یہ مجبور پولیس اہلکار ہمارے اپنے ہی ہیں


تجربہ کار ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا۔ ہم بھی گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھے، شیشوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ہماری گاڑی مکمل طور بائیں لین میں تھی اور بہت دور سے ہی اشارہ (انڈیکیٹر ) بھی دیتی آرہی تھی۔ آفس ٹاور کے گیٹ کے قریب پہنچتے جا رہے تھے لیکن دھیان سارا اس موٹر سایئکل والے کی جانب تھا جو ہماری گاڑی کے بھی بائیں، بہت تیز رفتاری میں آتا جارہا تھا۔ ڈرائیور کچھ دور بھانپ گیا تھا سو گاڑی کو تقریباً سیدھا ہی روک چکا تھا کہ اس تیز آندھی کو گزرنے کی راہ مل جائے۔ لیکن دیر ہو چکی تھی، ایک زور کی آواز آئی اور ہم تمام لوگ بشمول گیٹ پہ موجود گارڈز بھی حادثے کی طرف دوڑے۔ ہیلمٹ دو ٹکڑے ہو چکا تھا لیکن الحمد للہ اس کے اندر موجود کھوپڑی سالم تھی۔ ٹانگوں اور بازؤں پر چوٹیں آئیں لیکن کوئی بہت گھری نہیں۔

موصوف کو ایک کرسی پر بٹھایا، پانی پلایا اور ڈاکٹر بھی بلوالیا۔ ہمارے ڈرائیور کو اپنی بہترین ڈرائیونگ کی سند چھن جانے کا ڈر تھا سو اس کے حواس بہتر ہوتے ہی بولا ” بھائی میں نے تو اتنی دور سے اشارہ دے رکھا تھا، گاڑی کی رفتار بھی بالکل سست کر دی، میں تو۔ ”۔ زخمی فرد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور ہم سب وہ تماشہ دیکھنے کے لئے تیار ہو گئے جو ہمیں اکثر شاہراہوں پر نظر آجاتا ہے۔ لیکن اس کی لب کشائی نے ہم تماش بینوں کو مایوس کیا۔ ”بھائی قصور میرا ہے۔ معاف کرنا بھائی، میرے دماغ میں تو بچی تھی نا۔ “ اس کی چپ نے تو بے چین ہی کردیا۔ اسے سہارا اور ہمت دیے تو معلوم ہوا کہ پولیس کانسٹیبل ہے۔ وزیراعظم کے اسکواڈ میں ہے۔ دو دن سے لگاتار ڈیوٹی پہ تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی چھٹی ملی، گھر پہنچا، چھوٹی سی پیاری سی جنت نما بیٹی کو منایا ہی تھا کہ پیغام آیا چھٹی کینسل۔ فوراً پہنچو۔ اسی بے چینی کے عالم میں اسے گاڑی کا اشارہ دیر سے دکھائی دیا۔ حواس پہ قابو پایا اور بس اس نے آگے پڑے سیمنٹ کے بئیریرز سے بچنے کے لئے موٹرسائیکل گاڑی کے ٹائروں پر دے ماری۔ ڈاکٹر نے اسے ابتدائی طبی امداد دے کر اسی ڈرائیور کے ساتھ ہسپتال بھیجنا چاہا لیکن بضد تھا کہ اسے ڈیوٹی پہ پہنچنا چاہیے۔ اوپر آفس پہنچے تو ٹی وی پر ایک ”پولیس گردی“ کی لائیو کوریج جاری تھی۔

اسکول اور کالج کے زمانے میں مزاحمتی سیاست سے ساتھ جڑا تو پولیس کی ماریں بھی کھائیں۔ ایک جلوس میں ہمارے ساتھ ساتھ پولیس کا پورا جتھا چل رہا تھا۔ ان کی سربراہی اس وقت کا ایک خونخوار قسم کا سب انسپیکٹر کر رہا تھا، جس کی کمر پہ کھائی لات آج تک اس کی یاد تازہ کیے رکھتی ہے۔ یہ پولیس کا جتھا گرمی میں ہمارے ساتھ ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے چلے جارہا تھا، جبکہ ہمارا جلوس اپنے نعروں میں ان پر لعنت بھیجے جا رہا تھا۔ وہ نعرے ان کے کانوں میں پڑتے ہوں گے تو دل پر بھی دستک دیتے ہوں گے، احساس بھی جھنجھوڑتے ہوں گے! لیکن وہ اس وقت تک خاموش تھے جب تک کسی ائیر کنڈیشنڈ دفتر سے بذریعہ ریڈیو ان کو پیغام وصول نہیں ہوا۔ یہ تو ایک جلوس تھا جس کے اختتام تک انہیں پنجہ آزمائی کا موقعہ ملا۔ ایسے نہ جانے کتنے جلوس ان کی نعروں سے تواضع کرتے کرتے منتشر ہو جاتے ہوں گے اور یہ اپنے احساسات اور جذبات کو ایک پوٹلی میں بند کر دوسرے حکم کی عدولی میں لگ جاتے ہوں گے۔ آج انہیں یہ پوٹلی کھولنے کا موقعہ ملا تھا۔ اور ہم نے وہ قرض اتارے جو واجب بھی نہیں تھے۔

مجھے یاد ہے کہ انہیں میں سے ایک پولیس والا پڑوسی محلے میں رہتا تھا۔ ایک دن کسی دکان پہ مل گیا۔ مجھے ایک محلے دار کی طرح سمجھایا بھی اور ڈرایا بھی کہ اگر میں نے ان سرگرمیوں سے دوری اختیار نہ کی تو وہ میرے گھر میں بتا دے گا، جو یقیناً میرے لئے کافی سنجیدہ بات تھی۔ ایسے کئی کردار اور ان کرداروں کا مجمع پولیس ڈپارٹمنٹ دیکھتے آئے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں میں سے ہیں، ہمیں میں رہتے ہیں اور معاشرے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ یہ بھی اتنے ہی برے یا اچھے ہیں کہ جتنے ہم۔ اسی معاشرے میں ان کے بھی بچے رہتے ہیں۔ ان کے بھی خاندان بستے ہیں۔ ان کی بھی خوشی اور غمی یہیں ہے۔ ہاں ان کی بھاگ دوڑ جن کے ہاتھ میں ہے، وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ ان کے بھی نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک طبقہ قلعوں میں رہتا ہے اور ایک بہتر معاشی معاشرے کا نظام بنا چکا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس سے بھی مزید بہتر لیکن کسی اور کی زمین پر سرمایہ کاری کر چکا ہے۔

سندھ کے دوسرے بڑے شھر حیدرآباد میں ریاستی حکمران کہتے پائے جاتے تھے کہ پکا قلعہ غیر ریاستی عناصر اور سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ ہم نے تو خود مشاہدہ اور تجربہ بھی کیا۔ عام شہری پریشان تھے، دیگر تنظیموں سے اختلافات تشدد کا روپ اختیار کرتے جارہے تھے۔ پولیس پر بھی حملے ہوتے جاتے اور ساری کڑیاں ریلوے اسٹیشن کے پاس موجود تاریخی قلعے سے جڑتیں جہاں کسی کو پر مارنے کی اجازت نہ ہوتی۔ آخر کار پولیس کے بے حد اصرار پر انہیں قلعے کا قبضہ ختم کرانے کی ذمہ داری سونپ دی گئیں۔ پولیس نے شدید مزاحمت اور اس کے نتیجے میں نقصان کے باوجود بھرپور کارروائی کی اور چاروں طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے اردگرد کی اہم عمارتوں پر مکمل دسترس حاصل کی۔ قریب تھا کہ وہ یہ جنگ جیت جاتے اور غیر ریاستی عناصر کو ریاستی قانون کے آگے پیش کرتے، انہیں رک جانے کا حکم آیا۔

