جمہوریت میں عدلیہ کا کردار اور ججوں کی غیر جانبداری


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا ہے کہ حکومت جب آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے گی تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑے گی۔ سندھ میں ناقص پانی کی فراہمی اور کمیابی کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کو طلب کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالت سرکاری افسروں کی بجائے سیاسی قیادت سے جواب طلب کرے گی۔ اسی حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک جمہوری نظام میں عدلیہ کو نگران کی حیثیت حاصل ہے اور ریاست کا کوئی ستون کام نہیں کرے گا تو عدلیہ اس کا احتساب کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ عدلیہ کسی تعصب کے بغیر صرف میرٹ پر معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس لئے جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو اس کی توصیف بھی کی جاتی ہے۔ یہ ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس عدلیہ کے لئے ایک ایسا کردار متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو شاید عدالتوں کے آئینی دائرہ کار سے متجاوز ہو اور اس رویہ کو سختی سے اختیار کرنے کی صورت میں نظام حکومت ناکام ہو کر رہ جائے۔ اگر جسٹس ثاقب نثار کی اس بات پر غور کیا جائے کہ عدلیہ اچھے کام کی توصیف اور کمزوریوں کا احتساب کرے گی تو یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا آئین کی کس شق کے تحت عدالتوں کے دائرہ اختیار کا حصہ ہو سکتا ہے۔ ایک شہری کے طور پر کوئی جج ضرور حکومتی اقدام کی توصیف یا تنقید کر سکتا ہے لیکن بطور جج اسے صرف کسی قانون شکنی کی صورت میں مداخلت کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے۔

اصولی طور پر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہو سکتی کہ عدالتیں حکومتوں کے اچھے کاموں کی توصیف کرتی ہیں اور برے کاموں کے احتساب کی ذمہ داری لینے کےلئے بے چین ہیں۔ بہتر ہوتا اگر چیف جسٹس یہ وضاحت کرتے کہ عدالتیں صرف قانون شکنی کی صورت میں مداخلت کریں گی۔ وہ غیر ضروری طور پر امور مملکت میں مداخلت کر کے اپنا، حکومت اور سائلین کا وقت برباد کرنے سے باز رہیں گی۔ لیکن جب چیف جسٹس عدلیہ کے ججوں کو منصف اور قانون کے نگہبان سے بڑھ کر ملک کے سیاسی انتظام میں نگہبان کا کردار تفویض کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے آسانیوں کی بجائے پیچیدگیاں اور مشکلات پیدا ہوں گی۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو سوموٹو یا ازخود نوٹس کے ذریعے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات پر غور کرنے اور فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم گزشتہ چند برس کے دوران مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس اختیار کو شہرت حاصل کرنے اور رائے عامہ متاثر کرنے کےلئے استعمال کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کےلئے یہ ثابت کرنا آسان نہیں ہوگا کہ پاناما کیس کو کون سے بنیادی حقوق متاثر ہونے پر سوموٹو کے تحت سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے  لایا گیا تھا۔ پھر اس مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے کوئی نتیجہ تو اخذ نہیں کیا جا سکا لیکن ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا۔ اس فیصلہ کے بارے میں سیاسی لحاظ سے ہی نہیں، قانونی حلقوں میں بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس فیصلہ کے خلاف متاثرین کو اپیل کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ عدالت تو فیصلہ سنانے کے بعد عدل کا پرچم لہراتے ہوئے ایک طرف ہو گئی لیکن اس ایک فیصلہ کی مالی، سیاسی اور انتظامی قیمت قوم کو آنے والے کئی برسوں میں ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں جمہوری روایت استوار کرنے کی کوششوں کو جو نقصان پہنچے گا، وہ اس کے علاوہ ہے۔ تاہم عدالت کے ججوں کی اس حوالے سے جوابدہی نہیں کی جا سکتی۔

حال ہی میں فیض آباد دھرنا کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت ہو رہی تھی لیکن سپریم کورٹ نے کسی ایک مقدمہ میں دھرنے کی وجہ سے ایک وکیل کی دیر سے آمد کو عذر بنا کر سوموٹو کے تحت اس معاملہ پر غور کرنے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت احوال بہرحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ دھرنا والوں کو متاثر کرنے یا قانون نافذ کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں بلکہ فوج کی مداخلت سے حکومت کو مظاہرین کی شرائط مانتے ہوئے معاہدہ کرنا پڑا۔ اب سپریم کورٹ اس معاملہ پر علیحدہ فیصلے جاری کر رہی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی مسلسل فوج اور حکومت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کی اس تجویز سے اتفاق کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ یہ معاملہ چونکہ اب سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، اس لئے اس پر ہائی کورٹ میں کارروائی معطل کر دی جائے۔ جسٹس شوکت صدیقی کی اس بات سے تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کی شقات کے تحت قائم مقدمات ختم کرنے کا معاہدہ کیسے کیا گیا لیکن جب وہ اس سے بڑھتے ہوئے تین ہفتہ تک راولپنڈی اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن کرنے والے دھرنے کو بالآخر ختم کرنے والے معاہدہ کو مسترد کرتے ہیں اور اٹارنی جنرل کے سامنے یہ مطالبہ رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اس معاملہ پر غور کرے یا کابینہ اور فوجی قیادت یہ تحقیق کرے کہ آرمی چیف کا نام اس معاہدہ میں کیوں استعمال ہوا تو یہ پارلیمانی اور انتظامی امور میں غیر ضروری مداخلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے جج دھرنا ختم کرنے میں فوج کی مداخلت کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ فوج بھی انتظامیہ کا حصہ ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج فوج کی مداخلت کو آئین کی خلاف ورزی کہہ رہے ہیں۔ فطری طور سے جب عدلیہ غیر ضروری طور پر معاملات کے قانونی پہلوؤں سے آگے بڑھ کر ان کے انتظامی اور سیاسی مضمرات میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے گی تو اس قسم کا تضاد سامنے آنا ناگزیر ہے۔ اس سے کوئی مشکل حل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی حکومت کی کارکردگی بہتر بنوائی جا سکتی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آج فیض آباد دھرنا کے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ ملک میں فتوے بازی اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے رجحان کو ختم کروائیں۔ اس حکم کے عملی پہلوؤں میں حائل مشکلات سے قطع نظر اگر جسٹس شوکت صدیقی کے دھرنا کے بارے میں ریمارکس کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خود وہی کام کر رہے ہیں جو اٹارنی جنرل کے ذریعے ملک میں ختم کروانا چاہتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کے لیڈروں اور شرکا نے جو زبان استعمال کی ہے، اس کی وجہ سے وہ توہین مذہب (بلاسفیمی) کے مرتکب ہوئے۔ گویا فتوے ختم کروانے کی خواہش کا اظہار کرنے والا جج خود دوسروں کے بارے میں ’’فتویٰ‘‘ صادر کرنا درست سمجھتا ہے۔ جب بھی ایک خود مختار ادارہ دوسرے ادارے کے دائرہ اختیار، معاملات اور طریقہ کار میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا تو اس قسم کی الجھن ضرور سامنے آئے گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کو سیاسی اور انتظامی امور میں عدلیہ کو نگران اور نگہبان بناتے ہوئے ایسی پیچیدگیوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں نہ جمہوری نظام موثر طریقے سے کام کر رہا ہے، نہ سیاسی پارٹیاں بہتر طور سے منظم ہیں اور نہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں مناسب طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ لیکن ملک میں جمہوریت کو شہری حقوق کے حصول کا بہترین راستہ سمجھنے والے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس صورتحال میں بہتری لائی جائے۔ اس مقصد کے لئے ایک کے بعد دوسرے  بحران کا سبب بننے کی بجائے ہر ادارے کو موجودہ جمہوری طریقہ کار کو کام کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ جمہوریت اگرچہ دستیاب طریقہ ہائے حکومت میں بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا مکمل نفاذ آسان نہیں ہے۔ اسے کامیاب بنانے کے لئے تعلیم کی فراوانی اور عوامی شعور کی پختگی درکار ہے جو بار بار انتخاب کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ملک میں کبھی جمہوری سرکل کو کامیابی سے پورا نہیں ہونے دیا گیا فوج عدالت کے تعاون سے بار بار ملک میں آئین کو منسوخ یا معطل کرتی کرتی رہی ہے اور 2008 میں ایک فوجی آمر سے نجات کے بعد سے ملک کی عدالتیں جمہوری حکومتوں کے راستے میں کانٹے بچھانے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دور میں بحالی عدلیہ تحریک کے تحت دوبارہ چیف جسٹس بننے والے افتخار چوہدری نے سوئس بینکوں سے زرداری کی دولت واپس لانے کے نام پر ایک وزیراعظم کو معزول کیا اور میمو گیٹ اسکینڈل کے ڈرامہ میں حکومت کو جزو معطل بنائے رکھا۔ موجودہ دور میں پاناما کیس کو عذر بنا کر سپریم کورٹ نے براہ راست سیاسی معاملات اور احتساب کے عمل میں مداخلت کرنا ضروری سمجھا ہے۔ یہ رویہ حکومت کی کارکردگی تو بہتر نہیں بنا سکتا لیکن عدلیہ کی غیر جانبداری اور سب کےلئے انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت پر ضرور سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی اس بات سے بھی اتفاق ممکن نہیں ہے کہ عدالتوں کی تعریف یا تنقیص کرنے سے کسی حکومت کی کارکردگی کا تعین ہو سکتا ہے یا اعلیٰ عدالتوں کے جج کسی ایسے منصب پر فائز ہیں کہ ان سے غلطی کا امکان نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ججوں کے احتساب کا کوئی مناسب اور شفاف طریقہ موجود نہیں ہے۔ جوڈیشل کونسل کے ذریعے جج خود ہی اپنے ساتھیوں کے معاملات پر غور کرتے اور فیصلے صادر کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں حکومت نے احتساب کا نظام بہتر کرنے کے لئے نیا احتساب کیشن بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کی تمام سیاسی پارٹیاں فوج جرنیلوں اور ججوں کو احتساب کے اس عمل سے استثنیٰ دینے پر متفق ہو گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو کے ذریعے ان سیاسی لیڈروں سے تو یہ استفسار کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ ملک کے دو اہم شعبوں کو کیوں احتساب سے بالا رکھا جا رہا ہے۔ خاص طور سے ججوں کو خود ہی اپنے آپ کو اس قانون کے دائرہ میں پیش کرنا چاہئے تھا جو ملک کے سیاستدانوں اور دیگر شہریوں کے لئے نافذ کیا جائے گا۔ جب تک عدالتوں کے جج مروجہ قوانین سے استثنیٰ کے مزے لوٹتے رہیں گے، ان کی غیر جانبداری بھی شک و شبہ سے بالا نہیں ہو سکتی۔

پاکستانی عدالتوں کے نام پر سب سے بڑا کلنک ایک فوجی حکمران کی ہدایت اور خواہش پر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینا تھا۔ ملک کی قومی اسمبلی اسے عدالتی قتل قرار دے چکی ہے۔ سابقہ حکومت نے اس مقدمہ کی از سر نو سماعت کےلئے پٹیشن دائر کی تھی جسے ٹیکنیکل مجبوریوں کا سہارا لے کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کو قومی اسمبلی کی قرارداد کے بعد از خود کارروائی کرتے ہوئے اس مقدمہ کی دوبارہ سماعت کرنی چاہئے اور اس ناانصافی کو ریکارڈ پر لانا چاہئے جو قانون کی بالا دستی کے نام پر ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستانی عوام کے ساتھ کی گئی تھی۔ اب بھی جسٹس ثاقب نثار اگر عدالتوں کا احترام اور ججوں کی غیر جانبداری کا یقین دلانا چاہتے ہیں تو انہیں بھٹو کے مقدمہ پر کارروائی شروع کرنے کے علاوہ ججوں کو احتساب کے عام قوانین کے دائرہ کار میں لانے کے لئے اقدام کرنا چاہئے۔ عدالتی تاریخ میں ان کے ایسے فیصلوں کو احترام کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali