الطاف حسن قریشی نے جنرل ضیاالحق  کا پرجوش خیرمقدم کیا


اس سلسلے کی گزشتہ تحریر میں ہم نے بتایا تھا کہ جب فوج کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان بن بیٹھے تو نامور صحافی الطاف حسن قریشی نے قوم کو کن الفاظ میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان پر اعتماد کرنے کی ترغیب دی۔ ہم نے “اردو ڈائجسٹ” کے شمارہ بابت مئی 69 میں شائع ہونے والا الطاف حسن قریشی کا مضمون “آئین بہاراں کیا ہو گا” لفظ بلفظ نقل کر دیا تھا۔ خود سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان، امریکا اور دوسرے مقامات پر مقیم کچھ معزز اور پارسا حضرات کو ہماری یہ کاوش سخت گراں گزری۔ وہ ای میل وغیرہ پر ایک دوسرے کو بتاتے رہے کہ محترم الطاف حسن قریشی نے تو سخت حالات میں قوم کا حوصلہ بندھانے کے لئے امید افزا کلمات تحریر کئے تھے۔ ہم نے یہ پرانی تحریر نکال کر کینہ پروری کی ہے اور عناد کا مظاہرہ کیا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ قدامت پسند ٹولہ ایک طویل عرصے سے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر منظر پر آنے والے ہر ڈان کیخوٹے کو بانس پر چڑھاتا ہے۔ ان عناصر کی دلی خواہش ہے کہ سیاست، سماج اور معیشت کا بندوبست ان کی اس تشریح کے تابع ہو جائے جو یہ مذہب کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ تقدیس کے نام پر مذہب کے فکری اور اجتماعی منصب کو دراصل وہاں لے جانا چاہتے ہیں جہاں تمام مکالمہ ختم ہو جائے۔ اور مذہب کے نام پر جو کچھ ان حضرات کے مفاد میں ہو، اسے قبول کر لیا جائے۔ مذہب کی اس غیر حقیقی تشریح کے لئے انہیں ہر اس طالع آزما کی ضرورت پیش آتی ہے جو معاشرے میں مذہب کا سوانگ رچانے کا ارادہ ظاہر کرے۔ نہایت دلچسپ بات ہے کہ یہ لوگ بیک وقت ابوالکلام آزاد، اشرف علی تھانوی، عطا اللہ شاہ بخاری، سید ابوالاعلیٰ مودودی، عنایت اللہ مشرقی، غلام احمد پرویز، غلام جیلانی برق، ڈاکٹر اسرار احمد، شبیر احمد عثمانی اور طاہرالقادری وغیرہ کے خیالات کو یکساں طور پر مذہبی قرار دیتے ہیں۔ ان زعما کے خیالات میں تضاد اور اختلاف کو اپنا داخلی معاملہ بتاتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی، ظفر علی خان، حمید نظامی، مجیب الرحمن شامی، ہارون رشید، اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت حسین جیسے صحافیوں سے کوئی اختلاف کرے تو اسے مذہب دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دراصل یہ سب عناصر مذہب کو استحصال کا آلہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کوئی سایست میں مذہب داخل کرے تو یہ خوش، کوئی اپنی صحافت پر مذہب کا چونا کتھا لگائے تو یہ نہال۔ ان عناصر کے بارے میں استاد غالب نے کہا تھا

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

یہ لوگ مذہب کے نام پر مذہبی جذبات کا کاروبار کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر مذہب کا استحصال کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ انسانوں کا علم، معاشرت اور سیاست ان سے پوچھ کر نہیں آگے نہیں بڑھتے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی تاریخ تاریک سے تاریک تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان کی معیشت بدحالی کا شکار رہتی ہے۔ ان کا سماج تفرقے کی لپیٹ میں رہتا ہے۔ ان کی سیاست طاقتور کے اعلان کی منتظر رہتی ہے کہ آج اتنے افراد کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سے اتنے افراد نے تعاون پر آمادگی ظاہر کر دی، باقی کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اس بےبصری کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا، جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟

5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے اقتدار سنبھالا تو ایک مرتبہ پھر الطاف حسن قریشی صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اسے ایک جابر حکومت سے نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ جنرل ضیا الحق صاحب کی خوب تعریفیں کیں۔ ان کے اسلام پسند سپاہی ہونے کا تذکرہ کیا۔ جناب الطاف قریشی صاحب نے ستمبر 1977 میں جناب ضیا الحق کا ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں جو تاثرات انہوں نے فوجی آمر کے بارے میں “اردو ڈائجسٹ” میں درج کیے وہ کچھ یوں تھے؛

“جنرل محمد ضیا الحق کی باتوں میں اخلاص کا رنگ خاصا گہرا تھا۔ ان کی سادہ اور سلجھی سلجھی گفتگو ظاہر کرتی تھیی کہ ذہن بالکل صاف اور منزل تک پہنچنے والے راستے پوری طرح روشن ہیں۔ باطن کی صفائی جھلکتی تھی۔ ایک شریف انسان کا امیج ازخود ابھرا تھا۔ ان کے مزاج میں بلا کا انکسار۔ ایک ایسا انکسار جو کم ہی حقیقی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب جنرل محمد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل ہیڈکوارٹرز میں پہلی پریس کانفرنس کی تھی تو ٹی وی کیمروں پر بری طرح برسے تھے اور کہا تھا کہ وہ میری پرامن زندگی کو تہہ و بالا کر دینا چاہتے ہیں۔ مجھے پبلسٹی کا ذرا بھی شوق نہیں مگر چند ہی روز بعد اخبارات میں بڑی بڑی تصویریں شائع ہونے لگیں۔ اور پھر نگاہ ہوسناک ہو گئی۔ وہ انکسار دکھاوے کا تھا لیکن جنرل ضیا الحق سچ مچ کے منکسر المزاج انسان ثابت ہوئے۔”

۔۔۔۔جنرل ضیا الحق کا چہرہ آئینے کی مانند پرسکون رہا اور پھر گہرے سمندر سے ایک تند و تیز لہر اٹھی۔

۔۔۔۔جنرل ضیا الحق درد کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔

جنرل ضیا الحق کی باتیں انتقام کی آلائش سے پاک تھیں۔ وہ ایک منجھے ہوئے منتظم کی طرح حقیقت پسندی سے کام لے رہے تھے۔ کسی کی ذات سے دشمنی ان کے لہجے میں نہ تھی۔ خالص انسانی جذبہ ہر پہلو پر حاوی تھا۔

رات کا پچھلا پہر آغوش کھولے ہمارے خیر مقدم کو بڑھا۔ جنرل ضیا الحق کی سادہ سی شخصیت میں ایک انجانی کشش تھی۔ جی چاہتا تھا ان سے باتیں ہی کرتے رہیں۔ تصنع نہ تحکم۔ خوب صورت انگریزی بولتے ہیں اور شفاف اردو لہجے میں دہلی کا رنگ نمایاں۔ عربی زبان سے بھی اچھی آگاہی۔ قدیم اور جدید تہذیب کا خوبصورت امتزاج۔ انکسار اور حلم ان کی سب سے بڑی خصوصیت ۔۔۔۔۔ قدوقامت درمیانہ مگر شرافت و نجابت کا شعور بہت گہرا۔ جسمانی قوت سے زیادہ اخلاقی طاقت پر ایمان رکھتے ہیں۔”

“ان کے اندر علم کا غرور ہے نہ قابلیت کا زعم۔ پہلی بار دیکھیے تو متاثر نہیں کرتے مگر بات کیجیے تو دریچہ دل خود ہی کھول دیتے ہیں۔”

“اس مژدہ جاں فزا کے ساتھ محفل شب ختم ہوئی اور طلوع سحر میں کچھ زیادہ وقت حائل نہ رہا تھا۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).