آپریشن کی بھاگ دوڑ ایک ایسی فورس کے حوالے کرنے کا حکم آیا جو ملکی سرحدوں کو دشمنوں سے پاک رکھنے کے لئے تھی۔ یقیناً جنگی مہارت میں زیادہ بہتر ہو گی، اس لئے مزید نقصان سے بچنے کے لئے انہیں بلایا گیا ہو گا۔ لیکن ایک ہی دن کے بعد صورتحال یکسر مختلف تھی۔ آپریشن شاید کسی ڈیل کے عیوض ختم کیا گیا اور سب کو اپنے حال پہ چھوڑ معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ پکا قلعہ آج بھی ایک بھت بڑی آبادی کو اپنے اندر سمیٹے، دیواروں پر ریاستی اور دیگر گروہوں کے حملوں کی نشانیاں سجائے ہوئے ہے۔ اس واقعے کے بعد میں خود ایسے کئی پولیس والوں سے ملا جو اپنے رزق سے نالاں اور علاقے کے مستقبل سے پریشان ملے۔ پھر ہم نے ریاست کو دسیوں سالوں بعد ہوش کے ناخن لیتے دیکھا۔ بہت نقصان ہوا حیدرآباد کا بھی کراچی کے ساتھ۔

اب ان پولیس والوں کے ساتھ ایک تازہ اور شرمناک سلوک ہم قریبًا بائیس دن تک اپنے رہائشی علاقے کے اردگرد دیکھتے رہے۔ گھنٹوں گومگو کی کیفیت میں سپاہی کھڑے رہتے۔ ان کے ریڈیو (وائرلیس) اور میڈیا کے مختلف حوالوں سے انہیں موصول ہوتی خبریں ان کے گزشتہ منصوبے کو ایک طرف رکھتیں اور نئے منصوبے تیار کرتیں تو گھر سے موبائل کال یا میسیج آجاتا کہ جس میں کوئی نیا تقاضا، ضروت، مسئلے کی نشاندہی یا پھر معصوم سی خواہشات کا اظہار ہوتا۔ اتنے میں پھر کوئی نئی خبر اور۔ اس دوران ان کے مخالفین پر جوش، اپنے ارادوں میں پکے۔ ان کی قیادت ان کے ساتھ وہیں موجود اور گاہے بگاہے اپنی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے۔ ہمت دلانے کے لئے مذہب کا سہارا۔ پھر نسبتیں ایک سے بڑھ کر ایک۔ جنت کے دعوے بھی۔ دو جتھے آمنے سامنے، ایک کے پاس مقصد، جذبے کو قائم رکھنے کے لئے نعرے اور تقریریں، سمت اور سب سے بڑھ کر رہبر۔ دوسرے کے پاس وسائل کے باوجود نہ تو ہدف سے آشنائی تھی نہ ہی حکمت عملی کا سر یا پیر۔ ان کے بدرجہ بالا افسر موجود بھی تھے تو خود ناآشنا۔ یہ جتھا قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس اور ایف سی) کا تھا اور سامنے وہ گروہ جس نے فیض آباد میں دھرنا دیا۔ ۔

ایسے میں اچانک پولیس اور ایف سی کو حکم ہوا کہ سامنے کھڑے جتھے کو بھاگنے پر مجبور کرو، دبوچ لو، یلغار ہو۔ یہ حکم دینے والوں نےاس حکم کی ترسیل کے بعد جب مڑ کے دیکھا تو فی الوقت نہ کوئی حکم تھا نہ ہی پچھلے حکم سے کوئی وابستگی۔ شاید اس کا تعین بھی کوئی کمیٹی کرے گی کہ حکم دیا کس نے! ادھر کنٹینر کے قریب پہچنے والے پولیس والے مزید حکم اور کمک کے منتظر تھے۔ دوسری طرف سے پیش قدمی کرنے والے ایف سے کے جوان بھی نزدیک آ پہنچے جن کے لئے کنٹینر سے پشتو میں واعظ شروع کیا گیا۔ اسی اثناء میں ایک پولس پارٹی کے اوپر نہ جانے کہاں سے مدرسے کے طلباء کا حملہ ہوا اور دوسری جانب مری روڈ پر ایک اہم شخصیت کے گھر کے باہر جنگ کا سا میدان بنا۔ اس جنگ میں ان دو فریقین کے علاوہ رپورٹ کے مطابق اس گھر کے محافظوں نے بھی حصہ لیا۔

پولیس اور ایف سی مختلف جگہوں پر مخالفین سے الجھی رہی اور مزید کمک کا انتظار کرتی رہی۔ اسی دوران انہیں واپس آنے کے احکامات بھی موصول ہو گئے۔ اپنے اپنے محاذ پر بھرپور لڑائی کے بعد جب وہ واپس آئے تو اپنے بہت سے ساتھیوں کو خون میں لت پت دیکھ حیرت کا بھی اظہار کیا اور پریشانی کا بھی لیکن آگے صرف خاموشی تھی۔ میڈیا پر اڑتی مختلف خبریں اور بالا افسران کی آنیاں جانیاں۔ تھکے ہارے، مستقبل سے ناواقف یہ ہمارے اپنے، چند اور اپنوں اور ان کے ساتھ موجود سازشیوں سے مار اور شکست کھا کر مختلف روڈوں پر بکھرے پڑے تھے۔ مزید دو دن گزر گئے اور مخالف فریق کے پاس مزید کمک پہنچتی گئی۔ اس ہی جانب جنازے بھی اٹھے اور جذبات مزید بھڑکے۔ یہاں سربراہ وزارت داخلہ نے اس تمام کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ کچھ ہی دیر میں ان کے دستخط والا ایک کاغذ سامنے آیا جس کے ثالث ایک افسر تھے جو شاید دشمن کی انٹیلیجنس کو ناکام بنانے پر مامور تھے۔

یہ کاغذ کوئی معمولی کاغذ نہیں بلکہ ریاست کو کمزور کرنے کا پروانہ تھا جو ریاست کی باگ دوڑ سنبھالنے والےاور بالخصوص حفاظت پر معمور اداروں کی مدد سے بنا تھا۔ یہ پروانہ ایسے گروہ کو سونپا گیا جس کے متعلق خود حکومتی اور ریاستی ادارے، حتٰی کہ حزب مخالف کی جماعتیں بھی تحفظات رکھتی ہیں (یا کم از کم چند روز پہلے تک تھیں)۔ اس کے آغاز ہی میں درج بالا کارروائی کو غلط تسلیم کرلیا گیا۔ اور یہ اسی ریاست نے کیا جس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے یہ پولیس اور ایف سی والے آگے بھیجے گئے تھے، اپنوں کے اوپر ڈنڈے برسائے تھے، خون میں لت پت ہوئے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ایمان کے امتحان سے گزرے تھے۔ کنٹینر سے بلند ہوتی آوازوں میں اپنی کارروائی سے متعلق قرآن اور حدیث کے حوالے بھی سنتے جارہے تھے اور اپنا حلف بھی یاد کرتے جاتے تھے جس میں انہوں نے ریاست اسلامی جمھوریہ کے مخالف اقدامات کو پسپا کرنی کی قسم کھا رکھی تھی۔

اور پھر کچھ دیر بعد جب وہ اپنے گھروں میں اپنے بچوں سے آنکھ نہیں ملا پا رہے تھے، ٹی وی پر ایک اور وردی میں ملبوس افسر انہیں کے ہاتھوں گرفتار مخالفین کو تھانوں سے لا کر پیسے دے رہے تھے۔ اور کہتے نظر آتے تھے کہ ”ہم آپ میں سے نہیں ہیں؟ “۔ وہ افسر وہاں سے یقیناً چھاؤنی گئے ہوں گے۔ اسی دوران پڑھے لکھے کمانڈو اسرار تنولی کو آنکھ کی نعمت سے محروم ہونے پر مانسہرہ سے بھی بیس کلو میٹر دور اس کے گھر پہنچا دیا گیا ہے۔ اب وہ سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھا کرے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).