بے رنگ دل میں لال خون


                                                                               

صاب میری ماں کہتی ہے کہ میں بڑاخوبصورت ہوں۔ میں نے ماں سے کئی بار کہا ہے کہ ماں میرا رنگ تو کالا ہے۔ میری ماں مسکرا دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ بچپن میں تو میں اس سے زیادہ کالا تھا۔ اب تو میں سانولا ہو گیا ہوں۔ آدمی تھوڑا کالا ہو یا زیادہ کالا ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کالا تو بس کالا ہوتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ رنگوں کے کسی شیڈ کارڈ میں مجھے آج تک سانولا رنگ نظر نہیں آیا۔ رنگ تو بس دو طرح کے ہوتے ہیں۔ آدمی یا کالا ہوتا ہے یا پھر گورا۔

صاب آپ نے سینس (سائنس) پڑھی ہے؟ میں نے بہت سینس پڑھی ہے۔ سینس کہتی ہے کہ رنگ تو موجود ہی نہیں ہیں۔ رنگ دراصل ہماری آنکھ میں روشنی پڑنے کے مختلف زاویوں کا نام ہے۔ روشنی موجوں میں سفر کرتی ہے۔ موج کے مختلف طول جب ہماری آنکھ میں پڑتے ہیں تو ہمارا ادارک رنگ تخلیق کرتا ہے وگرنہ رنگ خود کچھ نہیں ہے۔ یہ تو افسانہ تراشوں نے کالے رنگ کو تحقیر کی نظر سے دیکھا۔ آپ نے سنا ہے ناں کہ دل کالے ہوتے ہیں۔

صاب! دل دیکھنے میں سرخ نظر آتا ہے۔ ہاں یاد آیا۔ سرخ تو یہ ہمیں روشنی میں نظر آتا ہے۔ روشنی کی موجیں جب ہماری آنکھ میں 560 نینو میٹر کی ویو لینتھ سے پڑتی ہے تو ہمارا ادراک سرخ رنگ تخلیق کرتا ہے۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ انسان کے اندر تو روشنی نہیں جاتی۔ جہاں روشنی نہ پہنچ سکے وہاں آنکھ رنگ نہیں دیکھ سکتی۔ یہ سب انسانوں کے دل بے رنگ ہیں۔ نہیں مگر مجھے ایک اور خیال آیا ۔ جہاں روشنی نہیں ہوتی وہاں فوٹان منعکس نہیں ہوتے اور ہمارا ادراک کالا رنگ تخلیق کرتا ہے۔ تو کیا سارے انسانوں کے دل کالے ہوتے ہیں؟

صاب آپ نے مارٹن لوتھر کنگ کی وہ مشہور تقریر سنی ہے جس میں اس نے نسلی تعصب پر مبنی امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ، ’ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم سچائی کی اس معراج پر پہنچے گی کہ انسانی مساوات سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے۔ میرا ایک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے گلے ملیں۔ میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن ایلاباما میں کالے بچے اور بچیاں گورے بچوں اور بچیوں کا ہاتھ پکڑ کر بہن بھائیوں کی طرح زندگی گزاریں گے‘۔ صاب کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ رنگ تو روشنی کے فوٹان کے مختلف زاویوں سے انسانی آنکھ میں پڑنے کی کہانی ہے وگرنہ رنگ تو کچھ بھی نہیں۔ وہ تو بہت پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اسے ضرور معلوم ہو گا۔ یہ تو لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ کالے دراصل کالے نہیں ہیں بلکہ ان کی آنکھ میں روشنی کا زاویہ غلط پڑتا ہے۔

صاب جس طرح رنگوں کے شیڈ کارڈ میں سانولا رنگ نہیں ہوتا اسی طرح گورا رنگ نہیں ہوتا۔ ہاں سفید ہوتا ہے مگر انسان سفید تو نہیں ہوتے۔ انسان یا تو گورے نظر آتے ہیں یا سانولے۔ نہیں نہیں! سانولے نہیں ہوتے۔ سانولا تو کوئی رنگ ہی نہیں ہے۔ وہ تو میری ماں میرا دل رکھنے کی خاطر مجھے سانولا کہتی ہے۔ میں تو کالا ہوں۔ پر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ گورا کالے سے اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ گورا، کالے سے برتر کیونکر ہو سکتا ہے؟

صاب میں یہ سامنے کھڑا ٹرک چلاتا ہوں۔ اس سے پہلے میں رنگ کا کام کرتا تھا۔ صاب آپ کالے رنگ میں جس رنگ کو ملائیں گے وہ کالا ہو جائے گا۔ میں نے بہت بار گہرے کالے رنگ میں چٹے سفید رنگ کے بہت سارے قطرے ملائے۔ اس کا رنگ کالا ہی رہا۔ آپ چٹے سفید رنگ میں دو قطرے کالے رنگ کے ملا دیں تو اس کا رنگ سرمئی ہو جاتا ہے۔ صاب پھر یہ چٹا، کالے سے برتر کیسے ہو گیا؟

صاب میں کیا سوچتا ہوں! اگر میں واقعی کالا ہوتا۔ مطلب کالا تو میں ہوں لیکن اگر میں سچ مچ کالا رنگ ہوتا تو پتہ ہے میں کیا کرتا؟ میں تمام رنگوں کا اجلاس بلاتا۔ اوہو! جب میں کالا ہوتا تو سارے رنگ میرے ماتحت ہوتے ناں۔ ۔ میں مانتا ہوں کہ رنگ دراصل کچھ نہیں ہوتے۔ مگر میں ان کے سامنے انسانوں کی طرح کچھ افسانوی حقائق تخلیق کر لیتا کہ میں تم لوگوں کا ان داتا ہوں۔ تم لوگوں کو سب بڑا خطرہ روشنی سے ہے۔ میں تم میں واحد وہ رنگ ہوں جو روشنی کے زیادہ سے زیادہ فوٹان جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صاب ! میرا تجربہ کہتا ہے کہ وہ مان جاتے۔ انسان بھی تو دیکھو کیسے کیسے افسانوی تخلیق کردہ حقائق کا اسیر ہے۔ میں ان کو کہتا کہ انسانوں نے ہماری قوم کے ساتھ ازل سے نسل پرستانہ رویہ رکھا ہے۔ ہم انسانوں کے ساتھ مذاکرات تو نہیں کر سکتے مگر ہمیں ان سے اپنا حق تو لینا ہے۔ تم سارے مجھ میں جذب ہو جاﺅ۔

صاب وہ سارے جب مجھ میں جذب ہو جائیں گے تو پتہ ہے کیا ہو گا؟ صاب دنیا میں اندھیرا چھا جائے گا۔ گورے کالے کی تمیز ختم ہو جائے گی۔ ہاہاہا۔ ۔ صاب سوچو! اگر رنگ نہ ہو تو انسان کیا کریں گے؟ انسان ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکیں گے۔ صاب کسی ملک کا جھنڈا نہیں ہو گا۔ ہاہاہا۔ ۔ کسی ملک کی سرحد نظر نہیں آئے گی۔ ہاہاہا۔ ۔ انسان ایک دوسرے سے لڑ نہیں سکیں گے۔ ہاہاہا۔ ۔ خون کا رنگ بھی کالا ہو جائے گا۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ کالا خون، بولنے میں بھی کتنا عجیب لگتا ہے ناں؟ صاب انسانوں کی دنیا سے صرف افسانوی تخلیق کردہ حقائق ہی ختم نہیں ہوں بلکہ معروضی حقائق بھی ختم ہو جائیں گے۔ دنیا ختم ہو جائے گی۔

صاب مگر پھر تو میرا بیٹا بھی ختم ہو جائے گا۔ میرا بیٹا ابھی ایک سال کا ہے۔ آپ کو معلوم ہے جب وہ ہنستا ہے تو میری رگوں میں شہد جیسی مٹھاس بھر آتی ہے۔ میں نے ماں کو بھی بتایا تھا۔ ماں کہتی ہے جب تو ہنستا ہے تو میری رگوں میں شہد دوڑتا ہے۔ ماں کہتی ہے اسے محبت کہتے ہیں۔

صاب میری ماں اندھی ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ رنگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ تو بس میرا دل رکھنے کو مجھے سانولا کہتی ہے۔ مجھے اپنی ماں سے بہت محبت ہے۔ مجھے میرا بیٹا بہت پیارا ہے۔ مجھے پرندے بھی بہت اچھے لگتے ہیں۔ مجھے دریا کا شور بہت پسند ہے۔ مجھے جنوری کی دھوپ کی اچھی لگتی ہے۔ صاب مجھے قہقہے سے پیار ہے۔ آپ نے غور کیا ہے کہ انسان ہنستے ہوئے کتنے اچھے لگتے ہیں؟ انسانوں کو ہنستے رہنا چاہیے۔ رونے میں بہت تکلیف ہے۔ ایک بار میری ماں روئی تھی۔ اس کی اندھی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ آنسو دیکھ کر میرے بھی بہت آنسو نکلے تھے۔ بہت درد محسوس ہوا تھا۔ دنیا میں درد نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں اندھیرا نہیں ہونا چاہیے۔ میں اندھیرا ہونے نہیں دوں گا۔ صاب رنگوں کا اجلاس کینسل۔ ماں قسم بالکل کینسل۔

صاب مگر میرا بیٹا بھی کالا ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوںکہ کیا میری طرح اس کا رشتہ بھی پچاس گھروں سے رد ہو گا؟ یہ انسانوں کو سمجھ کیوں نہیں آتا کہ رنگ کچھ نہیں ہوتے یہ تو بس روشنی کے زاویوں کا کھیل ہے۔ سمجھ جائیں گے۔ ایک نہ ایک دن تو سمجھ جائیں گے۔ دیکھو نا صاب مارٹن لوتھر کنگ کے خواب پر پچاس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ امریکہ میں ایک کالا آدمی صدر بن گیا۔ ٹھیک ہے ہمارے ہاں نہیں سمجھے ہیں مگر میرے پاس ایک اور گر بھی ہے۔ صاب مجھے ہنسنا آتا ہے۔ یہ سارے ڈرائیور مجھے ہنسوڑ کہتے ہیں۔ یہ سارے مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میں اپنے بیٹے کو ہنسوڑ بناﺅں گا۔

 مگر صاب ایک مشکل اور بھی تو ہے۔ یہ جو انسان عقائد، اقوام، وطن، قوم پرستی اور حب الوطنی جیسے موضوعی حقائق کی بنیاد پر ایک دوسرے کو مارتے ہیں ان سے میرا بیٹا کیسے بچے گا؟ نہیں صاب انسانوں کو سمجھنا ہو گا کہ جس طرح کالے یا گورے رنگ میں کوئی اعلی یا ادنی نہیں ہے نہیں ہوتا اسی طرح خون میں بھی اعلی ادنی نہیں ہوتا۔ سینس کی نظر سے دیکھیں تو خون بے رنگ ہوتا ہے۔ انسان کی نظر سے دیکھیں تو خون سب کا لال ہوتا ہے۔ اپنے بیٹے سے ہر ماں پیار کرتی ہے۔ کوئی ماں بیٹا اس لئے نہیں جنتی کہ کوئی دوسرا انسان اسے اپنے سوارت کے لئے مار دے۔ صاب آپ سمجھاﺅ ان انسانوں کہ ہنسوڑ ہنستا رہتا ہے۔ اسے دنیا میں ہنسی پھیلانی ہے۔ وہ ماﺅں، بیٹوں کے چہرے پر ہنسی دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ کسی کا برا نہیں چاہتا۔ اگر وہ نا سمجھے نا صاب! تو میں ایک دن سچ مچ رنگوں کا اجلاس بلا لوں گا۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah