ظفر احمد انصاری کمیشن رپورٹ میں کیا لکھا تھا؟


گزشتہ دنوں “ہم سب” آن لائن کے صفحات پر ایک لکھنے والے نے اپنی تحریر میں عظیم اسلامی تصنیف “ظفر انصاری کمیشن رپورٹ” کا ذکر کیا ہے۔اور بتایا ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاالحق (شہید) اس تصنیف لطیف کو بہت عزیز رکھتے تھے حتیٰ کہ 17 اگست 1988ء کو شہادت کے وقت بھی 124 صفحات پر محیط یہ کتاب ان کے زیر مطالعہ تھی۔ “ہم سب” نامی ویب سائٹ  پر اس تحریر کی اشاعت کے بعد بہت سے پڑھنے والوں نے ہم سے پوچھا ہے کہ ظفر انصاری کمیشن رپورٹ میں کیا لکھا تھا اور یہ رپورٹ کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ان پیہم سوالات سے ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ نئی نسل پاکستان کی تاریخ، نظریہ پاکستان کے ارتقا اور ہمارے عظیم دانشوروں کی فکری کاوشوں سے بالکل لاعلم ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ نصاب تعلیم پر نظرثانی اور از سرنو تدوین نصاب کی نگرانی میں علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور دیگر زعمائے ملت کی شمولیت کے بعد یہ شکایات دور ہو سکیں گی۔ سردست ہم زیر نظر مختصر تحریر کے ذریعے ظفر انصاری کمیشن رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات پڑھنے والوں کے گوش گزار کرتے ہیں۔ انشاللہ بروز منگل 5 دسمبر 2017ء بمطابق 16 ربیع الاول 1439ھ کو اسی ویب سائٹ پر پڑھنے والوں کی خدمت میں فتنہ پرور دانشوروں، مغرب زدہ نام نہاد لبرل عناصر اور دیگر خارج البلد عورتوں اور مردوں کے اس رپورٹ پر اعتراضات پیش کریں گے تاکہ معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی نوجوان فکری محاذ پر گمراہ عناصر کے پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب تیار کر سکیں۔

واضح رہے کہ “ظفر انصاری کمیشن رپورٹ” پرنٹنگ کارپوریش آف پاکستان پریس، اسلام آباد سے 4 اگست 1983ء بمطابق 24 شوال المکرم 1403ھ کو شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کی کسی دوسری اشاعت کا کہیں ذکر نہیں ملتا البتہ لاہور اور کراچی میں پرانی کتابوں کی دکانوں پر اس کے خستہ حال نسخے اتفاق سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔

صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے 10 جولائی 1983ء مطابق 28 رمضان المبارک 1403ھ کو ایک کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن کو یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ نظامِ حکومت کے متعلق درج ذیل کمیٹیوں اور اداروں کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز کا بغور جائزہ لے

1.      کابینہ کی ذیلی کمیٹی

2.      مجلس شوریٰ کی‌ خصوصی کمیٹی

3.      اسلامی نظریاتی کونسل

تجاویز موصول ہونے کے بعد کمیشن ملکی حالات اور ملی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قابلِ عمل سفارشات مرتب کرے اور صدر پاکستان کو پیش کردے تاکہ وہ حسبِ وعدہ 14 اگست 1983ء تک قوم کے سامنے ملک کے آئندہ سیاسی نظام کا خاکہ پیش کرسکیں۔ صدر پاکستان نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ 31 جولائی 1983ء تک کمیشن کی سفارشات ان کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔

اس کمیشن کے صدر محمد ظفر احمد انصاری تھے۔ کمیشن کے اہم ارکان میں جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی، جسٹس (ریٹائرڈ) محمد افضل چیمہ، مولانا محمد مالک کاندھلوی، علامہ سید محمد رضی مجتہد، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، اخوند زادہ بہرہ ور سعید، مفتی محمد حسین نعیمی، ڈاکٹر ضیا الدین احمد، ڈاکٹر منیر الدین چغتائی اور پروفیسر محمود احمد غازی شامل تھے۔ علاوہ ازیں، جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ، محمد اسد اور سید حسین امام کو کمیشن کا اعزازی مشیر مقرر کیا گیا۔

کمیشن کے اغراض و مقاصد یہ تھے کہ ایک ایسے سیاسی خاکے کی بنیادیں فرہم کردی جائیں جو قرآن و سنت کے احکام، اسلامی اقدارو روایات، عصری تقاضوں اور ملکی حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ خاکہ اس انداز سے ترتیب دیا جائے کہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی طرف مؤثر انداز میں پیش قدمی کی جا سکے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے برطانوی، امریکی، فرانسیسی یا کوئی اور نظام اختیار کرنے کے بجائے کمیشن اسلام کے شورائی نظام کے نفاذ کی پُرزور سفارش کرتا ہے۔ البتہ تفصیلات و جزئیات مرتب کرنے میں اپنے یا دوسروں کے تجربات سے استفادے میں کوئی امر مانع نہیں۔

امیر مملکت

اسلامی شورائی نظام کے مطابق سربراہِ ممکت ہی سربراہِ حکومت ہوگا اور “امیرِ مملکت” کہلائے گا۔ اس کے اوصاف، اختیارات، فرائض اور اس کے طریقِ انتخاب و عزل کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے۔

امیرِ مملکت کی صفات و شرائط حسبِ ذیل ہوں گی:

مسلمان ہو اور مرد ہو۔

کم از کم دس سال سے پاکستان کا شہری اور پاکستان میں سکونت پزیر ہو۔

عمر چالیس سال سے کم نہ ہو۔

فہم و فراست اور جسمانی صحت کے اعتبار سے فرائضِ امارت بخوبی انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو۔

فرائض کا پابند اور کبائر سے مجتنب ہو۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت اور نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

مجلس شوریٰ کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔

امیرِ مملکت کے فرائض حسبِ ذیل ہونگے:

امیرِ مملکت نظمِ مملکت کا ذمہ دار ہوگا اور مملکت کے آئینی اور انتظامی سربراہ کی حیثیت سے جملہ فرائض انجام دے گا۔

امیرِ مملکت بلحاظ عہدہ ملک کی تمام مسلح افواج کا سپہ سالار اعلیٰ ہوگا۔

امیرِ مملکت کے اختیارات حسبِ ذیل ہونگے:

امورِ مملکت کی انجام دہی کے لئے حسبِ ضرورت و ضوابط وزراء مقرر کرسکے گا جو ارکانِ شوریٰ میں سے ہونگے۔

جس زمانے میں مجلسِ شوریٰ کا اجلاس نہ ہورہا ہو، امیرِ مملکت کو اختیار ہوگا کہ ملکی مصالح کے پیش نظر فوری اہمیت کے کسی معاملے سے متعلق کوئی آرڈیننس جاری کرسکے، البتہ ایسا ہر آرڈیننس یومِ نفاذ سے تین ماہ کے اندر مجلس شوریٰ کے سامنے توثیق یا ترمیم کے لئے پیش کردیا جائے گا۔ لیکن یومِ نفاذ سے تین ماہ گذرنے کے بعد اس کی قانونی حیثیت خود بخود ختم ہوجائے گی امیرِ مملکت اسی مضمون یا مماثل اثرات کا حامل آرڈیننس اختتام میعاد مذکورہ سے تین ماہ کے اندر جاری نہیں کرسکے گا۔

امیرِ مملکت اپنے اختیارات کے استعمال میں حسبِ تحدیدات کا پابند ہوگا:

امیرِ مملکت اپنے جملہ اختیارات کو قرآن و سنت کی بیان کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر استعمال کرے گا۔

امیرِ مملکت دستور کو کلاً یا جزواً معطل نہیں کرسکے گا۔

امیر مملکت کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ کسی بھی حالت میں مجلس شوریٰ کو توڑ سکے گا۔

امیرِ مملکت جملہ شہری حقوق و فرائض میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانون سے بالا تر نہ ہوگا۔ البتہ امیر مملکت کے خلاف قانونی کارروائی یا عدالتی چارہ جوئی حسب ذیل طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔

امیرمملکت کے خلاف دعویٰ یا استغاثہ متعلقہ صوبے کی عدالت عالیہ میں دائر ہوگا جو امیر مملکت کو طلب کئے بغیر اس کی ابتدائی سماعت کرے گی اور ضروری ہو تو سرسری شہادت قلمبند کرے گی۔ اگر عدالت عالیہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امیر مملکت کو طلب کرنے کا جواز موجود نہیں تو اسے خارج کردے گی۔ اگر جواز موجود ہو تو امیر مملکت کو طلب کرے گی اور بعد ازاں کارروائی حسب قانون مروجہ ہوگی اور امیر مملکت عدالتی فیصلے کا پاند ہوگا۔ البتہ ہر دو فریق کو عدالت عظمیٰ میں اپیل کا حق حاصل ہوگا اور اس صورت میں عدالت اپیل کا فیصلہ قطعی اور قابل عمل و پابندی ہوگا۔

امیرِ مملکت مرکزی مجلس شوریٰ کے فیصلوں کا پابند ہوگا تاہم اگر اس کو شوریٰ کے کسی فیصلے سے اتفاق نہ ہو تو وہ اس فیصلے کی وصولی کے پندرہ یوم کے اندر اندرر ان اسباب کی نشاندہی کے ساتھ جن کی وجہ سے وہ شواریٰ کے اس فیصلہ سے اتفاق نہیں کرتا ہے وہ فیصلہ شوریٰ کو واپس بھیج سکے گا لیکن اگر مجلس شوریٰ اپنے سابقہ فیصلے کو دوبارہ کل ارکان کی دو تہائی اکثریت سے برقرار رکھے تو امیر مملکت اس کا پابند ہوگا کہ یا تو وہ اس فیصلے کی توثیق کرے بصورت دیگر مستعفی ہوجائے۔

امیرِ مملکت کا انتخاب حسب ذیل طریقہ کے مطابق ہو گا:

امیرِ مملکت کا انتخاب مرکزی مجلس شوریٰ اور صوبائی مجالس شوریٰ کے جملہ ارکان پر مشتمل انتخابی ادارہ کے ذریعہ ہوگا۔

اس منصب کےلئے کسی فرد کا نام مرکزی مجلس شوریٰ کے کم از کم دس ارکان تجویز کریں گے جن کی تائید صوبائی مجلسِ شوریٰ کے کم از کم دس ارکان کریں گے۔

تجویز شدہ افراد میں سے انتخابی ادارہ امیرِ مملکت کا انتخاب کم از کم پچپن فیصد اکثریت سے کرے گا۔ تجویز شدہ فرد ایک ہو یا ایک رہ جائے تو وہ بلا مقابلہ منتخب قرار دیا جائے گا۔

یہ بات صوبائی اور مرکزی مجالس کے انتخاب سے پہلے رائے دہندگان کی واقفیت کے لئے پوری طرح مشتہر اور واضح کردی جائے گی کہ ان مجالس کے ارکان ہی امیرِ مملکت کے انتخاب کے لئے انکے وکیل اور ان کی طرف سے مجاز و مختارمتصورر ہونگے۔

منتخب امیرِ مملکت اپنے انتخاب کے بعد پہلے جمعہ کو نمازِ جمعہ سے قبل اپنے منصب کا حلف اٹھائے گا اور قوم سے خطاب کرے گا۔

امیرِ مملکت کے حلف اٹھانے کے بعد مرکزی و صوبائی مجالسِ شوریٰ کے ارکان امیرِ مملکت سے بیعت اطاعت اور حلف وفاداری اٹھائیں گے۔

امیرِ مملکت کے منصب کی میعاد تاریخ حلف برداری سے پانچ سال ہوگی۔

کوئی فرد دو بار سے زیادہ منصب امارت کے لئے منتخب نہیں ہوسکے گا۔

امیرِ مملکت کی ملک سے غیر حاضری یا ایسی معذوری میں جس میں وہ عاضی طور پر کام کرنے کے قابل نہ رہے قائم مقام امیرِ مملکت بطور امیر فرائض انجام دے گا۔

وفات، استعفا یا علیحدگی کی صورت میں نئے امیرِ مملکت کا انتخاب چار ماہ کے اندر حسب ضابطہ مذکورہ عمل میں آئے گا اور اس کی حلف برداری تک قائم مقام امیرِ مملکت بطور امیر فرائض انجام دے گا۔

حسبِ ذیل صورتوں میں امیرِ مملکت کو اس کے منصب سے علاحدہ کیا جا سکے گا:

قرآن و سنت کے احکام کی صریح نافرمانی اور خلاف ورزی پر۔

آئین کی صریح خلاف ورزی پر۔

امیرِ مملکت کے بیان کردہ اوصاف و شرئط میں سے کسی وصف یا شرط کے زائل ہونے پر۔

کسی سنگین بدعنوانی پر جو اس عظیم منصب کے وقار یا ملک و ملت کے مفاد کے منافی ہو۔

مندرجہ بالا الزام یا الزامات کی بنیاد پر امیر مملکت کو اس کے منصب سے علاحدہ کرنے کی تحریک مرکزی مجلس شوریٰ کے کسی ایوان کے کم از کم ایک تہائی ارکان اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے متعلقہ ایوان میں پیش کر سکیں گے جس کی مصدقہ نقل امیر مملکت کو بھیج دی جائے گی اور دس روز کے اندر امیر مملکت اپنی وضاحت متعلقہ ایوان کو بھیج سکے گا۔

مرکزی اور صوبائی مجالس شوریٰ کا مشترکہ اجلاس ایوان بالا کا صدر طلب کرے گا اور اس اجلاس میں اس تحریک پر بحث ہوگی جس کے دوران امیر مملکت اصالتاً یا وکالتاً پیش ہوکر اپنا موقف پیش کرنے کا حقدار ہوگا۔

اس مشترکہ اجلاس میں بحث کے اختتام پر رائے شماری ہوگی۔ اگر ارکان مجالس شوریٰ مذکورہ اپنی دو تہائی اکثریت سے تحریک منظور کرلیں تو امیر مملکت کو معزول قرار دیا جائے گا۔

مجلس شوریٰ

مرکزی مجلس شوریٰ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کے دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی۔

مرکزی مجلس شوریٰ کا ایوانِ زیریں آبادی کے تناسب سے پورے ملک کے حلقہ ہائے انتخاب سے چنا جائے گا اور ایوانِ بالا صوبوں کی مساوی نمائندگی کے اصول پر منتخب ہوگا۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے ایوانِ زیریں نیز صوبائی مجالس شوریٰ کے ارکان کی تعداد کا تعین تازہ ترین مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوگا۔

مجالس شوریٰ کے ہر مسلم رکن کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ مندرجہ ذیل اوصاف کا حامل ہو:

باکردار مسلمان ہو اور اسلامی احکام سے انحراف کی شہرت نہ رکھتا ہو۔

اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور فرائض کا پاند اور کبائر سے مجتنب ہو۔

گریجویٹ ہو یا کسی مستند دینی درسگاہ کا فارغ التحصیل ہو۔

اس کی عمر 25 سال سے کم نہ ہو۔

کسی اخلاقی جرم میں یا جھوٹی گواہی دینے میں سزا یافتہ نہ ہو۔

پاکستان کا شہری ہو، اور اس کا نام انتخابی فہرست میں شامل ہو۔

قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت اور نطریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔ البتہ غیر مسلم ارکان شوریٰ صفات و شرائط (1) اور (2) سے مشتثنیٰ ہوں گے مگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ اخلاق و کردار میں ان کی عام شہرت اچھی ہو۔

خواتین کے لئے مذکورہ بالا شرائط کے علاوہ یہ بھی ضروری ہوگا کہ:

ان کی عمر کم از کم پچاس سال ہو۔

اگر شوہر حیات ہوتو اس کا تحریری اجازت نامہ ہو۔

مذکورہ بالا شرئط کے ساتھ خواتین ہر حلقے سے منتخب ہوسکیں گی اور اس کے علاوہ مزید دس سال کے لئے ایوان میں عمومی ارکان کی تعداد کے پانچ فیصد کے تناسب سے ان کی علاحدہ نشستیں مخصوص کی جائیں گی۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر نامزدگی کے لئے ایک کونسل برائے نامزدگی خواتین تشکیل دی جائے گی۔ یہ کونسل مقررہ تعداد سے دوگنی تعداد میں اوصاف بالا کی حامل خواتین کے نام تجویز کرے گی۔ ان ناموں میں امیر مملکت مقررہ تعداد میں خواتین کو نامزد کردے گا۔

غیر مسلم افراد کا انتخاب غیر مسلم اقلیتوں کے لئے مختص نشستوں پر جداگانہ ہوگا۔ یعنی شوریٰ میں ان کو ان کی آبادی کے تناسب سے نشستیں دی جائیں گی۔ اگر کوئی غیر مسلم اقلیت بہت معمولی تعداد میں ہو تو اس کو کسی دوسری غیر مسلم اقلیت کے ساتھ ملا کر مشترک نشست دے دی جائے گی۔

طریق انتخاب: مجالس شوریٰ کا انتخاب غیر جماعتی بنیاد پر عمل میں آئے گا۔

“خود امیدواری” نظام کے بجائے “تجویز” کا نظام اختیار کیا جوئے گا اور ہر حلقے سے ان افراد کو “تجویز شدہ” قرار دیا جائے گا جن کے نام کی تجویز اس حلقے کے کم از کم ایک فی دو ہزار ووٹر کریں۔

ایوانِ زیریں اور صوبائی مجالس شوریٰ کے ارکان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوگا۔

رائے دہندگان کی عمر کم سے کم اکیس سال ہوگی اس شرط کے ساتھ کہ وہ کبھی کسی عدالت میں جھوٹی گواہی کا مرتکب نہ ہوا ہو۔

خود اپنے حق میں کنونسنگ اور انتخابی مہم کے تحت جلسے جلوس کرنے ممنوع ہوں گے البتہ صرف حلقہ انتخاب کی حد تک الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام تعارفی مجالس منعقد کی جاسکیں گی۔ نیز ہر تجویز شدہ فرد کو اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے متعارف کرانے کے ممکنہ مواقع فراہم کئے جائیں گے۔

مروجہ یک رکنی حلقہائے انتخاب کے نظام کے بارے میں ارکان کمیشن کا عام تاثر تھا کہ یہ سادہ اور سہل ضرور ہے لیکن بے شمار قباحتوں کا حامل ہے۔ ان قباحتوں کے ازالے کے لئے دو متبادل طریقے سامنے آئے۔ ایک کثیر رکنی حلقہائے انتخاب کا اور دوسرا انتخاب مکرر کا۔ کافی بحث و تمحیص ہوئی جس کے دوران دو تین ارکان نے مروجہ یک رکنی حلقہ انتخاب کو اولین ترجیح دی باقی ماندہ ارکان میں کچھ افراد کثیر الارکان حلقوں کے حق میں تھے۔ لیکن اکثریت نے اس تجویز کو بہتر قرار دیا کہ جس حلقے میں پہلے انتخاب کے نتیجے میں کسی فرد کو بھی 51 فیصد ووٹ حاصل نہ ہوں تو دو ایسے افراد کے مابین انتخاب کرالیا جائے جو سرفہرست ہوں اور ان میں سے جس کو اکثریت حاصل ہو اس کو منتخب قرار دیا جائے۔

عدلیہ: مملکت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ہر باشندے کو مفت اور سہل الحصول انصاف بعجلت ممکنہ فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔

عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہوگی اور اس کے اختیار انصاف رسائی پر کوئی پاندی عائد نہ ہوگی۔

عدلیہ کو ایک سال کے اندر ہر سطح پر انتظامیہ سے الگ کردیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ اور ہرعدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ با کردار مسلمان ہو اور اسلامی شریعت کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو۔ دوسرے ججوں کے تقرر میں بھی ان کی علمی قابلیت اور تجربے کے علاوہ ان اوصاف کو مد نظر رکھا جائے گا جو اسلام نے قاضی کے لئے ضروری قرار دیئے ہیں۔

عدالت عظمیٰ اور عدالتِ ہائے عالیہ کے اس ختیار پر کوئی پابندی نہ ہوگی کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو کالعدم قرار دیں۔

اس سلسلے میں وفاقی شرعی عدالت کے ابتدائی اختیارِ سماعت پر اس وقت جو پابندیاں عائد ہیں اور جن کے تحت دستور، ضابطے کے قوانین، مالی قوانین اورمسلم شخصی قوانین کو اس کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ انہیں فوراً ختم کردیا جائے گا اور ہر قسم کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار میں داخل ہوں گے۔

عدلیہ کی کاروائیوں کو مؤثر طور پر اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے ایسا انتظام کیا جائے گا کہ عدلیہ فقہ اسلامی کے مستند علماء سے بطور وکیل اور بطور جج مناسب طور پر استفادہ کرسکے۔

رہنما اصول

مملکت کی پالیسیوں کے رہنما اصولوں کے تحت 1973ء کے آئین کی دفعہ 3، 34 اور 40 میں اسلامی احکام کی روشنی میں ترمیم کی جائے۔

1954ء کے مسودہِ دستور میں رہنما اصول طے کئے گئے تھے ان کو بھی دستور میں سمایا جائے تاکہ رہنما اصول زیادہ جامع ہو جائیں۔

علاوہ ازیں ملک کے تمام صوبوں میں کم از کم پر ائمری سطح کی تعلیم تک خط نسخ جاری کیا جائے جو قرآنی رسم الخط ہونے کے علاوہ ملک کی دیگر علاقائی زبانوں مثلاً پشتو، سندھی، بلوچی وغیرہ کا رسم الخط بھی ہے۔

ان رہنما اصولوں کی تعمیل کی نگرانی کے لئے وفاقی مجلس شوریٰ میں ایک خصوصی مجلس قائم کی جائے جو ہر سال کے اختتام پر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے اور کہیں ان اصولوں سے انحراف ہوا ہو تو مناسب باز پرس کی کرے۔

اسلامی احکام اور متعلقہ ادارے

قراردادمقاصد کو محض دستوار کے دیباچے کی بجائے دستور کے متن میں شامل کرکے اسے دستور کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ بذریعہ عدالت قابل تنقید ہو اور واضح طور پر اس بات کی ضمانت ہو کہ ملک کا ہر قانون بشمول دستور، قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ تمام دستوری اور قانونی دفعات کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جو قرارداد مقاصد میں بیان کردہ اصولوں کے مطابق ہو اور اس سے متصادم تمام قوانین کالعدم ہوں گے۔ کمیشن کے رائے میں اس غرض کے لئے اب کسی مدت کے انتظار کی ضرورت نہیں۔

ادارہ تحقیقات اسلامی کو 1956ء اور 1962ء کے دساتیر کی طرح دوبارہ دستوری ادارہ قرار دیا جوئے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے جیسا 1954ء کے دستوری مسودے میں تجویز کیا گیا ہے۔

قومی سلامتی کونسل

ناگزیر ہنگامی صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کمیشن مناسب سمجھتا ہے کہ دستور میں ایک ایسی قومی کونسل تشکیل کا اہتمام کیا جائے جو ہنگامی حالات کا اعلان کرنے اور اس میں مناسب اقدام کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ اس کونسل کی ہیئت ترکیبی یہ ہوگی:

امیر مملکت

مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے سربراہ

عدالت عظمیٰ اور وفاقی شرعی عدالت کے سربراہان

دفاع، خارجی، قانون، داخلہ اور اطلاعات کے وفاقی وزراء

محتسب اعلیٰ

اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین

تینوں مسلح افواج کے سربراہان

تاہم ایسے ہر اعلان کی توثیق تین روز کے اندر اندر مجلس شوریٰ سے کرانا ہوگی ورنہ بصورتِ دیگر کالعدم متصور ہوگا۔

صوبوں کی نشکیل جدید

لوگوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے بہتر مواقع فراہم کرنے، صوبائی عصبیت کے ازالہ میں مدد دینے، روزمرہ ضروریات کی تکمیل میں ممکنہ حد تک وقت اور وسائل کی بچت کرنے اور عامتہ الناس کو بلا وجہ دور دراز سفر کی مشقتوں سے بچانے کے ضمن صوبوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا معاملہ زیر غور آیا۔ چونکہ اس کے مضمرات کے بارے میں کمیشن کے ارکان کے اندازے متفاوت تھے اس لئے طے پایا کہ یہ تجویز حکومت کو پیش کردی جائے اور وہ اس کے مضمرات کا اپنے طور پر جائزہ لینے کے بعد اس کے بارے میں کوئی مناسب فیصلہ کرے۔

صوبوں کے والی / گورنر کے لئے بھی وہی صفات و شرائط اور ضروری حد تک وہی اختیارات و تحدیدات ہوں گی جو امیر مملکت کے ضمن میں بیان ہوئی ہیں۔

طریق عمل درآمد:

مذکورہ بالا سفارشات پر عمل درآمد کے لئے کمیشن مندرجہ ذیل تجاویز پیش کرتا ہے۔

ان سفارشات پر عمل درآمد کے لئے نیا دستور بنانے کے بجائے ان کو 1973ء کے آئین میں بذریعہ ترمیم سمو دیا جائے۔

ترمیم شدہ دستور 12 ربیع الاول 1404ھ سے نافذ کردیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی صوبائی اور وفاقی شوریٰ کے انتخابات کا نظام الاوقات مشتہر کردیا جائے۔

مناسب یہ ہے کہ اکتوبر 1984ء تک صوبائی اور وفاقی مجالس شوریٰ کا انتخاب مکمل ہوجائے اور اس کے بعد امیر مملکت کے انتخاب کے لئے تاریخ کا اعلان کردیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).