خیرپور فرقہ واریت کی زد میں


پنجاب سے نیشنل ہائی وے پہ سفر کرتے جب روہڑی کے بعد تین نہریں کراس کرکے آگے بڑھیں تو سڑک کے دونوں اطراف کھجور کے بڑے بڑے درختوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو یہ بتاتا ہے
کہ سندھ کا ضلع خیرپور شروع ہو چکا

۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ ایک ریاست تھی جس کا نظم و نسق ٹالپر خاندان کے ہاتھ میں تھا۔ کھجور کے علاوہ اس ضلع کی پہچان مشہور صوفی شاعر سچل سرمست بھی ہیں جس کی سندھی کے علاوہ سرائیکی اردو اور دیگر زبانوں میں بھی شاعری ہے۔ اس کیشاعری کو ویسے تو بہت سے لوگوں گایا ہے مگر جس طرح عابدہ پروین اور سہراب فقیر نے گایا ہے لاجواب ہے۔ عابدہ کی آواز میں ماہی یار دی گھڑولی کس کو بھولی ہوگی۔ دوسری پہچان راشدی خاندان ہے جس کے پیر صبغت اللہ المعروف سورھیہ بادشاہ نے انگریزوں کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائی تھی جس کو اس جرم کی پاداش میں پھانسی چڑھایا گیا تھا۔

اس ضلع سے سندھ کے دو سابق وزراء اعلی سید قائم علی شاہ اور سید غوث علی شاہ بھی تعلق رکھتے ہیں اتفاق سے دونوں کا حلقہ انتخاب بھی ایک ہی ہے۔ دونوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور دونوں نے اپنی سیاست کی شروعات بار الیکشن سے کی۔ جاگرافیائی اعتبار سے یہ ضلع 8تحصیلوں پہ مشتمل ہےاور سندھ کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ اس میں میدانی علاقہ بھی ہے جس میں ہر قسم کی فصلیں ہوتی ہیں اور ریگستان بھی ہے جہاں پہ گیس کے ذخائر برآمد ہوئے کچے کا علاقہ بھی ہے جابلو علاقہ بھی۔ اس ضلع میں 1988 میں قدرے نامعلوم اور ایم آر ڈی تحریک کے سرگرم رہنما پرویز علی شاہ نے اس وقت کے پیر پگاڑہ جناب شاہ مردان شاہ کو بڑی شکست دی تھی جو 1990 کے انتخابات میں بھی دہرائی گئی جس کے بعد شاہ صاحب نے انتخابی سیاست سے دوری اختیار کردی

۔ اس سب کے باوجود اس ضلع میں وقتاً فوقتاً فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں جس کا زیادہ تر محور شیعہ سنی جھگڑا ہی ہوتا۔ سنی فرقہ کے مختلف مکتبہ فکر کے درمیاں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا ہے جیسا جمعرات کے دن ہوا جس میں چار جانیں ضائع ہوئیں۔ اسی کی دہائی میں جب اہلسنت کا دیوبندی مکتبہ فکر جڑیں پکڑ رہتا اس وقت بریلوی اور دیوبندی مسالک کے درمیان مساجد پہ اکادکا جھگڑے ہوئے تھے مگر اس کے بعد کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ خیرپور میں فرقہ وارانہ فسادات کی شروعات ساٹھ کی دہائی میں ہوئی تھی جب ٹھیڑھی میں شیعوں کا قتل ہوا تھا جس کے بعد دس محرم کا جلوس ایک چاردیواری تک محدود کردیا گیاتھا اور جس کے شرکاء کی تعداد بھی معاہدے کا حصہ تھی۔

اس کے علاوہ کھڑا، گمبٹ، کولاب جیئن، خیرپور شہر اور دیگر جگہوں پر شیعہ سنی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں اور چونکہ وہ دو مختلف مسالک کے درمیان اور عموماً محرم کے دوران ہوتے ہیں تو انتظامیہ چوکس ہوتی ہے اور بھرپور حفاظتی اقدامات کرتی ہے۔ اہلسنت کے دو گروہوں کے درمیان چونکہ کبھی اس قسم کا واقعہ نہیں ہوا تو انتظامیہ بھی رضائی تان کہ سوئی رہی حالانکہ ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے تھا کہ بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر کے درمیان بقول نصرت جاوید نوری اور ناری کا بڑا جھگڑا ہے۔ اسلام‌آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ پاکستان، جس کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر َسے ہے، کے حالیہ ختم ہوئے دھرنے کے بعد انتظامیہ زیادہ محتاط اور چوکس ہونا پڑے گا کیونکہ خدانخواستہ اگر اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو ان کا وسیع پیمانے پہ اثر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).