میرے چارہ گر کو خبر کرو


جمشید کو سعودیہ میں نوکری کرتے تین برس بیت گئے تھے اور اب عید کے دنوں میں وہ واپس پاکستان آرہا تھا۔ اس کی ماں نے سوچ رکھا تھا کہ اس بار وہ جمشید کے سر پر سہرا ضرور سجائے گی۔

گھر میں اکیلے بیٹھے ویسے بھی اب اس کا دل کرتا تھا کہ کوئی اس کا خیال رکھنے والی بہو ہو اور گھر کا آنگن بچوں کی چہل پہل سے چہکتا رہے اور یوں جمیشد کے آنے پر اس کا رشتہ اس کی خالہ زاد کزن زرینہ کے ساتھ طے پا گیا۔

خوب دھوم دھام سے شادی ہوئی اور پھر وہ دن بھی آن پہنچے جب جمشید کو واپس جانا تھا۔
تب گھر کے سبھی لوگ اداس ہوگئے خاص کر نئی دلہن جسے ابھی اس گھر میں آئے بمشکل دو ہی ماہ گزرے تھے لیکن جمشید نے وعدہ کیا کہ وہ جلد امی جان اور زرینہ کو سعودیہ عمرے کے لیے بلائے گا۔

خود جمشید کا دل بھی اب واپس جانے کو نہیں کر رہا تھا اور ظاہر ہے کرتا بھی کیسے!
نئی نئی شادمانی اتنی جلدی کہاں ختم ہوتی ہے لیکن مجبوری تھی روزگار کے لیے جانا بھی ضروری تھا۔
چند ہی ماہ گزرے کہ جمشید نے گھر فون پر چھوٹے بھائی فضل کو بتایا کہ وہ اماں اور اپنی بھابھی کا پاسپورٹ بنوا دے اور انہیں کہے کہ اگلے ماہ تیاری رکھیں، انہیں عمرے پر جانا ہے۔

اس خبر پر ماں نے ہاتھ اٹھا کر بیٹے کو دعائیں دی اور بہو کو جا کر یہ خوشخبری سنائی۔
خبر سننے کی دیر تھی کہ زرینہ بھی خوشی سے اماں کے گلے لگ گئی اور اگلے ماہ وہ حرمِ پاک میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھے نفل ادا کر رہے تھے۔

کعبے کے سامنے بیٹھی زرینہ نے دعا مانگی کہ اب رب العزت اسے اولاد کی نعمت بھی عطا کر دے تاکہ اس کی زندگی اور گھرانہ مزید خوشیوں سے بھر جائے۔
عمرہ کی سعادت کے بعد زرینہ واپس آگئی اور اللہ تعالٰی نے اس کی دعا قبول فرمائی۔
زرینہ کی جھولی میں چاند سا بیٹا ٰآیا جس کا نام اس نے بہت پہلے سے ذیشان سوچ رکھا تھا۔

زرینہ بہت خوش تھی کہ اچانک جیسے اس کی خوشی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ بدقسمتی سے ڈلیوری کے بعد بچے کی حالت ڈاکٹرز نے نازک قرار دے دی تھی۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے کی سانس کی نالی میں انفیکشن تھا جو کہ آپریشن سے ٹھیک ہو سکتا تھا لیکن اس کے لیے اسے فوری چلڈرن ہسپتال منتقل کرنا ضروری تھا۔

چاچو فضل نے بھتیجے کو سینے سے لگایا اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اسے ایمبولینس میں چلڈرن ہسپتال لے جانے کے لیے نکلے لیکن تبھی زرینہ نے بھی ساتھ جانے پر اصرار کیا۔
زرینہ گو کہ ڈلیوری کیس کے بعد زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھی لیکن وہ ساتھ جانے پر بھی بضد تھی لہذا جمشید کی ماں اور زرینہ بھی ایمبولینس کے ساتھ ہو لیں۔

سائرن بجاتی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی اور ننھی جان آکسیجن کے سہارے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی جبکہ زرینہ اور اماں مسلسل اس کی زندگی کی دعائیں مانگنے میں مشغول تھے۔

اچانک ڈرائیور کو ایمبولینس روک کر سائرن کی آواز ذرا اونچی کرنا پڑی۔
دو مسافر آپس میں موٹر سائیکل پر ٹکرانے کی وجہ سے گتھم گتھا تھے اور ان کا تماشہ دیکھنے کے لیے کئی موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں نے ٹریفک جام کر رکھا تھا۔

زرینہ نے پریشان ہو کر کھڑکی کی جانب سے باہر دیکھا۔ موٹر سائیکلوں کی ایک لمبی قطار سائرن کی آواز سے انجان تماشہ بنے کھڑی تھی اور دونوں لڑکوں کے ساتھیوں کے آجانے کی وجہ سے اب یہ لڑائی دو گروپوں کے گھسمان میں بدل چکی تھی۔

ڈرائیور نے حالات کی نوعیت کوسمجھتے ہوئے ایمبولینس کو دوسرے رستے سے ٹرن کر کے واپس جانے کی کوشش کی لیکن ٹریفک ایمبولینس کے عقب سے بھی بلاک تھی۔
زرینہ کی پریشانی بڑھنے لگی کیونکہ ننھے ذیشان کے لیے ایک، ایک وقت قیمتی تھا۔

ڈرائیور نے نیچے اتر کر راستہ مانگنے کی استدعا کی تو فضل بھی ڈرائیور کے ساتھ ہو لیا۔
سڑک پر رکے موٹر سائیکل سواروں کو ایمبولینس میں موت و حیات کی کشمکش لڑتے بچے کی سنگین صورتحال کا بتایا گیا، فضل نے لوگوں کی منت سماجت کی اور تب کہیں جا کر اکا دکا لوگ پیچھے ہوئے۔

ڈرائیور نے موقع کا فائدہ اٹھا کر گاڑی رش سے نکالنے کی کوشش کی لیکن ٹریفک جام کی لائن خاصی لمبی تھی۔
زرینہ نے بچے کی جانب دیکھا جو کہ ہچکیاں لے کر سانس لے رہا تھا، اسے محسوس ہوا کہ حالات نازک ہو رہے ہیں۔

اسی پریشانی میں زرینہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور اس نے ڈرائیور سے روتے ہوئے کہا بھیا، پلیز ذرا جلدی گاڑی نکالیں لیکن ڈرائیور بے چارہ خود بے بس تھا۔
آدھ گھنٹے کی تگ و دو کے بعد بالاآخر پولیس نے وہاں پہنچ کر معاملہ سلجھایا اور ڈرائیور رش سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور گاڑی چلڈرن ہسپتال کو جانے والے ایک متبادل مین روڈ پر گامزن ہوگئی۔

ہسپتال پہنچنے میں مزید ایک گھنٹہ تاخیر ہوئی کیونکہ جس رستے سے ہسپتال پہنچنا مطلوب تھا وہاں بے ہنگم ٹریفک کا رش تھا لیکن بچے کو فوری ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا۔
فضل نے ڈاکٹر کو بلایا، نرس نے بچے کو فوری آکسیجن دی۔

لیڈی ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد فضل سے کہا اس بچے کے ماں، باپ کون ہیں؟
زرینہ آگے بڑھی اور بولی جی میں اس کی ماں ہوں۔
ڈاکٹر نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور افسردہ ہو کر بولی، معذرت!

”بچے کی جان نہیں بچ سکی، آپ کو اسے ہسپتال لانے میں دیر ہوگئی اگر ایک گھنٹہ قبل یہاں پہنچا جاتا تو کوشش کی جا سکتی تھی۔ “
زرینہ کو ایسے محسوس ہوا جیسے اس کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ دی ہو اور وہ گہری کھائی میں گرتی چلی جا رہی ہو۔

صدمے میں بے سدھ وہ دیوار سے ٹیک لگاتے لگاتے وہ نیچے فرش پر ہی بیٹھ گئی۔
فضل بچے کو لے کر اس کے پاس آگیا اور روتے ہوئے بچہ اس کی جھولی میں ڈال گیا۔
زرینہ نے دیکھا، ابھی تک ذیشان سے اس کی خوشبو آرہی تھی، نرم ملائم ہاتھ اور خوبصورت گال ممتا کے آنسو سے بھر گئے تھے۔

اپنے بچے کو جھولی میں لیے ایک دفعہ تو زرینہ کا دل کیا کہ جھولی اٹھا کر ان بدبختوں کو بددعائیں دے جنہوں نے اس کے بچے کی جان لی اور اس کی زندگی کے قیمتی وقت کو مہلت نہ دی لیکن پھر اسے خیال آیا کہ وہ بھی کسی ماں کے بچے ہیں۔ اس نے ضبط کے دامن میں سہارا لے لیا۔

گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی لیکن اس سے بڑی قیامت اگلے دن صبح دیکھنے کو ملی جب منہ اندھیرے گاؤں کے مولوی کی ہدایت پر بچے کو قبرستان لے جایا جانے لگا تو زرینہ نے اسے مٹی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے ذیشان کو گھر میں لائے جھولے پر لٹا کر اسے جھولنا شروع کر دیا اور لوری سنانے لگی۔

گاؤں کی خواتین اور جمشید کی ماں یہ منظر دیکھ کر اپنی اشکبار آنکھوں سے اسے سمجھانے لگیں لیکن زرینہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی اور بلاآخر شدت غم سے وہ بے ہوش ہو گئی۔
ذیشان کو مٹی کے چھوٹے سے گھر میں دفنا دیا گیا اور زرینہ کی جھولی خالی ہو گئی۔

جمشید چھٹی لے کر وطن واپس آیا تو زرینہ اسے گلے لگ کر اتنا روئی، اتنا روئی جیسے اسے بتا رہی ہو کہ اس اکیلی نے کس صبر اور دکھ کے ساتھ اپنے جگر کے ٹکڑے کو مٹی کے سپرد کیا لیکن جمشید کے پاس اسے تسلی دینے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

یہ میرے ایک عزیز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی روداد ہے جسے یہاں بیان کرنے کا مقصد ہماری اس سماجی لاپرواہی اور غیرذمہ درانہ سوچ پر دستک دینا تھی کہ ایمبولینس کے سائرن کو غیرسنجیدگی سے لے کر ہم دراصل کتنا بڑا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر ذیشان کو وقت پر ہسپتال پہنچا دیا جاتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور ایسا صرف اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ ٹریفک جام میں تماشا دیکھتے لوگوں نے سائرن کی آواز کو سننا تک گوارہ نہیں کیا۔

ہمارے لیے ایمبولینس کے سائرن کی آواز تب تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک اس سائرن کی ڈور ہمارے کسی اپنے عزیز کی سانسوں کی ڈور سے نہ جڑی ہوں لیکن ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ایمبولینس کو رستہ نہ دے کر ہم بذات خود کسی کی سانسیں چھیننے جیسے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).