ایک طالب علم کی صدا جو مرنا نہیں کچھ کرنا چاہتا ہے


میں ایک طالب علم ہوں، نہ جانے کیوں یونیورسٹی جانے میں قدم ڈگمگاتے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جہالت اور جنون کے مارے لوگ پھر سے حملہ نہ کریں۔ کیونکہ مجھے زندگی سے محبت ہے۔ اور میں مرنا نہیں چاہتا۔ خدا کی دی ہوئی اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے مجھے انسانیت کے لئے اپنا حق ادا کرنا ہے، اپنے بوڑھے ماں باپ اور بھائی بہنوں کی محنت اور جفا کشی سے میں اس اسٹیج تک پہنچا ہوں، مجھے ان کے لئے بھی کچھ کرنا ہے۔ مجھے رشتے ناتوں اور معاشرے کے لئے کچھ کرنا ہے۔ میرے گھر والے خود تنگی میں رہ کر جتنے پیسے میری تعلیم پہ لگائے ہیں۔ کم از کم وہ تو لوٹا دوں۔

اگرچہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو تحفظ فراہم کرے اور امن قائم کرے۔ لیکن جب ریاست کے نام نہاد حکمران طبقات صرف اپنے مفادات کا کھیل کھیلتے ہوں، تو ہم بیچارے کیا کرسکتے ہیں۔ ہمارے تحفظ کے ذمہ دار خود ہی آگ لگاتے ہیں اور خود ہی آگ بجھاتے ہیں۔ کیا جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہوتا ہے اس سے وہ واقف نہیں ہوتے؟

میں اور کیا کہوں کہ جب یونیورسٹی جاتے ہیں تو اونچی اونچی دیواریں اور خار دار کانٹے اور گیٹ میں سیکورٹی کی تلاشیاں اور پھر یونیورسٹی کے اندر چکر لگاتی پولیس کی گاڑیاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی جیل میں آئے ہیں۔ لیکن پھر یہ کہہ کہ خود کو حوصلہ دیتے ہیں کہ نہیں یہ تو ہمارے محافظ ہیں اور یہ جو بھی کرہے ہیں، ہمارے تحفظ کے لئے کررہے ہیں۔ باہر گروپ میں ڈسکشن کے لئے بھی نہیں جانے دیتے۔ لیکن اس حد تک سیکورٹی کے باوجود جب غیر متوقع واقعات ہوجاتے ہیں تو دل دکھتا ہے۔ اور یہی سوچ بار بار ابھرتی ہے کہ یہ سب بس ایک تماشا ہے۔ اور اس تماشے میں معصوم روحوں کا خون ہے۔ اور بے ضمیر اور مفاد پرست غیر انسانی اعمال ہیں۔

اپنے دوستوں کے جنازے اٹھاتے اٹھاتے ہم تھک گئے ہیں۔ ہمارے دل لہو لہو ہیں۔ آخر ہم کیا کریں۔ نہ تحفظ اور نہ معیاری تعلیم۔ نہ ہی فکری آزادی۔ ہم خوف کے اندھیروں میں کب تک جیئں گے۔ خدارا کوئی تو ہماری آواز سنے۔

جب ہم دیکھتے ہیں ہے کہ سارے رستے بند ہیں اور کوئی ہماری آواز سننے کو تیار نہیں تو پھر ہم اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔ دن گزر جاتے ہیں۔ لیکن کوئی وسیلہ نظر نہیں آتا۔ ایڈمنسٹریشن کی کرپشن اور ریاستی بے قاعد گیوں اور عوامی خیر کے دعویدار نقلی کرداروں کا پردہ فاش کرتے ہیں تو ہمیں لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ یا پھر ایسا سبق سکھایا جاتا ہے کہ آپ پھر کم از کم اس نظام کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔

جب علم و تحقیق کی بات کریں تو اس میدان میں بھی شعور پر قد غن ہے۔ آپ ایک دائرے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اور اگر آپ نئی سوچ دے رہے ہیں تو وہ قابل قبول نہیں ہوگی۔ آپ کو ایک مخصوص دائرے میں رہ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

آج انسانیت بعد جدید یت کے دور سے گزر رہی ہے اور ٹیکنا لوجی کی بر کت سے اور سوشل میڈیا کے کرامات سے آزادی رائے اور رابطوں کا ایک سلسہ شروغ ہوا۔ جس سے علم اور دنیا سے آگہی کا ساماں مہیا ہوا۔ لیکن یہاں پر بھی ہمیں آزاد نہ چھوڑا گیا۔ اور سائبر کرائم کی بجلی بار بار گرائی جاتی ہے۔

ہم ان غیر انسانی اعمال کے آگے بے بس ہیں۔ ہم طالب علم ہیں اور سقراط نے صحیح کہا تھا کہ علم نیکی ہے۔ خدا کے لئے ہمیں تحفظ دو۔ ہمیں معیاری تعلیم دو۔ ہمیں فکری آزادی اور مواقع فراہم کرو۔ جس سے ہم اپنے آپ کو بہتر کریں اور اس ملک کی خدمت کر سکیں۔

شفیق احمد، شاعر، لکھاری، اور محقق ہیں اور اسلامیہ کالج یونورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹر کرہے ہیں اور مختلف سماجی اور انسانی حقوق کے تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).