سعودی شہزادوں کی تعداد کیا ہے؟


جو لوگ سعودی عرب کو جاننے کا دعوی کرتے ہیں وہ بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہاں کتنے شہزادے ہیں۔

سعودی عرب کے معاملات پر نظر رکھنے والے احمد ذکی نے بتایا کہ ‘تعداد پر اختلاف ہے۔ لیکن یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ شہزادوں کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے اور جہاں تک شہزادیوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں اور بھی کم معلومات ہیں۔’

احمد ذکی کا کہنا ہے کہ ‘دنیا میں کہیں بھی اتنے سارے شاہزادے نہیں ہیں۔’

یہ سارے سعودی عرب کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سنہ 1932 میں سعودی سلطنت قائم کرنے والے عبدالعزیز بن سعود کی آل اولاد ہیں۔

عبدالعزیز کی وفات کے وقت تک سعودی عرب خلیج سے بحر احمر تک اور عراق سے یمن تک پھیل چکا تھا۔

احمد ذکی نے سعودی عرب پر کئی قسم کی تحقیق کر رکھی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ‘آل سعود پیدا ہوتے ہی شہزادہ کہلاتا ہے اور اسے تخت حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے۔’

عبدالعزیز بن سعود کی مختلف قبائل میں کئی شادیاں تھیں اور ان سے کئي درجن اولاد ہوئیں۔

واضح طور پر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ان کی کتنی بیویاں تھیں لیکن کچھ مطالعے میں یہ کہا گیا ہے کہ عبدالعزیز بن سعود نے 20 سے زائد خواتین سے شادی کی تھی۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز

لندن سکول آف اكونومكس میں خلیجی ممالک کی پالیسیوں پر تحقیق کرنے والے کرٹنی فریر کہتے ہیں: ‘شہزادوں کی اس لمبی چوڑی فوج کا سب سے بڑا اثر سعودی کے اقتدار پر ہوتا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نہ کچھ اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔’

پہلے لیک ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 1990 کی دہائی میں شاہی خاندان کے ارکان کا سالانہ خرچ تقریبا 200 کروڑ ڈالر تھا۔

سنہ 1996 میں روئٹرز میں شائع ایک مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ ‘آل سعود کی نسل میں جو سب سے کم درجے پر ہیں انھیں بھی ہر ماہ رقم ملتی ہے۔

احمد ذکی کے مطابق: ابھی کی بات کریں تو وہ شہزادے جو براہ راست عبدالعزیز بن سعود کے بیٹے اور بھتیجے ہیں یا پوتے ہیں انھیں بھی ہر ماہ دس ہزار ڈالر دیے جاتے ہیں۔

ذکی کہتے ہیں: ‘اگر یہ شہزاد بن سعود کی اولاد میں پہلی نسل میں آتے ہیں تو انھیں رقم دینے کا طریقہ مختلف ہے۔ ان تیل کے بیرل دیے جاتے ہیں جنھیں فروخت کر کے وہ رقم حاصل کرتے ہیں۔

‘اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں شہزادوں کے باوجود سعودی عرب سیاست میں بہت ہنگامہ نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے شہزادوں کی خواہشوں کو مختلف اداروں میں اہم منصب دے کر پورا کر دیا جاتا ہے۔’

گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران وزارت داخلہ، دفاع اور خزانہ پر آل سعود کے اہم شہزادوں کی عملداری رہی ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے مختلف شعبوں اور نیشنل گارڈز جیسے اداروں کی ذمہ داری بھی کسی شہزادے کو ہی دی گئی ہے۔

اختیار کی اس تقسیم سے حکومت میں استحکام برقرار رکھا گیا ہے۔

کرٹنی فریر کہتے ہیں: ‘اس سے فیصلہ سازی اور نفاذ کے عمل میں وقت لگتا ہے کیونکہ اس عمل میں شاہی خاندان کے کئی لوگ شامل ہوتے ہیں۔’

اتنے بڑے شاہی خاندان کی موجودگی کے سبب حکومت کے کام کاج میں دقت بھی آ سکتی ہے۔

فریر کہتے کہ اتنے زیادہ جانشین کی موجودگی میں کئی شہزادے تخت کے خواہش مند بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں موجودہ بادشاہ اور حکومت کے استحکام کو بھی خطر ہو سکتا ہے۔

ابھی سلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کے شاہ ہیں جبکہ ان کے اکثر بھائی وفات پا چکے ہیں۔ اور یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سلمان اب اگلی نسل کو اقتدار سونپ سکتے ہیں۔

اس تقرری کے کچھ عرصے بعد ہی بیمار شاہ سلمان نے اپنے حوصلہ مند بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کیا۔ دو سالوں میں صورت حال کچھ ایسی تبدیل ہوئی کہ سلمان نے اپنے بھتیجے کی جگہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کر دیا اور تخت نشینی کی روایت ٹوٹ گئی۔

پھر سات نومبر کی رات ریاض میں تین واقعات رونما ہوئے جس نے سعودی عرب کو بدل دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں واقعات کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نظر نہیں آتا۔

سب سے پہلے، ریاض سے سعد الحریری کا چونکانے والا اعلان آیا کہ وہ لبنان کے وزیر اعظم کے عہدے سے دست بردار ہو رہے ہیں۔

دوسرا حریری کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد یہ پتہ چلا تھا کہ یمن کے باغیوں کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل داغا گیا جسے ریاض کے کنگ خالد انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے پہلے ہی تبار کر دیا گيا۔

اور پھر نصف رات کو تیسرا سیاسی دھماکہ اس وقت ہوا جب درجنوں شاہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو یا تو گرفتار کر لیا گیا یا انھیں معذول کر دیا گیا۔

32 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کا یہ نئے سعودی عرب میں حکومت پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ تھا۔

احمد ذکی کا کہنا ہے کہ ‘جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پہلے نہیں دیکھا گیا۔ پہلے حکومت سات یا آٹھ بھائیوں کے درمیان مشترک رہتی تھی لیکن اب اقتدار ایک شخص کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حالات بہت غیر مستحکم ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp