خود فریبی سی خود فریبی ہے


اُستاد کہتے ہیں کہ نا مہرباں موسموں کی بے خواب راتوں اور کربناک دنوں میں دل ڈھارس پانے کے بہانے ڈھونڈ تا ہے … خود فریبی ہی سہی صاحب ، مگر نا مہرباں موسموں میں ایسے ہی ایک بہانے کی انگلی تھامے دلِ مضطر گزرے وقتوںکی طرح چل پڑتا ہے ، جہاں ہم اپنے تاریک ماضی کی دلفریب خاموش صبحوں اور گھر گھر تندوروں سے اٹھتے دھوئیں سے معطر شاموں میں پہنچ کر نہال ہو جاتے ہیں۔

گزرے وقتوں کے غبارِ راہ سے بچپن کے دور کی ایک دھندلی سی تصویر کچھ یوں ابھرتی ہے کہ ہم دیہاتی اَن پڑھ ، اُجڈ ، غیر متمدن ،حالات کے تقاضوں سے بے خبر، دین و دنیا سے نا آشنا اور سائنس و ٹیکنالوجی سے بے بہرہ اپنے ہی کنوئیں کو کل کائنات سمجھنے والی مخلوق تھے ۔ لا علمی کو بھی ایک نعمت کہا گیا ہے اور اس لحاظ سے ہماری زندگی ٹینشن فری تھی ۔ ہو سکتا ہے کہ شہروں میں اس وقت بھی حقیقی فہمِ دین رکھنے والے زود فہم علماء اور فضلاء موجود ہوں ۔بہت ممکن ہے کہ وہ لوگوں کے ایمان اور اخلاق سنوارنے میں اپنے فرض منصبی سے غفلت نہ برتتے ہوں ۔کیا عجب کہ وہاں اہلِ ایمان کے جذبۂ ایمانی کی حدت سے شہر کے درو دیوار پگھل جاتے ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ بیدار مغز دانشور مذہب و ملت کے خلاف دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہتے ہوں ۔کیا خبر کہ شہروں میں اس وقت بھی، جلائو ،گھیرائو اور رستے بلاک کرنے سے محصور بچوں کے کمزور ایمان والدین اور مریضوں کے لواحقین کے دل زخمی اور کلیجے چھلنی ہو جاتے ہوں۔اہل اقتدار کی طرف سے بے حکمتی کے الائو ،آنسو گیس اور بارود کا دھواںان کی سانسوں میںچنگاریاں بھر دیتے ہوں اور تیرو نشتر کی طرح دلوں کو چیرتی خبروں، بیانات اور تجزیوں سے وہ خوفزدہ ہو جاتے ہوں…اور کیا بعید کہ ماضی کے اِس دور میں بھی دیسی لبرل اور سیکولر طبقہ مغربی تہذیب کی نقالی اور حقوق نسواں کے نام پر معاشرتی بگاڑ میں پیش پیش ہوں …مگر خدا کو جان دینی ہے بھائیو ! ہمیں ایسی دلگداز باتوں کا کچھ علم نہیں تھا کہ ہمارے ہاں تو تب بجلی بھی نہیں آئی تھی۔ ہمیں تو کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے دو وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر آ جاتی تو خالق کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے تھے ۔ بخدا ہمیں دین و دنیا کی کچھ خبر نہیں تھی اور بدون تعلیم، فہم و دانش اور میڈیا ہو بھی کیسے سکتی تھی بھلا؟

ہم سادہ لوحوں کی زندگی تو فقط گائوں کے سادہ دل مولوی کے افکار کے گرد ہی گھومتی تھی۔ وہی ہمارا دینی رہنما تھا ، وہی دنیاوی مسائل کی گتھیاں سلجھانے والا، وہی حبیب ، وہی طبیب اور وہی نصیب۔ ہمارے گھرانے گائوں سے باہر واقع تھے ۔ اندر آبادی دیہہ سے ایک نیک سیرت چار جماعت پاس مولانا صبح شام ہماری چھوٹی سی مسجد میں تشریف لاتے تھے ۔آپ نماز کے علاوہ نکاح اور جنازے پڑھاتے ، بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے ، کسی کے گھر خط آتا تو پڑھ کر سناتے، اس کا جواب بھی لکھ دیتے ، جسے سر درد ، دانت کا درد، بخار یا کوئی بھی بیماری لاحق ہوتی ، اسے کلام پاک پڑھ کر دم کرتے اور ہم اللہ کے کرم سے صحت یاب ہو جاتے ۔ ہمارے روزے اور عیدیں بھی مولوی صاحب کی مرہون منت تھیں کہ بیرونی دنیا سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا۔آپ انتیس رمضان المبارک کو مغرب کی نماز پڑھا کر بنفسِ نفیس ننگی آنکھ سے چاند دیکھتے اور اگلے روز عید ہونے یا نہ ہونے کا اعلان فرماتے ۔

ایسی ہی ایک شام مولانا کو چاند نظر نہ آیا تو انہوں نے سب کو اگلے دن روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ ہم بچوں کی عید کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔ اگلے دن نمازِ فجر پڑھا کر جب آپ دولت خانے پر تشریف لے گئے تو بیگم صاحب کو حلوے کے کڑاہ میں چمچہ ہلاتے دیکھ کر ششدر رہ گئے ۔ دراصل گائوں کے دوسرے مولوی صاحب کو چاند نظر آ گیا تھا مگر ہماری ڈھوک اور گائوں کے درمیان رابطے کے فقدان کی بنا پر ہمیں خبر نہ ہو سکی۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ دور سر سبز لہلہاتی فصلوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر مولانا کشاں کشاں واپس چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے آ کر عید کا اعلان کیا تو جیسے ایمر جنسی نافذ ہو گئی۔ کھیتوں میں کام کرتے روزہ داروں کو بلا کر نمازِ عید کا اہتمام کیاگیا۔ سب نے بھاگم بھاگ نہا دھو کر صاف کپڑے پہنے اور ہنگامی طور پر حلوے اور گوشت تیار ہوئے ۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ درختوں کے ساتھ پینگیں ایک روز قبل ہی ڈال دی گئی تھیں ورنہ کیا خاک عید ہوتی؟

ہمارے مولانا کوئی خطیب ِشعلہ بیان یا منبع فصاحت و بلاغت وغیرہ ہر گز نہیں تھے مگر اندر اور باہر سے ایک تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے ، اس پر خود بھی عمل کرتے ۔ ہمارے مذہبی پیشوا دیہی زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر تھوڑے کم فہم ضرور تھے اور ان کا علم بھی محدود تھا ۔تاہم خدا جانے انہوں نے کہاں سے سیکھا تھا مگر ان کا علم فقط محبت اور باہمی احترام تک محدود تھا ۔ فرقہ واریت یا کشیدگی کا سبق تو جیسے انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ تصویر کو حرام سمجھتے تھے اور آخری دم تک اس پر قائم رہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر انہیں ذاتی فوٹو گرافر ،کیمرہ مین یا سیلفیوں کی ضرورت حاصل ہوتی تو بھی اسے منہ نہ لگاتے۔ ہم دیہاتیوں کی زندگی کچھ یوں بھی آسان تھی کہ یہاں کرپشن اور فحاشی کو جڑ سے اکھاڑنے کا رواج نہیں تھا۔ ہم سادہ لوح اپنے مولانا کے افکار کی روشنی میں ایسی خرافات کو گناہ سمجھتے تھے اور ان سے دور رہتے تھے ۔ وہ تو خدا حساب کرے مردِ مومن ضیاء الحق کے ساتھ کہ اس کے ظہورِ پر نور نے ہمیں بھی دنیا کی کچھ خبر دی۔ اس نے ہم کمزور ایمان بارانیوں کا قبلہ درست کرتے ہوئے کہا کہ غافلو! دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے علم اورپختہ ایمان ضروری ہے ،تمہارے مخالف فرقے بھی ہیں اور اختلافِ رائے اور دنگا فساد بھی کوئی چیز ہے ۔ تب تک ٹی وی نے بھی ہمارے گھروں میں تانک جھانک شروع کردی تھی اور کبھی کبھار اخبارات بھی نظر آ جاتے تھے۔ گویا روشنی ہم تک پہنچنا شروع ہو گئی تھی ۔ہمیں مذہب کو اپنے تصورات اور سیاست کو اپنے مفادات کے سانچے میں ڈھالنے کا شعور آ گیا۔

بلا شبہ ہماری اس زندگی اور آج کی زندگی میں وہی فرق ہے جو قلم دوات سے تختی لکھنے اور کی بورڈ سے کمپیوٹر چلانے میں ہے ۔ پسماندہ ماضی کے برعکس آج ہمارے پاس میڈیا اور انٹر نیٹ ہے، علم ہے، اپنے اپنے فرقے اور اپنی اپنی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں ۔تاہم ہم مضافاتی کنفیوژن کا شکار ہیں کہ ہماری پہچان اس دور کی جہالت آمیز تاریکی تھی یا آج کی انتہا پسندانہ روشنی؟ تب یہاں عقل و دانش کا سیلاب نہیں آیا تھا مگر اہل تشیع میلاد کے جلوسوں میں شرکت کرتے اور اہل سنت محرم کی مجالس میں جلوہ افروز ہوتے تھے ۔ ہم دیہاتی علم کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی سہولتوں سے بھی محروم تھے لیکن زندگی باہمی احترام اور اخلاقی قدروں سے منور تھی۔ دشنام طرازی ،الزامات کی سنگ باری، فتویٰ بازی ، کافر گری یا دوسروں کا گریباں پھاڑنے جیسے افعال کا تو ہمارے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔

پس بھائیو اور بہنو ! ہم بارانی اور دیہاتی اَن پڑھ، اُجڈ، غیر متمدن ، حالات کے تقاضوں سے بے خبر،دین و دنیا سے نا آشنا اورسائنس و ٹیکنالوجی سے بے بہرہ اپنے ہی کنوئیں کو کل کائنات سمجھنے والی مخلوق تھے۔ ہم آج کی تہذیب ، علم و دانش، شیریں گفتاری اور ترقی سے دہشت زدہ ہیں۔ نا مہرباں موسموں کی بے خواب راتوں اور کربناک دنوں میں دلِ مضطر ڈھارس پانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔ خود فریبی ہی سہی مگر ایسے ہی ایک بہانے کی انگلی پکڑے وہ ماضی کی طرف چل پڑتا ہے تو ماحولیاتی ، صوتی ،ذہنی اور دلوں کی آلودگی سے پاک حسن و جمال کا نور بکھیرتی شفاف صبحیں اور گھر گھر تنوروں سے اٹھتے دھوئیں سے معطر شامیں دیکھ کر ہم نہال ہوجاتے ہیں۔
کوئی خود فریبی سی خود فریبی ہے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).