کرکٹ بائی چانس کا لولی پاپ


\"mujahid  پاکستان کی ویمن کرکٹ ٹیم نے اگرچہ دہلی میں ہونے والے میچ میں کامیابی حاصل کرکے ٹی 20 ورلڈ کپ کے گروپ میچ میں کامیابی کے لئے امید کو قوی تر کردیا تھا لیکن پاکستان کی ٹیم کلکتہ کے ایڈن گراؤنڈ میں بھارت کی متوازن ٹیم اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کھیلنے کی صلاحیت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ بھارت نے آسانی سے پاکستان کو چھ وکٹوں سے ہرا کر سیمی فائینل میں جانے کے لئے راہ ہموار کرلی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے لئے بھی گروپ کی باقی دو ٹیموں کو ہر ا کر سیمی فائینل میں جانے کا اتنا ہی موقع ہے لیکن آج ان دونوں ٹیموں کا مقابلہ دیکھنے والا اناڑی بھی یہ قیاس کرنے کی غلطی نہیں کرے گا کہ پاکستان یہ مشکل مرحلہ عبور کرسکتا ہے۔ لیکن یہ کلاسیکل فقرہ بہر صورت حوصلہ عطا کرتا رہے گا کہ کرکٹ میں کچھ بھی ممکن ہے۔

یوں تو کھیل میں ہار جیت ہوتی ہی رہتی ہے اور پاکستانی قوم ہارنے پر برا بھی نہیں مناتی کیوں کہ اس کے پاس اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ دیگر تمام قومی امور کی طرح کرکٹ پر بھی وزیر اعظم کے توسط سے حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور وہ اس شعبہ کو بھی میرٹ کی بنیاد پر زیرک اور اہل لوگوں کے حوالے کرنے کی بجائے سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ان افراد کے سپرد کرتے ہیں جو ان کا نام اونچا کرسکیں ۔ اس طرح اس کھیل اور اس کی نزاکتوں سے بے خبر لوگ جو کچھ اس کے ساتھ کر سکتے ہیں ، اس کا ایک مظاہرہ آج کلکتہ میں دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ اس میچ کے ہارنے کا ذیادہ افسوس اس بنا پر بھی ہوگا کہ یہ مقابلہ پاکستان کے سب سے اہم حریف بھارت کے ساتھ تھا اورکلکتہ کے اس میدان میں پاکستان کبھی بھارت سے نہیں ہارا۔ تاہم اس ریکارڈ کو پیش کرنے والے فرط جذبات میں یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان نے مختصر اوورز کے میچوں میں گزشتہ ربع صدی میں بھارت سے کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ اس بار ٹیم کی ساخت اور تیاری کسی طرح بھی اس نوعیت کی نہیں تھی کہ اسے بھارت کی باصلاحیت ٹیم کا حقیقی مد مقابل سمجھا جا سکتا۔ اس بارے میں آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مباحث ہوتے رہیں گے کہ اس میں کون قصو ر وار ہے ۔ لیکن یہ بات تسلیم کرلینے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہئے کہ آج نہ صرف وہ ٹیم جیتی ہے جو اچھا کھیلی تھی بلکہ جیتنے والی ٹیم ہر لحاظ سے ایک بہتر ٹیم تھی۔

پاکستان کے عوام کو کرکٹ میں ہارنے کا ذیادہ افسوس اس لئے بھی ہوتا ہے کہ باقی سب کھیلوں کا گلا گھونٹ کر صرف کرکٹ کو زندہ رکھا گیا ہے۔ اسکواش، ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیل وسائل اور سرکاری توجہ نہ ملنے کی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔ البتہ کرکٹ پر سرکار کے علاوہ میڈیا کی توجہ بھی مبذول رہتی ہے اور لوگ بھی یہ کھیل کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ہرممکن ایثار کرتے ہیں ۔ آج ہونے والے مقابلہ سے قبل جس طرح اس کے بارے میں بات کی گئی، اسے کوریج دی گئی اور قومی اور عالمی خبروں کو نظر انداز کر کے ایک کرکٹ میچ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور بحث کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا، اس سے قومی مزاج میں اس کھیل کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

لوگوں کی دلچسپی اور پسند کے اس عالم کے ہوتے ، اس کھیل کو دیانتدارانہ قیادت اور پروفیشنل رہنمائی کے ذریعے بہت بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا ماہر اور سابق کھلاڑی سننے اور پڑھنے والوں کو یہ بتانے اور باور کروانے میں مصروف رہتا ہے کہ پاکستان میں باصلاحیت کھلاڑیوں یعنی ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن سفارش، اقربا پروری اور نالائقی کی وجہ سے ہم بہتر اور مضبوط ٹیم بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسے میں مایوسی اور مشکلات کا شکار قوم مزید پریشان ہوتی ہے۔ ان حالات میں یہ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ شاید ارباب اختیار کو اس قوم پر رحم آجائے اور وہ مایوسی کے گھنگھور اندھیروں میں اس کھیل کے حوالے سے کوئی خوشی قوم کو دینے کا اہتمام کرسکیں۔ ورنہ کرکٹ بائی چانس کا لولی پوپ تو ہے ہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments