مارشل لاء کس نے بٹھایا، دھرنا کس نے اٹھایا؟


جنرل ضیاالحق نے مارچ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ جنرل ضیاالحق زبردست سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ دستوری قانون کی تاریخ میں بھی مرحوم جنرل صاحب کا مقام مسلمہ ہے۔ جنرل صاحب اسلامی ریفرینڈم اور غیر جماعتی انتخابات منعقد کرواتے تھے۔ جنرل صاحب کو جمہوریت کی نام لیوا سیاسی جماعتوں سے نفرت تھی۔ چنانچہ انہوں نے فرقے اور زبان کی سیاست کرنے والے گروہ متعارف کروائے۔

ممتاز عالم دین ظفر احمد انصاری کی عظیم اسلامی تصنیف “انصاری کمیشن رپورٹ” جنرل صاحب کی پسندیدہ کتاب تھی۔ اگست 1988ء میں اپنی شہادت کے موقع پر بھی جنرل صاحب اس کتاب کا گہرا مطالعہ فرما رہے تھے۔  جنرل صاحب کا جہاد، ڈالر جہاد تھا۔ معیشت کے ضمن میں جنرل صاحب افیون اور پوست کی کاشت میں اضافے کو ترجیح دیتے تھے۔ جنرل ضیاالحق کا صنعتی ویژن ہیروئن کی پیداوار سے منسلک تھا۔ ملک کے بے روزگاروں کے لئے جنرل صاحب نے کلاشنکوف کے کاروبار پر خاص توجہ دی۔ جنرل صاحب بلا سود بینکاری کے عظیم داعی تھے۔ چنانچہ انہوں نے کراچی اور دوسرے شہروں میں بھتے کی پرچی متعارف کروائی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھتے کی پرچی پر بلاسود منافع حاصل ہوتا ہے نیز اس آمدنی پر غیراسلامی ٹیکس نہیں دینا پڑتے۔ البتہ مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ وغیرہ دینے پر پابندی نہیں ہوتی۔

جنرل صاحب قومی سلامتی کے محافظ تھے۔ انہیں سوویت یونین کا گرم پانیوں تک پہنچنا ہرگز قبول نہیں تھا۔ سینکڑوں مرتبہ سوویت یونین کے ہوائی جہاز پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اور اسی طرح بلاخوف و خطر پرواز کرتے ہوئے واپس چلے گئے جیسے بہت برس بعد یکم مئی 2011ء کی رات امریکی ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد آئے اور واپس چلے گئے۔

1985 میں جنرل ضیاالحق نے اپنے منفرد تصورات کے عین مطابق محمد خان جونیجو کو بطور وزیر اعظم منتخب کیا۔ محمد خان جونیجو کی عوامی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تو ملک بھر میں عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہوئے پائے گئے کہ “محمد خان جونیجو کون ہے؟” ملک کے وسیع تر مفاد میں ایسے ہی وزیر اعظم کی ضرورت ہوتی ہے جو خود نمائی کا شوق نہ رکھتا ہو اور انتظار کرے کہ ایک روز کوئی اولوالعزم صاحب اختیار اسے وزارت عظمیٰ کے لئے دریافت کر لے۔ بطور وزیر اعظم اپنی نامزدگی کی خبر پا کر محمد خان جونیجو شکریہ ادا کر نے کے لئے ایوان صدر پہنچے۔ جنرل ضیاالحق کو بوجوہ امید تھی کہ نیا وزیر اعظم ان کے بوٹ کے تسموں کو اپنی مونچھ بنانے کا اعلان کرے گا۔

آٹھ برس قبل جنرل ضیاالحق نے جولائی 1977 میں جس وزیر اعظم کو معزول کیا تھا اس گستاخ نے مری گیسٹ ہاؤس میں جنرل ضیاالحق کو دھمکی دی تھی “میں تمہاری مونچھوں سے اپنے بوٹوں کے تسمے بناؤں گا۔” جنرل ضیاالحق کو اپنی مونچھوں سے بہت محبت تھی۔ انہیں بجا طور پر امید تھی کہ نیا وزیر اعظم ان کی مونچھوں کا کماحقہ احترام کرے گا۔ محمد خان جونیجو نے چھوٹتے ہی سوال کیا کہ جناب آپ مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں؟ یہ سوال جنرل ضیاالحق پر بجلی بن کر گرا۔ تاہم انہوں نے سنبھل کر جواب دیا کہ “مارشل لا کو ضرورت سے ایک لمحہ بھی زیادہ باقی نہیں رکھا جائے گا”۔ مارشل لا لگانے اور بھگتنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ مارشل لا ملک اور قوم کی ضرورت نہیں ہوتا، بلکہ کسی طالع آزما کی خواہش ہوتا ہے۔

محمد خان جونیجو کی شپرہ چشمی سے خائف ہو کر جنرل ضیاالحق نے پاکستان ٹیلی ویژن کو حکم دیا کہ قومی اسمبلی میں نئے وزیر اعظم کی تقریر براہ راست نشر نہ کی جائے۔ اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد وزیر اعظم محمد خان جونیجو ٹی وی کیمروں کا انتظار کرتے رہے اور پھر تھک کر اراکین اسمبلی ہی سے خطاب کر لیا۔ بدقسمتی سے محمد خان جونیجو نے اس تقریر میں بھی یہ کہنا ضروری سمجھا کہ جمہوریت اور مارشل لا ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ محمد خان جونیجو کا یہ جملہ سیاست دانوں کی کند ذہنی پر دلیل کا درجہ رکھتا ہے۔ مارشل لا تو آٹھ برس سے چل رہا تھا۔ اور رہی جمہوریت، تو غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جمہوریت قائم نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں تو جمہوریت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب ایک اسلامی ریفرینڈم کے نتیجے میں آئندہ پانچ سال کے لئے باوردی صدر مسلط ہو چکا ہو۔

31 دسمبر 1985ء کو بالآخر مارشل لا اٹھانے کا اعلان کیا گیا تو پارلیمنٹ کو آٹھویں آئینی ترمیم کی صورت میں مارشل لا کا تاوان ادا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ مذہبی احکامات میں تاوان کی ممانعت نہیں۔ طالبان کی اسلامی حکومت میں اکثر کھاتے پیتے افراد کو اغوا کر کے ان سے تاوان وصول کیا جاتا تھا۔ اب بھی اگر کہیں باشرع لوگ سڑک پر آن بیٹھیں تو انہیں اٹھانے کے لئے تاوان ادا کیا جاتا ہے۔ تاوان کا حسن یہ ہے کہ رقم دینے والا اپنی تشہیر سے گریز کرتا ہے۔ اس سے تاوان دینے اور لینے والوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔

محمد خان جونیجو ایک احسان فراموش سیاست دان تھے۔ انہیں جنرل ضیاالحق نے گمنامی سے نکال کر وزیر اعظم بنا دیا اور پھر ایک روز عزت و احترام کے ساتھ سندھڑی واپس بھیج دیا۔ انہیں پھانسی دی، نہ گولی ماری اور نہ جلاوطن کیا حالانکہ محمد خان جونیجو مسلسل جنرل ضیاالحق اور ان کے جہادی رفقائے کار کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے۔ محمد خان جونیجو نے یہاں تک اعلان کیا کہ وہ جرنیلوں کو سوزوکی گاڑیوں میں بٹھائیں گے۔ اس پر جنرل ضیاالحق کو مثبت صحافت کرنے والے اخبارات میں Stop General Bashing کے عنوان سے مضمون شائع کروانا پڑے۔ محمد خان جونیجو نے اپنے لئے ملٹری سیکریٹری کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ مطالبہ قومی خزانے پر ناروا بوجھ تھا۔ تاہم جنرل ضیاالحق نے از رہ تواضع یہ مطالبہ تسلیم کر لیا۔

محمد خان جونیجو نے معاہدہ جنیوا پر کرپٹ، بددیانت اور مغرب زدہ سیاست دانوں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ اور پھر جہاد کے غازی جنرل ضیاالحق کو بھول کر اس کانفرنس کی صدارت کرنے خود بیٹھ گئے۔ محمد خان جونیجو نے اس کانفرنس میں ملک، قوم، جہاد اور مشرقی روایات کی ازلی دشمن بے نظیر بھٹو کو بھی مدعو کیا۔ اس گستاخی کے باوجود جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کو کچھ نہیں کہا۔ محمد خان جونیجو “وردی اتارو” مہم کی درپردہ سرپرستی کر رہے تھے۔ اس کا مقصد غازی جنرل اور فاتح افغانستان ضیاالحق کو کمزور کرنا تھا۔ جنرل صاحب نے خندہ پیشانی سے “وردی اتارو مہم” کو بھی نظر انداز کیا۔

محمد خان جونیجو نے افغانستان میں حقیقی مجاہدین حکومت قائم ہونے کی ضمانت لئے بغیر جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کا ارادہ کیا تو جنرل ضیاالحق قومی امنگوں کے اس طرح پامال کئے جانے پر ناراض ہو گئے۔ ایک روز جنرل صاحب وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گھس آئے اور وزیر خارجہ زین نورانی کو صاف صاف لفظوں میں بتا دیا کہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے کی صورت میں انہیں حساس مقامات سے پکڑ کر درخت سے لٹکا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ شہید جنرل صاحب بعض دوسرے علمائے حق کی طرح سرعام گالیاں نہیں دیتے تھے۔

اپریل 1988ء میں موسم گرما کا آغاز تھا۔ درجہ حرارت بڑھ جانے سے اوجڑی کے مقام پر کچھ اسلحہ خود بخود پھٹ گیا۔ بہت سے لوگ مر گئے جن میں موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد بھی شامل تھے۔ محمد خان جونیجو نے اپنی گستاخ طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس واقعے کی تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیاالحق نے غلام اسحاق خان کو حکم دیا کہ محمد خان جونیجو کے ساتھیوں کی تیار کردہ ملک دشمن انکوائری رپورٹ تبدیل کر دی جائے۔ غلام اسحاق خان نے قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رپورٹ کے متعدد صفحات ازسرنو ٹائپ کروا کے رپورٹ میں جڑ دیے۔ جنرل ضیاالحق فیصلہ کر چکے تھے کہ اگر محمد خان جونیجو سمجھتا ہے کہ مارشل لا اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو پھر محمد خان جونیجو اور پاکستان بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

29 مئی 1988 کی شام محمد خان جونیجو چین کے دورے سے واپس آئے تو جنرل اختر عبدالرحمن ان کا استقبال کرنے چک لالہ ایئر پورٹ پر پہنچے۔ جنرل اختر عبدالرحمن عرف فاتح نے اس موقع پر ٹوپی نہیں پہنی تھی۔ جنرل صاحبان جب کسی کو سیلوٹ نہ کرنا چاہیں تو ٹوپی گھر بھول آتے ہیں۔ بھول چوک، لینی دینی۔۔۔۔ جنرل ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ جنرل ضیاالحق نے انہیں برطرف کر دیا۔ عوض معاوضہ، گلہ ندارد۔ محمد خان جونیجو بے جا غرور کیا کرتے تھے کہ ان کی “منتکب حکومت” نے مارشل لا اٹھایا۔ چنانچہ جنرل ضیاالحق کے ایک منہ چڑھے صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ “مارشل لا وہی اٹھاتا ہے، جو مارشل لا بٹھاتا ہے”۔

آج کل کچھ عاقبت نااندیش پوچھ رہے ہیں کہ اسلام آباد اور لاہور میں دھرنا کس نے اٹھایا ہے۔ اس سوال کا جواب ہماری تاریخ میں بارہا واضح کیا جا چکا ہے۔ بدقسمتی سے قوم نااہل سیاست دانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ جاتی ہے اور تاریخ کے سبق بھلا دیتی ہے۔ چناچہ دھرنا بٹھانا پڑتا ہے، اٹھا دیا جاتا ہے، اٹھنے لگے تو ہاتھ پکڑ کے کچھ دیر کے لئے مزید بٹھا لیا جاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہے کہ ایسی غیر قدرتی آفات وہی اٹھاتا ہے، جو بٹھاتا ہے۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).