ایک عجیب و غریب دوستی (3)


والد مرحوم کی پیشہ ورانہ زندگی کی طرف آؤں تو یہ طے ہے کہ ایک سے دوسری جگہ تبادلہ سرکاری ملازمت کا حصہ ہوا کرتا ہے ۔ تقسیم سے پہلے ابا نے سروس کی ابتدا اتر پردیش کے شہر شاہجہان پور کی آرمی کلودنگ فیکٹری میں بطور سویلین کی تھی جبکہ پاکستان بننے پر وہ پہلے پہل جی ایچ کیو راولپنڈی ، پھر کچھ وقت آزاد کشمیر ہیڈکوارٹرز ، اُس کے بعد زیرِ تعمیر پی او ایف واہ اور بالآخر آبائی شہر سیالکوٹ کی آرڈننس کلودنگ فیکٹری میں متعین رہے ۔

اِس لحاظ سے بال بچوں سمیت اُن کی واہ کینٹ واپسی کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئیے ، مگر تیسری جماعت کے طالب علم کے لئے یہ معمولی واقعہ نہیں تھا ۔ ایک تو انگریزی اردو اسکولوں کی روایتی تقسیم سے جان چھوٹی ، دوسرے بھرے پُرے مشترکہ گھر کی بجائے ایک نیو کلئیر فیملی کا آغاز اور اسی کے عوض ابا اور اُن کے حلقہء احباب سے بھر پور شناسائی ۔

دسمبر 1959 ء کی اُس یخ بستہ رات کا منظر ابھی تک آنکھوں میں ہے جب ٹیکسلا جنکشن پر اترنے والا ہمارا مختصر سا قافلہ واہ کی حدود میں داخل ہوا تھا ۔ شاہواں دی ڈھیری نام کی گھُپ اندھیری آبادی ، کرسچئین ہاسپیٹل سے پہلے ریلوے پھاٹک اور سرائے کالا پہنچ کر دائیں ہاتھ پہ واہ کا بیرئر ۔ تانگہ مزید ڈیڑھ میل آگے گیا تو ، میرے مولا ، روشنیوں میں ڈوبی ہوئی سرخ پتھر کی مسجد اور بیرونی فوارہ جس کے زیرِ آب قمقموں کی پھوار میں یوں لگا کہ پانی کی کرنیں سونے کی بنی ہوئی ہیں ۔

فٹ پاتھ کے ساتھ گھاس کے قطعات اور پھولوں کی کیاریاں ۔ کھمبوں پہ تار نہیں تھے مگر مرکری لائٹیں روشن تھیں ۔ سات سالہ لڑکے کے ذہن میں خیال کی لہر اٹھی کہ ہو نہ ہو جنت اِسی کو کہتے ہیں ۔ کسے خبر تھی کہ ایک دن ہماری اکثر بستیاں اسی طرح انسانوں کی بنائی ہوئی جنت اور دوزخ میں بٹ کر رہ جائیں گی ۔
واہ پہنچنے کی خوشی میں مجھے سب سے پہلے نئی قیامگاہ کا محلِ وقوع بیان کرنا چاہئیے اور پھر یہ بتانا چاہئیے کہ پچیس برس بعد اپنی ریٹائرمنٹ تک ہمارے والد کوئی آٹھ آٹھ سال تک یہاں تین مختلف گھروں میں رہے ۔

اِن وقفوں کے دوران عہدے میں بتدریج ترقی ہوئی اور اُسی تناسب سے مکان کا سائز بھی بدلا ، جیسے رہائش بشری ضرورت کی بجائے افسرانہ سہولت کا تقاضا ہو ۔ کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ تین تین کمروں پر مشتمل جے سی او ٹائپ کوارٹروں میں ولایت سے درآمد کئے گئے دروازے کیوں نصب تھے ۔

اسی طرح کیپٹن کے عہدے کے ہر افسر کے بنگلہ سے ملحق تین تین سرونٹ کوارٹر اور اِس سے اوپر والوں کے لئے چار چار ۔ حیرت تو اِس پہ ہے کہ کسی بھی سرونٹ کوارٹر میں ، جہاں گھریلو نوکروں کے ساتھ اُن کے کنبے بھی رہتے ، بجلی کا کنکشن نہیں تھا اور اگر کسی ’صاحب‘ نے ذاتی حیثیت میں نوکر کو بلب روشن کرنے کی اجازت دی تو یہ فنی طور پہ غیر قانونی حرکت تھی ۔

یہ تو ہوا انگریز کا چھوڑا ہوا ترکہ ۔ گھر کے اندرونی تمدن کی پوچھیں تو ’’ہر اِک مکان کو ہے مکیں سے شَرَف ، اسد‘‘ ۔ سیالکوٹ سے رخصت ہوتے ہوئے دادا نے اپنے اکلوتے بیٹے سے کہہ دیا تھا کہ اپنے گھر کے لئے جو جو چیز چاہو بلا تکلف اٹھا لو ۔

خدا جانتا ہے کہ بیٹے نے بھی سامان لدواتے وقت کوئی تکلف روا نہ رکھا ۔ چنانچہ نیا گھر دنوں میں سیٹ ہو گیا اور پڑوسنوں پہ ہماری ماں کی سلیقہ مندی کی دھاک بیٹھ گئی ۔ پر بڑا بچہ ہونے کے ناطے سے جو مزے مَیں نے لئے اُن کی داستان بھی سبق آموز ہے ۔

سبق آموز اِن معنوں میں کہ والد کے قرب نے سیکھنے سکھانے کے بہت سے دلچسپ مواقع پیدا کر دئے تھے ۔ آپ سوچیں گے یہ اشارہ چار لائنوں والی کاپی پہ انگریزی خوشخطی کے بارے میں ہے یا ہر سہ پہر سیر کے دوران ترجمہ کی زبانی مشق ۔ چلیں یہ بھی سہی ، لیکن اصل بات اِس سے ہٹ کر ہے ۔

اصل بات کا تعلق ہے اہلِ خانہ کی ریڈیو والے کمرے میں جمنے والی محفل سے ۔ یہ تو سیالکوٹ ہی میں پتا چل گیا تھا کہ شام سات بجے لاہور اسٹیشن سے بچوں کے لئے کہانی موہنی حمید کی آواز میں نشر ہوتی ہے اور کرکٹ کمنٹیٹر عمر قریشی اور جمشید مارکر ہیں ۔

گلوکاروں میں ملکہ ء ترنم نور جہاں کے علاوہ کانن بالا ، کملا جھریا ، بیگم اختر فیض آبادی ، زہرہ بائی انبالے والی اور گیتا دت کے نام مَیں نے ابا ہی سے سنے ۔ مردوں میں اُن کے دل پسند پلے بیک سنگر طلعت محمود ، ہیمنت کمار اور پنکھج ملک تھے ۔ محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی وسیع رینج کی بھی تعریف کرتے ، لیکن جس کی گائیکی کے اثر سے میری بہن میمونہ کے الفاظ میں ’’بھاجی کی ناک کی چونچ لال ہو جاتی ‘‘ وہ کندن لال سہگل ہیں ، خصوصاً فلم ’شاہجہان‘ کے لئے اُن کی زندگی کا آخری گیت ’ہم جی کے کیا کریں گے جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ جو ریڈیو سیلون سے صبح کے وقت اکثر نشر ہوتا ۔

آرڈنینس کلب واہ کی تقریبات میں امانت علی اور فتح علی ، نزاکت سلامت اور ملکہ ء موسیقی روشن آرا بیگم جیسے اساتذہ ء فن کے علاوہ ہم کئی مرتبہ اقبال بانو ، فریدہ خانم اور لاہور والی نذیر بیگم کی نیم کلاسیکل گائیکی سے محظوظ ہوئے ۔ پھر بھی بچپن میں زیادہ مزا اُس دن آتا جب ریڈیو پہ کوئی بھُولا بسرا نغمہ سُن کر ابا خود اُس فلم کی پوری کہانی سنانے لگتے

۔ کہانی محض کہانی نہ ہوتی بلکہ ہر کردار کی ایکٹنگ کا نمونہ اور ڈائیلاگ ۔ ’آن‘ ، ’داغ‘ ، ’آوارہ‘ ، ’میلہ‘ کے ٹریلر ہم نے اسی ڈھنگ سے دیکھے ۔ جن فلموں کے مکالمے بار بار سننے کی بدولت ہمیں حفظ ہو گئے تھے ، اُن میں ’مدعی لاکھ برا چاہے ‘ والے ہدایتکار محبوب کی ’پکار‘ بھی شامل ہے ، جس میں چندر موہن اور پری چہرہ نسیم نے جہانگیر اور نورجہاں کے رول کئے تھے ۔ جس روز ابا کے دوست جمع ہوجاتے تو پھر یہی باتیں ہوتیں یا پھر پری پارٹیشن سیاست کے قصے ۔

ابا کے شاہجہانپوری دوستوں میں جو آرمی کلودنگ فیکٹری سے ہجرت کر کے آئے تھے مشتاق علی ، سکندر علی ، نذیر حسن ، مبعوث اللہ اور ہمارے پڑوسی محمد اختر نمایاں رہے ، جن میں سے ہر ایک کے نام کے ساتھ ’خان‘ کا لاحقہ لگا ہوا تھا ۔

بچوں کے لئے پشتو کی جگہ اردو بولنے اور نسوار کی بجائے پان چبانے والے ’خان‘ ذرا حیرت کا باعث بھی بنے ۔ ایک دفعہ چچا بشیر بٹ نے سکندر علی خان کو یہ کہہ کر چھیڑا تھا کہ یہ ’کاٹھے‘ پٹھان ہیں ۔

گویا ایسے بزرگوں کی اولاد جنہیں مغلوں نے شمال مغربی ہندوستان سے لا کر صوبجات متحدہ آگرہ و اودھ کے اُن علاقوں میں بسایا تھا جنہیں روہیل کھنڈ کہتے ہیں ۔

اِس نقلِ مکانی کے عوض انہیں جاگیریں ملیں اور مقامی آبادی پر حکمران طبقوں کی دہشت طاری رہی ۔ ہمارے بچپن تک وہ دور گزر چکا تھا ، مگر وہ جو فیض احمد فیض کہہ گئے ہیں ’’کلاہِ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی‘‘ ۔ تو روزمرہ زندگی میں اِس ’بوئے سلطانی‘ کے مٹتے ہوئے آثار ہم نے بھی دیکھے ہیں ۔

ہماری خوش قسمتی کہ مجھے اور چھوٹے بھائی زاہد کو اِن صحبتوں کا تہذیبی اور علمی فائدہ ہوا اور یہ سمجھ میں آ گیا کہ بڑوں کے ساتھ ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے کِس حد تک فری ہوا جا سکتا ہے ۔ اصل میں کیک اور بسکٹ والی چائے کوارٹر پلیٹوں کے ساتھ مہمانوں کو پیش کرنے کی مستقل ذمہ داری ہم دونوں پہ تھی ۔

چنانچہ جونہی پیالیوں میں قہوہ ، دودھ اور حسبِ ذائقہ چینی انڈیل کر واپس جانے لگتے تو ابا اشارے سے ہمیں وہیں بٹھا لیتے ۔ بڑوں کی اِس بات چیت میں بر صغیر کی سیاست کے حوالے سے وائسرائے لِنلتھگو، لارڈ ویول، ماؤنٹ بیٹن، چرچل، ایٹلی اور ریڈکلف کے نام اتنی دفعہ سننے کو ملے کہ یوں لگتا سب اپنی جان پہچان کے آدمی ہیں اور اِن میں سے کوئی نہ کوئی ابھی ابھی کمرے سے اُٹھ کر گیا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آزادی کے دنوں اور اُس سے پہلے کی سیاست پہ میری بے تکلفانہ گفتگو سُن کر کالج کے ایک ساتھی نے طنزیہ انداز میں پوچھا تھا کہ ’’سچ سچ بتاؤ ، تمہاری حقیقی عمر کیا ہے؟‘‘

اب کیا کہتا کہ قبل از پیدائش سیاست کا اپنے والد کی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکا ہوں ، جنہوں نے 12 اگست 1947 ء کی رات کو یوپی سے آبائی شہر سیالکوٹ کے لئے ٹرین کا سفر شروع کیا اور فساد زدہ امرتسر سے ہوتے ہوئے آزادی کے سورج کو وزیر آباد ریلوے جنکشن پر سلامی دی ۔

بعد میں کئی موقعوں پر ابا نے پاکستان کے بارے میں میری زبان سے نیشنلسٹ علماء کا بیانیہ سننے سے انکار کیا ، اِس لئے برصغیر کی سیاست میں اُن کے لئے بس قائد اعظمؒ ہی حرفِ آخر تھے ۔

ہاں ، ایک سطح پہ دل ہی دل میں اُنہیں بھگوان سنگھ جیسے محبتی دوستوں سے بچھڑ جانے کا ملال بھی رہا جس نے سکھ ہونے کا طعنہ سُن کر پلٹ کے کہا تھا ’’اوئے ڈھیکیا ، مَیں کوئی سُور سکھ آں ؟ مَیں جنڈیالہ شیر خاں دا ایس۔بی۔سنگھ ، بی ایس سی انجنئیرنگ شیفیلڈ یونیورسٹی‘‘ ۔ اور یاد رہے کہ سردار صاحب کو یاد کرتے ہوئے ابا ’شیفیلڈ‘ کو انگریزوں کی طر ح ہمیشہ ’شَے فِیلڈ‘ کہا کرتے تھے ۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).