عرب ممالک میں جنس کے موضوع پر مبنی ادب میں اضافہ


جب بھی جنسی ادب کے بارے میں بات ہوتی ہے تو ذہن میں کچھ خاص نام ابھرتے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر دنیا کی سب سے پہلی کتاب ہندوستان میں لکھی گئی، یعنی کاماسوترا۔ اس کتاب کے تراجم دنیا بھر کی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور اس کی دیکھا دیکھی سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بھی ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں جو کاماسوترا کو آئینہ دکھاتی ہیں۔ عرب ممالک میں جنسی ادب؟ چونک گئے نا آپ، جنسی کتابیں اور عرب ممالک میں؟ بات بالکل حیرانی کی ہے۔ مگر ہے مکمل طور پر سچ۔ کاما سوترا کا ترجمہ کرنے والے سر رچرڈ فرانسس برٹن ہی نے عربی کی ایک کتاب کا ترجمہ کیا تھا۔ اس کتاب کا نام تھا دا پرفیومڈ گارڈن (معطر باغ)۔

اس کتاب کو 15ویں صدی میں عرب ملک تیونس کے شیخ نفزاوی نے لکھا تھا۔ اس کتاب میں ہر قسم کے جنسی تعلقات کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ ‘دی پرفيومڈ گارڈن’ میں جنسی رشتوں کے خالص انداز میں لطف اندوز ہونے پر بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں کہانیوں کے ذریعہ جنسی تعلقات کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ یہ کہانیاں اسی انداز میں لکھی گئی ہیں جس انداز میں الف لیلہ لکھی گئی ہے، جو تفریح سے بھرپور ہے۔ معطر باغ میں ہم جنس پرستی پر بھی خوب کھل کر بحث کی گئی ہے۔ برٹن نے اپنے ترجمے میں 21 ابواب صرف انہی موضوعات پر لکھے ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ برٹن اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی لکھنے والے تھے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ان کی موت ہو گئی۔ بعد میں ان کے بہت سے کام کو ان کی بیوی ازابیل نے آگ لگا دی۔

عربی ادب کی ماہر سارہ اروگ کا کہنا ہے کہ آج بھلے ہی عرب ممالک میں جنس کے ذکر تک پر اجتناب برتا جاتا ہو مگر ایک زمانہ تھا جب عرب ممالک میں جنسی موضوعات پر کتابیں عام تھیں۔ اس وقت خیال تھا کہ یہ کتابیں انسان کو ضروری تربیت دیتی ہیں۔

لیکن آج عرب ممالک میں جنسی ایک بڑا ہوّا بنا ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ جنس نہیں کرتے یا انھیں جنس کی خواہش نہیں ہوتی۔ لیکن وہ اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کے لیے اس موضوع پر بات کرنا کسی تیسری دنیا کی بات کرنے جیسا ہے۔

ایسے میں ‘معطر باغ’ جیسی کتابوں کو شیطانی کتاب کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں جنسی ایک ہوّا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں جنس کے لیے انتہائی دیوانگی ہے۔ لوگ بھلے ہی اس موضوع پر بات کرنے سے كترائیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں عربی لوگ جسمانی رشتوں کے لیے بھرپور خواہش رکھتے رہے ہیں۔

برٹن نے عربی ادب کا انگریزی زبان میں خوب ترجمہ کیا ہے۔ جس میں ‘الف لیلہ’ کی کہانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کہانیاں فارسی زبان میں ‘ہزار داستان’ کے نام سے بھی لکھی گئی ہیں۔ لیکن ان تمام کہانیوں کا اصل میں اہم مسئلہ جنسی ہی ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر ہزار افسانے میں ایک کہانی شہزادہ شہریار ہے۔ ایک دن شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی نے اس سے بےوفائی کی ہے، لہٰذا وہ اسے قتل کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ ہر روز ایک کنواری لڑکی کے ساتھ رات گزارتا ہے اور صبح ہونے سے پہلے اسے قتل کر دیتا ہے۔ ایک دن جب اس کے وزیر کی بیٹی شہرزاد کو اس کی دلہن بنایا گیا تو اس نے راجکمار کو پوری رات ایک کے بعد ایک کہانیاں سنا کر الجھائے رکھا۔

شہزادی کی کہانیاں شہریار کو اتنی اچھی لگیں کہ وہ ہر رات اس سے ایک کہانی سننے لگا۔ یہ سلسلہ ایک ہزار راتوں تک چلا اور آخر کار شہزادی نے شہریار کو اپنے شوہر کے طور پر جیت لیا۔ شہرزاد کی کہانیوں کا مجموعہ شہزادے کی ایک ہزار راتوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بھارت میں لکھی گئی کاما سوترا میں اس رشتے میں عورت کو برابر کا شریک مانا گیا ہے۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ کاما سوترا قدیم ہو کر بھی جدید ہے۔ عرب ممالک میں بھلے ہی آج بھی جنس کے موضوع پر بات کرنا مشکل ہوتا ہو لیکن نئی نسل اس دیوار کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایک بار پھر عرب ممالک میں جنس پر مبنی ادب لکھا جانے لگا ہے۔ جیسے 2001 میں عمار عبد حامد نے ‘مینسٹروئیشن’ نامی کتاب لکھی تھی، جس میں ایک امام کے بیٹے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس لڑکے کو ایک شادی شدہ عورت سے عشق ہو جاتا ہے۔ وہ اس عورت کے ساتھ جنسی رشتہ بنا لیتا ہے۔

حال ہی میں عربی خواتین نے بھی اس طرح کا ادب لکھنا شروع کر دیا ہے۔ 2005 میں نظمیٰ کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی تھی جسے ایک خاتون نے لکھا تھا۔ عرب تاریخ میں جنس کے موضوع پر کسی خاتون کے ہاتھ سے لکھے جانے والی یہ پہلی کتاب تھی۔ اس کے بعد اور بہت سی کتابیں سامنے آئیں۔

مراکش کے محمد شکری نے تو اپنی کتاب میں طوائف اور جنسی بیماریوں تک کا ذکر کیا ہے۔ شام کی دانشور اور مصنفہ سلوا نيمی کے مطابق اس بات پر کوئی حیرانی نہیں ہونا چاہیے کہ عرب ممالک میں جنسی تعلقات پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ عربی معاشرے میں جنس کو سب سے زیادہ لطف کی چیز مانا گیا ہے۔

ان کے مطابق عربوں کی زندگی پر مذہب کا گہرا اثر ہے۔ مذہب ہی بتاتا ہے کہ معاشرے میں ایک لڑکی اور لڑکے کا رشتہ کیسا ہو۔ تنہائی میں انھیں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔

اگرچہ بہت سے یورپی فنکاروں اور مصنفین کی طرف سے جنس کے معاملے میں عرب ممالک کو عیاش کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ان کے مطابق عرب ممالک میں جنس کو زناکاری سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عرب ممالک میں جنسی تعلقات پر جتنے پرانے ادب ہیں، ان تمام میں اسے زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے پر زور دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp