیت بھی امر ہوگئے ہیں، یاد رہے کہ مائی حسینہ خانم جو ڈیڑھ دوسال قبل اللہ کو پیاری ہوگئیں، ریڈیو پاکستان بہاولپور کے کمپوزر استاد رمضان شاکر کی بیوی تھیں اور مارواڑی تھیں ان کی والدہ مائی بختاں بھی اعلیٰ پائے کی گلوکارہ رہی ہیں،اسی طرح مائی ممتاز خانم ڈیرہ نواب کے شاہی گلوکار خاندان کی بیٹی تھیں جو استاد عاشق (عاشق رمضان کی جوڑی والے عاشق حسین) کی سگی بہن اور شیریں کنول و کرن آفر ین کی سگی پھوپھی تھیں،ان کا بھی پانچ سال پہلے انتقال ہو چکاہے۔ حسینہ ممتاز کی جوڑی عارضی طور پر ٹوٹ جانے کے بعدکچھ مدت کےلئے نجمہ ممتاز کی جوڑی بھی مشہور رہی ۔انہی گلوکار جوڑیوں میں مستانہ پروانہ کی جوڑی نے ملکی شہرت پائی اور آج تک کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ملا جس نے اس گائیک جوڑی کے کسی گیت پر انگلی رکھی ہو یا ان کی گائیکی کے حوالہ سے اپنی ناپسندیدگی کا ہی اظہار کیاہو ،یہ ان کی عوام و خواص میں مقبولیت ،ہر دلعزیز اور بخت آور ہونے کی دلیل ہے۔ اسی طرح صادق مور صابر مور کی جوڑی بھی ایک خاص طبقہ میں پسند کی گئی اگرچہ اس جوڑی کو عاشق رمضان یا مستانہ ،پروانہ جیسی شہرت تو نصیب نہ ہوئی تاہم یہ جوڑی اب بھی کسی نہ کسی پروگرام میں نظر آتی ہے اور انفرادی حیثیت میں بھی گاتے ہوئے نظر آتے ہیں،گانے کے ساتھ جھومر کھیلنا ان کا اضافی فن ہے جو ان کو کئی دوسروں سے ممتاز بنا دیتا ہے۔

لاہور میں ہر سال فیض احمد فیض کی یاد میںفیض امن میلہ کا انعقاد ہوتاہے جو درحقیقت دانوروں اور عام لوگوں کا ایک عظیم اجتماع شمار کیا جاسکتاہے،راقم خود اس امر کا عینی شاہد ہے کہ اس تقریب میں مستانہ پروانہ کی جوڑی ہر بار چھا جاتی تھی اور حاضرین ان کا کلام بہت ہی لطف لے کر سنتے اور ان کو سٹیج پر دیکھ کر تا دیر تالیاں بجا کربہت پرجوش اور والہانہ استقبال کرتے۔

گلوکاربھائیوں کی یہ جوڑی اس قدر قابل اعتماد رہی ہے کہ غیر ملکی مہمان ہوتے یا ہمارے سیاسی اور حکومتی ملکی سراہ ،اس جوڑی کی پرفارمنس سب سے جدا اور معیاری ہوتی تھیاور اس میں کسی کمی،غلطی یا جھول کا شائبہ تک نہ ہوتاتھا۔انہوں نے پرویز مشرف کے دور میں ان کے سامنے پرفارم کیا اور پانچ لاکھ روپے انعام پایا ،بھٹومرحوم کے سامنے بھی انہیں فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف تو انہیں لال سہانرہ اور بنے والی چوکی میں کئی بار سن چکے ہیں۔میاں شہباز شریف بھی انہیں سنتے رہے ہیں جبکہ قبل ازیں چودھری پرویز الہیٰ نے انہیں سنا اور مالی امداد بھی کی، وہ پاکستان ٹیلیوژن ،ریڈیو کے علاوہ آرٹس کونسلوں اور لوک ورثہ کے متعدد پروگراموں میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔

مستانہ ابتدائی طورپر اپنے قصبہ ہی میں چونگی محرر کی اسامی پر بھرتی ہوئے اور ٹی ایم اے میں سپرنٹنڈنٹ کی پوسٹ سے بطور گزیٹڈ آفیسرگریڈ 16میں ریٹائر ہوئے،ان کے بھائی پروانہ بھی اسی محکمہ میں ملازم تھے مگر انہوں نے وہاں سے استعفیٰ دے کر سیاست میں قدم رکھ لیا۔وہ مشرف کی ضلعی حکومتوں کے دور میں کونسلر منتخب ہوئے اور اب حالیہ انتخابات میں بھی وہ ایک بار پھر کونسلر منتخب ہوگئے ہیں ان کا انتخابی نشان تھا ہیرا۔

\"Jamil-Parwana-and-Naseer-Mastana\"جو گیت ان کی گائیکی کی وجہ سے مشہور ہوگئے ان میں :

میرے یار دے ونگڑے وال تے دنیا ڈیدھی اے
اوہندی ٹور دے نال مجال تے دنیا ڈیدھی اے
۔۔۔۔۔۔۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ سوہنیاں دا سہرہ سانورا
نہ کر مہر، ڈیڈھاں تاں ونج
۔۔۔۔۔۔۔
ڈھولا امبا ں والی چھاں تلے آ بہندا
آ بہندا تے دیداں لا بہندا
۔۔۔۔۔۔۔
چوری چوری کنڈ چا ولایو وے پردیسیا
ایجا روگ اولڑا چا لایو وے پردیسیا
۔۔۔۔۔۔

نصیر مستانہ کا ایک بیٹا بچپن میں ہی فوت ہاگیاتھا اس کی یاد میں وہ یہ گیت گایاکرتے تھے

تیکوں کتھاں کتھاں لبھاں ، تیکوں کتھاں کتھاں گولاں

۔۔۔۔
اگر چہ یہ گیت عاشق رمضان کی جوڑی کی وجہ سے مشہور ہواتھا مگر ایک بار مستا پروانہ نے بھی اس کو پھر سے پسندیدگی اور شہرت کے عروج پرپہنچادیا۔
چٹڑے پدھر تے بہہ کے دل لٹوائی ہم وے
اینہہ سانگے اتھ آئی ہم وے
۔۔۔۔۔۔۔
اس جوڑی کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ عشرہ محرم کے دنوں میں اپنے قصبہ میں نوحہ خوانی بھی کرتے تھے اور محرم کے جلوس کے شرکا ان کے حسینی دوہڑے بہت ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ تحصیل بازار احمدپور میں تمام ماتمی جلوس اکھٹے ہوجاتے تھے ماتم رک جاتاتھا اور یہ حسینی دوہڑے پڑھ کر مجمع کو زارو قطار رلادیتے تھے۔
´´´´´۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ میری آواز ناتواں ہے اور بات بھی کرنے لگا ہوں ناتواں لوگوں کی،لیکن کوئی اور چارہ نہیں،قبرستان میں اذان دینے والی بات ہے،پھر بھی اپنی حکومت سے ضرور کہوں گا کہ یہ گلوکار صدارتی ایوارڈ کے مستحق ہیں ،مالی امداد کے ان لوگوں کی نسبت زیادہ استحقاق رکھتے ہیں جن کو حکومت بے تحاشا نوازتی رہتی ہے۔ سرائیکی خطہ محروم اور غریب لوگوں کا مسکن ہے یہاں بسنے والے تمام کے تمام فنکار حکومتی ترجیحات کے حقدارہیں۔ اس جوڑی کے اہل خانہ کےلئے مستقل بنیادوں پر ماہانہ وظائف مقرر کئے جائیں ، میاں نوازشریف صاحب اور میاں شہباز شریف صاحب جو ڈاتی طور پر ان غریب فنکاروں کو جانتے ہیںوہ بھلے اپنی جیب سے ان کی امداد نہ کریں لیکن ایسے کاموں کےلئے جو فنڈز مختص کئے جاتے ہیں ان میں سے ان کی بھرپور امداد کی جائے اور ان کے بچوں کو سرکاری ملازمت میں لیاجائے ۔ آخرکھلاڑیوں کو بھی تو حکومت امداد دیتی ہے اور اپنی شان میں کالم آرائیاں کرنے والوں کوبھی تو ہر وقت نوازتی رہتی ہے اگر ان غریب فنکاروں کی پرورش ہوگی تو سمجھئے کہ آپ اپنی ثقافت کی نگہبانی فرما رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments