ہم سا ہو تو سامنے آۓ


قنوطیت پسند کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن عروج پہ ہے, آبادی کا جن بے قابو ہے, تعلیم کا ستیاناس ہے, دہشت گردی عام ہے, فرقہ واریت ہر سو پھیلی ہے, ہم باقی قوموں سے پیچھے رہ گۓ. وغیرہ وغیرہ. ان باتوں پہ ہرگز کان مت دھرئیے. ہمارے پاس ایسے نایاب ہنر ہیں کہ قنوطیوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے کافی ہیں.

کسی سیانے نے کہا تھا کہ سڑک ایک آئینہ ہوتی ہے جس میں قوم کے رویے کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے. چلو قریبی چوک پہ جا کر اپنی لامحدود صلاحیتوں کا لائیو نظارہ کرتے ہیں.

دیکھیں ٹریفک اہلکار کھوکے پہ کھڑے گپ شپ لگا رہے ہیں اور ساتھ بھنے چنے چبا رہے ہیں. ٹریفک سگنل سے بجلی ضائع ہوتی ہے لہذا وہ بند ہیں. پھر بھی ہم رواں دواں ہیں. ہارنوں کی دلربا موسیقی بجاتے جاتے ہیں. ‘بچ او سوہنے’ کی صدائیں بلند کرتے جاتے ہیں. ہارن ایسے ہیں کہ صور اسرافیل کا گماں ہوتا ہے. گویا ہم قیامت سے پہلے قیامت کو ذہن نشیں رکھتے ہیں. دنیاوی سفر میں آخرت کے سفر کی ریہرسل ہوتی رہتی ہے. اسی سلسلے کی تیاری میں ہم گاہے گاہےایک دوسرے سے گھتم گتھا ہو کر دامن چاک کرنے کی مشق بھی کرتے رہتے ہیں. ہم آمنے سامنے گاڑیاں کھڑی کر کے ٹریفک بلاک کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں. ٹریفک اہلکار ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی مدد کر کے ثواب دارین کمانے کا موقع دیتے ہیں.

ٹریفک اہلکار کے اشاروں پہ عمل کرنا ہماری شان کے خلاف ہے. ہم کسی کے اشارے پہ ناچنے والے نہیں. تھوڑی سی توتو میں میں, ہلکی پھلکی گالم گلوچ, پی پی پاں پاں اور انجنوں کی پھٹ پھٹ میں زندگی کی چند ساعتیں خوشی خوشی بیت جاتی ہیں اور گھنٹہ بھر میں پھر ٹریفک چل پڑتی ہے. ایسے پر رونق, روح پرور اور دل افروز چوک دنیا میں خال خال ہی ملتے ہوں گے.

کہتے ہیں کہ دنیا میں سالانہ 1.2 ملین لوگ سڑک حادثات میں مارے جاتے ہیں اور پچاس ملین زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں. کون کہتا ہے ہم دنیا سے پیچھے رہ گۓ؟ ان اعدادو شمار میں ہمارا قابل ستائش حصہ ہوتا ہے. وقت کی اتنی قدر کرتے ہیں کہ گھنٹوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کر ڈالتے ہیں. موٹر سائیکل سے گاڑی کا کام لیتے ہیں اور گاڑی سے جہاز کا. وقت کی قدر کرنے میں ہم ہر سال ہزاروں جانیں سر راہ قربان کرتے ہیں. مگر پھر بھی حوصلے اور رفتار بلند رکھتے ہیں.

ہماری سڑکوں پہ زندگی غیر محفوظ اگر ہے تو اسکا بھی ایک بڑا فائدہ ہے کہ ہمیں ہر گھڑی یہ احساس رہتا ہے کہ دنیا عارضی قیام گاہ ہے. آپ جب بھی سڑک پہ ہوتے ہیں موت کو خاصا قریب سے دیکھ پاتے ہیں. خدا خدا کر کے منزل پہ پہنچتے ہیں. یوں خدا سے قربت کا موقع مل جاتا ہے. سفر کا سفر عبادت کی عبادت.
ہماری سڑکیں بتاتی ہیں کہ ہم نڈر اور زندہ قوم ہیں. زندہ دلی دیکھیں کہ سڑک پہ یوں اٹکھیلیاں کرتے جاتے ہیں جیسے میلے میں پھر رہے ہوں. اور یوں کرتب دکھاتے ہیں کہ سرکس کے فنکار بھی انگشت بدنداں ہو جائیں. ہمارے شاہیں نوجواں موٹر سائیکل چلاتے یوں جھپٹتے اور پلٹتے ہیں کہ دیکھنے والوں کا بھی لہو گرم ہو جاتا ہے. بنا ہیلمٹ کے اتنی تیز رفتاری سے ون ویلنگ کرتے ہیں کہ ستارے ان کی گرد راہ بن جاتے ہیں. قومی تہوار منانے کا بھی ہمارا یہی لاثانی طریقہ ہے. ایسے کرتب کبھی میلوں ٹھیلوں میں لوگ ٹکٹ بھر کے ‘موت کے کنویں’ میں دیکھتے تھے.

آج وہی فن سڑک پہ آپ بنا دھیلا خرچ کیے مفت میں دیکھ سکتے ہیں. ایسے جادوگر نوجوان اور کہاں ملتے ہیں دنیا میں!

ہماری کفایت شعاری ملاحظہ ہو کہ ہم بائیک کا سائلنسر نکال کے رکھ لیتے ہیں. یوں ہارن کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہتی. سڑک کے قرب و جوار میں سوئی ہوئی قوم بھی خواب غفلت سے بیدار ہو جاتی ہے. یہ سہرا ہمارے نوجوانوں کے سر ہے کہ انہوں نے دنیا پہ عیاں کر دیا کہ سائلنسر اور ہارن بنانا پیسے کا ضیاع ہے. مڈگارڈ, سپیڈومیٹر اور ہیڈلائٹ کا بھی ہم ناحق بوجھ اٹھاۓ پھرتے ہیں.

ہم لوگ سڑک سے بیسیوں کام لینا جان چکے ہیں. سڑک پہ دکان چمکا لیتے ہیں, پارکنگ لاٹ بنا لیتے ہیں, راہ چلتے دوستوں سے ملاقات, ضروری تبادلہ خیال اور میٹنگ سڑک پہ نمٹا لیتے ہیں. سڑک پہ گاڑی میں بیٹھے بٹھاۓ خریداری کا فن سیکھ چکے ہیں. ٹائر جلانے اور احتجاج کرنے کی لیے سڑک کام آتی ہے. ٹینٹ گاڑ کر شادیانے بھی ادھر ہی بجا لیتے ہیں. سوگ منانا ہو تو سڑک پہ بیٹھ کر سب مسافروں کو سوگوار کرتے ہیں. جلوس و محافل کے لیے پنڈال سڑک پہ سجاتے ہیں. بھینس بکری بھی سڑک کنارے باندھ لیتے ہیں. کرکٹ اور پٹھو گرم تو سڑک پہ ہی مزہ دیتے ہیں. قدرت کی کال پہ کسی گاڑی یا ریڑھی کی اوٹ میں لبیک بھی کہہ لیتے ہیں. دکان اور گھر کا کوڑا سڑک پہ ڈالتے ہیں جو منٹوں میں خاک ہو جاتا ہے. ذرا سی باد صبا چلے تو ہمارا آسماں رنگ برنگے شاپنگ بیگز اور خالی ریپرز سے قوس قزح بن جاتا ہے.

ہماری خوبیوں کی فہرست طویل ہے. سب کو لکھنے اور پڑھنے کا ہمارے پاس وقت نہیں. زندگی ایک ریس ہے جس میں ریس لگانی پڑتی ہے اور ہم جیسی ریس کوئی مائی کا لال نہیں لگا سکتا.  ہم سا ہو تو سامنے آۓ. ہماری سڑکوں کی حالت کو شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گۓ

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti