کیا اس نئے پاکستان میں مشال کو انصاف مل سکتا ہے؟


میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے اسی کمپس کے باہر کھڑے ایک لڑکے کو دیکھ رہی تھی جہاں مشال خان کا خون ناحق لبیک کے نعروں میں بہایا گیا۔ یہ لڑکا بالکل مشال کی طرح کی ڈیل ڈول رکھتا خود کو مردان کی یخ بستہ ٹھنڈ سے بچانے کے لئے سویٹر کے اوپر اپنی شال کو لپیٹ رہا تھا مگر بار بار ناکام ہوتا۔ اسے دیکھتے دیکھتے اچانک ایسا محسوس ہوا کہ یونیورسٹی کی دیوار کے اندر 2016 کا دسمبر ہے اور مشال خان بھی اپنا جسم گرم شال میں لپیٹ رہا ہے۔ کیا اسے ایک پل کے لئے بھی اس خطرناک ٹھنڈ میں یہ احساس ہوا ہو گا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری دسمبر پے؟ یونیورسٹی تو ہنسنے، قہقہے لگانے اور یادیں بنانے کی جگہ ہوتی ہے مگر اس کے لئے تو مقتل گاہ ہی بن گئی۔ وہ بھی ایک الزام، ایک نعرہ، ایک افواہ پر ساری درسگاہ اسے قتل کرنے دوڑی۔ یہاں اکثر دیواروں یا گاڑیوں پہ لکھا ہوتا ہے ’باچہ خانی پکار دہ‘ (باچہ خانی چاہیے) یا عمران خانی پکار دہ (عمران خانی چاہیے) جبکہ مجھے لگتا ہے کہ عبدالولی خان یونیورسٹی کی داخلی دیوار پہ بڑا بڑا لکھا ہوا نظر آنا چاہیے کہ ”انصاف پکار دہ“ (انصاف چاہیے)۔

میرے بلاگ کے عنوان کا سیاسی نعرے والے نئے پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں نئے پاکستان سے مراد وہ پاکستان ہے جس کی بنیاد فیض آباد میں رکھی گئی۔ ایک ایسا پاکستان جہاں جنونیت، انتہاپسندی اور شک ہے۔ شک بھی بارے ایمان کے کہ جس کی جانچ کا کوئی پیمانہ انسان کے پاس نہیں۔ گالم گلوچ بریگیڈ کی فتح پاکستان کو کتنا پیچھے لے گئی یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا مگر اس نئے پاکستان میں سوال کی جرات نہیں۔ جو سوال کرے گا وہ گستاخ ہو گا، جو جواب تجویز کرے گا وہ گستاخ ہو گا۔ جیسا کہ شیخ رشید فرما چکے ہیں کہ اگلا الیکشن گستاخ رسول (ص) اور عاشقان رسول (ص) کے درمیان ہوگا۔ یہ تو چلیں سمجھ آگیا مگر یہ بھی کوئی سمجھا دے کہ اگر شک کی ہی بنیاد پہ ایمان کے فیصلے ہوں گے تو پھر تو بچے گا کوئی نہیں۔

ملک بھر میں لگے بینر کہ ”مسئلہ ختم نبوت سمجھنے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے“ تو میرا ذاتی خیال ہے کہ اس بار کاغذات نامزدگی میں ڈی این اے اور والدہ کا کریکٹر سرٹیفیکیٹ بھی ڈالا جائے گا۔ تمام چینلز پہ خادم رضوی اور اشرف جلالی کے مابیں تکرار تو دکھا دی مگر کسی نے ان دو پولیس والوں کا انٹرویو نہ لیا جنہیں تحریک کے کارکنان نے اغوا کیا اور رات بھر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے ہی والے تھے کہ معاہدے کی خبر آ گئی۔ ”پولیس والے جلانے سے ختم نبوت کا کونسا تحفظ ہوتا؟ “ کسی نے یہ معصومانہ سوال کیوں نہیں پوچھا خادم رضوی صاحب سے۔

خیر یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں فتوی لگانے اور توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کی آزادی ہے۔ فقط چار جھنڈے اور ایک لاوڈ اسپیکر کی ضرورت ہے باقی آپ سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کرے گا کیونکہ یہاں سوال اٹھانا گستاخی ہے۔ اسی پاکستان میں بوڑھا اقبال خان پشاور، مردان، صوابی، ہری پور کے بیچ فاصلے طے کرتا پے۔ وہ اپنے بیٹے کے لئے انصاف مانگتا ہے۔ کیا کوئی جج اسے انصاف دے پائے گا؟ کیا کوئی جج ان ملزمان کو سزائے موت دے سکے گا جن کے جنون کی نظر ایک طالبعلم صرف شک کی بنیاد پہ مار دیا گیا۔ میں کچھ زیادہ خوش گمان نہیں ہوں کیونکہ جج صاحب کو بھی اسی پاکستان میں رہنا ہے جہاں اقبال خان نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کے ساتھ رہنا ہے۔

ایک بار اسلام آباد ایئرپورٹ پہ ایک ہزارہ برادری کا نوجوان جوڑا دیکھا۔ ان کی بیٹی پاس ہی کھیل رہی تھی۔ وہ اپنی زبان میں ہی بات کرتے تھے۔ اچانک بچی پھسل کر فرش پہ جا گری تو باپ نے اسے تسلی دینے کے لئے کچھ بڑبڑاتے ہوئے فرش پہ دو تیں بار پیر دھپ دھپ کیا۔ بچی ہنسنے لگی۔ مجھے زبان سمجھ نہ آئی مگر بالکل ایسے ہی میرے والد کرتے تھے۔ ایسے ہی ہم اپنی اولاد کے لئے کرینگے کیونکہ والدین کی زبان کوئی بھی ہو سب کامقصد ایک ہی پوتا ہے کہ اپنے بچے کی تکلیف کو دور کریں۔ کیا اقبال خان بھی صرف فرش پر ہی دھپ کر کے مشال کے ہنسنے کی امید رکھے گا؟ کیا ریاست کبھی اتنی مضبوط ہو پائے گی کہ جنون سے ٹکر لے پائے؟

ایک تصویر ہے جس میں میاں افتخار حسین اپنے اکلوتے بیٹے کی قبر کے سامنے بیٹھے ہیں۔ ایک تصویر ہے جس میں مشال کے والد اپنے جوان بیٹے کی قبر کو سلام کرتے ہیں۔ ایک طرف ہے کوٹ رادھا کشن کے سوختہ راکھ پوئے دو مسیحی، ایک طرف ہیں سیالکوٹ میں ادھڑی ہوئی مغیث منیب کی لاشیں اور ایک جھلک ہے ہمارے انصاف انصاف کا نعرہ لگاتے تمام چہروں پہ لعنت دیتا شاہزیب قتل کیس جس کا باپ یہ کہتا ملک چھوڑ گیا کہ بیٹا کھو بیٹھا اب بیٹیوں کو بچا رہا ہوں۔
مگر اب یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں انصاف مانگنا بھی کب گستاخی قرار پائے کچھ خبر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).