میں خاموش نہیں رہوں گی


فون کی گھنٹی بجی،
اسلام علیکم،
وعلیکم اسلام،

پشتو میں روایتی حال احوال ہوا، اور بس پشاور زراعت کے تربیتی مرکز حملے کا ذکر چھیڑا گیا، کہنے لگی، کوئی چاہے کچھ بھی کریں میں تو بولتی رہوں گی، میں تو پوچھتی رہوں گی مجھے جوابات چاہیے، چاہے جو بھی ہو۔ وہ بولتی رہی، میں سنتا رہا، وہ سوالات کرنے لگی۔ کیوں ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں؟ کیوں ہر روز جوانوں کے جنازے ہمارے گھروں میں بیجھے جارہے ہیں؟ کیوں ماؤں کے لال اور بہنوں کے لخت جگر بے دردی سے قتل کیے جارہے ہیں؟ آخر کیوں؟ میں خاموشی سے سنتا رہا، وہ پوچھتی رہی۔
آپ سن تو رہے ہوں نا؟ اس نے پوچھا۔

جی سن رہا ہوں میں نے جواب دیا۔
آپ کچھ کیوں نہیں بول پارہے ہوں؟ میرے سوالات غلط ہیں یا آپ میں بولنے کی سقت اور ہمت نہیں؟
میں نے کہا تم اپنی بات پوری کرلو، سوالات مکمل کر لو میں تسلی سے جوابات دوں گا۔
نہیں آپ ان سوالات کا بھی جواب دو، پشاور میں مارے جانے والے زرعی یونیورسٹی کے طالب علموں کا قصور کیا تھا؟
اے پی ایس پشاور کے معصوم بچوں کا بتاؤ، اخر وہ پڑھنے کے لئے سکول بھیجے گئے تھے، ان کو کیوں مارا؟ وہ تو قلم اور کتاب کے دوست تھے۔

وہ تھوڑی دیر کیلے خاموش ہوگئی میں نے پوچھا بس؟ یا اور بھی پوچھنا ہے؟
جی نہیں آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں؟ اس کی آواز میں درد بھری سسکیاں شامل ہوئیں۔

لمبی سانس لینے کے بعد میں نے کہا جو سوالات تم کر رہی ہوں یہی سوالات اے پی ایس پشاور کے پھول جیسے معصوم بچوں کے والدین کئی سال گرزنے کے باوجود آج تک کررہے ہیں۔ یہ سوالات مشال خان کے والد اور ان کی بہنیں تادم تحریر کر رہے ہیں۔

اور ہاں میں تو بھول گیا تھا۔
یہ سوالات لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر آج کے واقعے میں قتل ہونے والوں کے لواحقین اور ان کے ساتھی، سیاسی رفقا اور ہر باشعور انسان پوچھ رہا ہے مگر۔ ۔
مگر کیا؟ اس نے پوچھا
مگر کچھ نہیں، مگر یہ ہے کہ ان سوالوں کے جوابات ہے ہی نہیں۔
یہ آپ میرا مذاق اڑا رہے ہوں کیا اس نےجذباتی ہوکر پوچھا۔
ارے نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے یقین کریں ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے سے آج تک ڈھونڈ نہیں پایا تمہیں کیا خاک جواب دوں گا؟

بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو اور بھائی کے قتل کے اسباب اور وجوہات معلوم کرنے کی وجہ سے خود موت کے خریداروں کے ہاتھوں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئیں۔ صمد خان اچکزئی ہو یا میاں افتخار حسین کا اکلوتا بیٹا، وہ بلور صاحب نے تو سینے پر گولیاں نہیں پورا خود کش دھماکہ سہا، سبین محمود بھول گئیں کیا، وہ کیا نام ہے وہ معروف قوال؟
امجد صابری۔
جی امجد صابری، وہ بلوچستان کے وکلا وسیاسی کارکن، ہزارہ برادری، ملک بھر کے صحافی، وہ مشال خان، اب میں کس کس کا نام لوں ہزاروں کی تعداد میں تو ہیں جو ان سوالات کے جوابات کے منتظر تھے کہ انہیں موت کی راہ دکھا دی گئی۔ جو زندہ ہیں وہ مردوں سے بدتر ہیں۔ جیتے جی مررہے ہیں، جی میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جنہیں دوسروں کے قتل کا احساس اور درد ہو رہا ہے۔ ان کا نہیں جو قاتلوں کے خیرخواہ پیروکار اور آلہ کار ہیں۔

یاد ایا وہ بی بی سی کی رپورٹ پڑھ رہا تھا، وہ معروف فلم کار ہیں نا، جمشید محمد رضا المعروف جامی۔ ۔ ۔
جی اسے بھی مارا کیا؟ اس نے بڑی جلدی میں پوچھا۔

نہیں نہیں خدا اسے لمبی عمر دیں، رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ جامی صاحب نے کہا ہے کہ یہ ملک اب رہنے کا قابل نہیں رہا، میں اپنے بچوں کو اس ملک سے باہر بھیجنے کے لئے تیار ہو چکا ہوں۔ یہاں لوگ انسانوں کے قتل کے عادی ہو چکے ہیں۔ کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔

ملالہ یوسفزئی کے والد ضیا الدین نے بھی اپنے ایک کالم میں بہت سارے سوالات کیے اور تجاویز دی ہیں۔ جامی صاحب اور ضیالدین صاحب کے الفاظ بے شک الگ الگ تھے مگر مفہوم اور مقصد یقیناً ایک ہی ہے۔ دونوں نے اسلام آباد اور لاہور میں ہونے والے حالیہ مذہبی جماعت کے پر تشدد دھرنوں کو موضوع تحریر بنا کر سوالات کیے اور تجاویز دیں مگر۔ ۔ ۔
مگر کیا؟ اس نے پوچھا

میں نے جواب دیا، جی مگر، اس لیے مگر کہ جامی صاحب اور ان کے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ، ضیا الدین صاحب ملالہ اور ان کے پورے خاندان کے جانے، ان کے گلے شکوے، کالمز، میری تحریر اور تمہارے سوالوں پر سوچنے والا، ان سوالوں کے جوابات دینے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں۔ ہوتا تو ستر ہزار قتل ہونے والوں کے قتل کی وجوہات اور ان کے قاتل معلوم ہوتے، اب تو بس بہت عرصہ بیت گیا، سات دہائیاں ہوچکی ہیں مملکت خداد کو معرض وجود میں ائے ہوئے۔ اور ہاں اکیس دن کے دھرنے کے اکیس کروڑ روپے لینے والوں سے اکیس کروڑ عوام کے منتخب نمایندے، ذمہ دار ادارے بشمول عدلیہ پوچھتے تو تمھارے سوالوں کے جوابات بھی ملتے مگر نہیں، مگر نہیں۔ ان کے سوالوں کی طرح ان کی سسکیوں کی اواز بھی آہستہ آہستہ خاموش ہوتی گئی تو میں نے بھی فون بند کیا اور اپنے انسو خود ہی پونچھ لیے۔

حفیظ اللہ شیرانی
Latest posts by حفیظ اللہ شیرانی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).