پاکستان کے نظام امتحانات کے بڑے بڑے مسائل


اس قلیل وقت میں نظام امتحانات کی جملہ خرابیوں کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ البتہ اختصار کی خاطر میں چند بڑی بڑی قابل اصلاح خرابیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ گسی بھی ملک کے تعلیمی امتحانات اصلاح تعلیم کا نقطہ آغاز ہوتے ہیں۔ جب امتحانات کی اصلاح نہیں کی آتی تو وہ گھن کی طرح آہستہ آہستہ پورے نظام کو کھا جاتے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناقص امتحانات تعلیمی انحطاط کو سہارا دے کر اسے رواں دواں رکھتے ہیں اور بلا آخر وہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ ایک مقولے کے مطابق‘‘جس کام کو ناپا جا سکتا ہے وہ کام مکمل ہو جاتا ہے
‘‘What is measured gets done’’

پاکستان کے نظام امتحانات کے بڑے بڑے مسائل

غیر یکساں اور غیر معیاری امتحانات

کسی بھی معیاری امتحان کو کم از دو شرائط کو ضرور پورا کرنا پڑتا ہے۔ اوّل یہ کہ اس کے جواز (validity) پر سوالیہ نشان نہ اٹھایا جا سکتا ہو۔ مثلاً اگر معاشرتی علم کا پرچہ انگریزی زبان کا امتحان لینے لگ جائے تو اس پرچے کا جواز ہی ختم ہو جائے گا دوم اس کا جائزہ قابل بھروسہ ہونا (Reliable)چاہیے۔ جب ایف ایس سی کا نتیجہ اور میڈیکل انٹری ٹیسٹ ایک ہی بچے کی قابلیت کی دو متضا د رپورٹس دیں گے تو دونوں پر بھروسہ ختم ہو جائے گا۔ ایسا امتحان جس کی جوازیت بھی مشکوک ہو اور وہ قابل بھروسہ بھی نہ ہو تو اس کے ہونے اور نا ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔ اے لیول اور او لیول امتحان چونکہ تشکیل ہی کسی اور سر زمین پر پاتے ہیں اس لئے ان کا جواز ہمیشہ محل نظر رہے گا۔ کسی بھی پرچے کا بھرم (Reliability) جانچنے کے لئے پرچہ دینے والوں کے حوالے سے ہی بات کی جاتی ہے یعنی یہ پرچے کن طلبا کے لئے قابل بھروسہ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اے لیول اور او لیول امتحانات فنی اعتبار سے قابل بھروسہ (reliable)نہیں ہیں۔ کیونکہ ان کا بھرم Reliability ان طلبا کے ذریعے سے وضع کی گئی تھی جو پاکستانی طلبا سے یکسر مختلف ہیں

بعض اوقات یکساں نظر آنے والے امتحانات بھی عملاً غیر یکساں جائزے کے حامل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں پیک (PEC) کے امتحانات میں جب نجی تعلیمی اداروں اور سرکاری سکولوں کے طلبا کو ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی پرچہ دیا گیا تو تعلیمی معیار میں نمایاں فرق ہونے کی وجہ سے وہ نجی تعلیمی اداروں کے لئے تو بہت آسان ثابت ہوا جب کہ سرکاری سکولوں کے طلبا کے بہت مشکل۔ یا دوسرے لفظوں میں پرچہ امتحان نے منظم طریقے سے نجی اداروں کے طلبا کے لئے آسانی پیدا کی اور سرکاری اداروں کے طلبا کے لئے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اس غیر منصفانہ امتحان کو اساتذہ کے بے رحم احتساب کے لئے بھی اس جذبے سے استعمال کیا گیا جیسے اس سے خدائی انصاف قائم ہو رہا ہو۔

غیر معیاری پرچے اور گرتا ہوا تعلیمی معیار

پر چے کی تیاری کا تعلیمی معیار سے کہرا تعلق ہے۔ پرچہ اگر سارے کورس پر محیط نہیں ہو گا۔ تو بالآخر نصاب کے بعض ایسے حصوں کو جو امتحان میں بالعموم مسلسل چھوڑ دیے جاتے ہیں مستقل طور پرمعطل کر دے گا۔ ایسی صورت حال میں گیس پیپرز کا کاروبار عروج پرہو تا ہے۔ اور ہم اس عالمی رپورٹ کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں جس کے مطابق پاکستان میں امتحانی سوالات اور جوابات دونوں خریدے جا سکتے ہیں۔ ایسا پرچہ جس میں دس یا کم سوالات ہوں وہ پورے کورس کا کس طرح احاطہ کر سکتا ہے۔ اور اگر ان دس سوالات میں کوئی سے پانچ سوالات کرنے کی رعائت دے دی جائے۔ تو نصاب کی تکمیل کا جائزہ ناممکن ہو جائے گا۔

ایک اچھا فیصلہ معروضی سوالات شامل کرنے کے بارے میں تھا۔ لیکن معروضی سوالات بھی بڑے غیر معیاری دیے جا رہے ہیں جو صرف طلبا کا حافظہ چیک کرتے ہیں فہم و فراست نہیں۔ ایسی صورت میں یہ دعوی کرنا مضحکہ خیز ہو گا کہ نصاب کے مقاصد کی تکمیل ہو چکی ہے۔ معروضی سوالات کی تیاری پیچیدہ عمل ہے جس کے لئے فنی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایسی مہارت پیدا کرنے والے اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے جبکہ ان کی ضرورت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

موجودہ تعلیمی بورڈوں کا ماحول سیاسی اور سماجی دباؤ کا شکار رہتا ہے۔ کام کی وسعت اور بھر مار افراتفری کی کیفیت پیداکیے رکھتی ہے۔ جبکہ پرچہ جات کی تیاری ایک سنجیدہ تحقیقی عمل ہے جس کےکیے پر سکون ماحول اور رازداری بنیادی شرائط ہیں۔

پرچے کی تیاری کی جدید روایات کے مطابق جب تک ایک ایک سوالات کی جانچ پڑتال کرکے دیکھ نہ لیا جائے اس وقت وہ باقاعدہ امتحانات میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب کے باوجود امتحان کے تمام سوالات کی تفصیلی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے۔ کہ

1۔ پرچہ طلبا کی ذہنی سطح اور نصاب کے مطابق ہے
2۔ پرچے کے ہر سوال میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے یا نہیں کہ وہ قابل اور نکمے طلبا میں تمیز کر ے۔

مزید یہ کہ پرچے کے مجموعی بھرم (reliability) کا اشاریہ ایک اچھا پرچہ ہونے کا ثبوت دے۔ سوائے PEC امتحانات کے کسی بھی امتحان میں ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ پیک میں بھی بیوکریسی کی من مانیوں کی وجہ سے ماہرین امتحانات غیر موثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔

نظام امتحان کو چار بڑے مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے

اوّل: پرچے کی سائنسی بنیادوں پر تیاری
دوم: پرچے کا انعقاد اور یکساں امتحانی ماحول کو یقینی بنانا
سوم: پرچوں کی جانچ اور نمبر لگانا
چہارم: نتائج کی تعبیر اور اور نتائج کی فراہمی

عالمی طور پر ہر مرحلے کے تفصیلی معیارات اور انکے حصول کے لئے رہنما اصول بھی میسر ہیں۔ لیکن ان میں بہت کم پر پاکستان میں عمل درآمد ہوتا ہے۔ ایک موقع پر پوری حکومتی مشینری کو صرف امتحانات میں نقل روکنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ جو دوسرے مرحلے کا جزوی کام ہے۔ ظاہر ہے اس جزوی کوشش کی پوری کامیابی کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پورا نظام درست ہو گیا ہے۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں امتحانات کی اصلاح کے لئے انقلابی اصلاحات ہوئی ہیں۔ اور اب ہمارے پاس جدید سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں موجود ہیں۔ ضرور ت سیاسی ارادے اور ترجیحات تبدیل کرنے کی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیکنالوجی کو استعمال کوشش کی گئی مگر یہ کام کمپیوٹر ایکسپرٹ کو دے دیا گیا۔ جو امتحانات کی فلاسفی اور روایات دونوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ ناکامی اور پریشانی دونوں کا منہ دیکھنا پڑا۔

امتحانات کے چار بنیادی مراحل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ پرچوں کی تیاری اور ترقی کے بڑی تعداد میں ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ ایسے پرچے تیارکیے جا سکیں جن میں نقل کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ اور طلبا کی کارکردگی کا صحیح صحیح انداز لگا سکیں۔ اس کام کے لئے ایک الگ آزاد ادارے کا قیام ضروری ہے۔ جس میں جدید ماہرین امتحانات تعینات کیے جائیں۔ انکا کام پرچہ جات کے لئے سوالات کی تیاری اور ان میں مزید بہتری کے لئے کام کرنا شامل ہو۔ مزید یہ کہ یہی ادارہ امتحانات میں جدت اور جدید ٹیکنالوجی کے موزوں استعمال کے لئے جدید نظام وضع کرے۔

موجودہ تعلیمی بورڈوں کے ذمے امتحانات کا وقت پر انعقاد، پرچوں کی مارکنگ اور نتائج کا بروقت اعلان ہونا چاہیے۔ جہاں تک امتحانات میں نقل روکنے کا تعلق ہے بنیادی اصول یہ کہ امتحانی شرائط اور ماحول (Testing Conditions)سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے۔ ایسا جبر کا ماحول بھی نہیں ہونا چاہیے کہ طلبا نفسیاتی دباؤ میں آکر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ بعض اوقات امتحانی کمرہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں طلبا کے درمیان فاصلہ پانچ فٹ نہیں رہتا۔ اس لئے بہتر یہ ہوگا کہ امتحانات میں استعمال ہونے والے تما م کمروں کا پیشگی جائزہ لے کر کمرہ امتحان بنانے کی اجازت دی جائے۔

پرچہ جات کی مارکنگ ایسا مرحلہ ہے کہ جہاں بد عنوانی اقربا پروری اور سفارش کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ مارکنگ کے معیار اور پڑتال کو قانونی طور پر روک دیا گیا اس طرح مارکنگ میں من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ ایک تحقیق میں دو سو معروضی پرچہ جات کی مارکنگ کو جب چیک کیا گیا تو بیس نمبر کے پرچے میں سات نمبر تک فرق پایا گیا۔ لہذا پاکستان میں یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا کہ معروضی پرچہ جات کی مارکنگ بھی معروضی ہوتی ہے۔ مارکنگ کئی ایسے فنی پہلو ہیں جن پر دھیان رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً کیا سب مارکنگ کرنے والے ممتحن یکساں معیار کی مارکنگ کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اسے کیسے کنٹرول کیا جائے۔ مارکنگ کا موجودہ نظام ناقص، غیر منصفانہ اور جانب دارانہ ہے اور یہ دنیا کے کسی خطے میں استعمال نہیں ہوتا۔ لہذا اسے فی الفور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ایسی کمپیوٹرائزڈ مشینیں آ چکی ہیں جو ایک گھنٹے میں دس ہزار پرچے بغیر غلطی کیے مارک کر دیتی ہیں۔

پاکستان میں پرچے کی کوالٹی چیک کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ دوسری طرف امتحان کے عالمی معیارات یہ کہتے ہیں کہ جب تک پرچے کی کوالٹی کی یقین دہانی نہ ہو نتائج کا اعلان نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنا ظلم و نا انصافی ہو گا۔ کمپیوٹرائزڈ مشینیں یہ کام از خود کر دیتی ہیں۔

فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو پرچہ جات پر لگائے نمبر حتمی نہیں ہوسکتے۔ جب تک انہیں ہر لحاظ سے جانچ پڑتال کرکے دیکھ نہ لیا جائے کہ وہ ہر لحاظ سے بچے کی صلاحیت کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ اس کام کے لئے سائنسی طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے۔ اس فارمولے کے ذریعے حقیقی نمبر نکالے جاتے جو طلبہ کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اس فارمولے میں خوبی ہے کہ یہ امتحان کے دوران پیدا ہونے والی نا ہمواریوں (Inequalities) کو دور کر دیتا ہے۔

سفارشات

1۔ امتحانات کی اصلاح کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ جدید اصولوں کے مطابق اسے نئے سرے سے استوار کیا جائے۔ اور انسانی دخل اندازی کو خارج از امکان کر دیا جائے۔

2۔ پرچوں کی کی تحقیق وتشکیل کے لئے ایک الگ آزاد و خود مختار بورڈ بورڈ تشکیل دیا جائے۔ جو ہر مضمون کے الگ الگ آئٹم بینک تیار کرے۔ جو قومی ایس ایل اوز (SLOs)کے مطابق میعاری پرچہ جات تیار کرے۔ ہر پرچہ کے کئی متبادل تیارکیے جائیں تاکہ نقل کو روکا جا سکے۔

3۔ امتحانات میں بد عنوانی روکنے کے لئے ان کے انعقاد کے لئے اساتذہ میں سے بہتر عملہ معقول معاوضے پر تعینات کیا جائے۔ بدعنوانی کرنے والے کا فوری احتساب ہو۔

4۔ مارکنگ کے نظام کو کنڈکٹ سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مارکنگ کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔
5۔ جامعات میں امتحابات کے اعلی تعلیم یافتہ عملہ تیار کرنے کے لئے نئے شعبہ جات قائم کیے جائیں۔

ڈاکٹر عبدالحمید
Latest posts by ڈاکٹر عبدالحمید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر عبدالحمید

ڈاکٹر عبدالحمید، ڈین سکول آف سوشل سائنسز اینڈ ہیو مینیٹیز، یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور۔

dr-abdul-hameed has 1 posts and counting.See all posts by dr-abdul-hameed

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments