پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی


صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ان کوائری رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے اور اس میں کسی حکومتی شخصیت کا نام نہیں ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عدالت نے 30 روز میں ماڈل ٹاؤن رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی ہدایت کی تھی جب کہ عدالت کا حکم آتے ہی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا اور حکومت نے رپورٹ جاری کر دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت میرٹ اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے اور ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ قانون کی حکمرانی کی وجہ سے ہی منظر عام پر نہیں لائی گئی تھی، اگر عدالتی فیصلے سے قبل رپورٹ منظر عام پر لائی جاتی تو فرقہ وارانہ تصادم کا خدشہ تھا۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایک جج پر مشتمل ماڈل ٹاؤن کی ان کوائری رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے اور اس رپورٹ میں جن شہادتوں پر انحصار کیا گیا ہے وہ غیر متعلقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنڈی میں بیٹھے ہمارے مخالف شیطان نے رپورٹ سے متعلق طوفان کھڑا کر رکھا تھا لیکن واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس رپورٹ میں کسی حکومتی شخص کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ رپورٹ میں موقع پر موجود کسی پولیس اہلکار کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ اس رپورٹ میں ایک لفظ نہیں جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہو۔
صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق مجھ پر الزام ہے کہ میں نے پولیس کو بیرئیر ہٹانے کا حکم دیا لیکن رپورٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ میں نے پولیس کو حکم دیا ہو کہ مظاہرین پر فائرنگ کی جائے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ قانون کی نظر میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ غیر موثر ہے کیونکہ اس رپورٹ میں ثبوت یک طرفہ ہیں، رپورٹ شہادت کے طور پر نہیں پیش کی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس خلیل الرحمان نے رپورٹ کا جائزہ لیا اور کوشش کی اس پر رائے دیں، مناسب ہو گا کہ رپورٹ ون مین ان کوائری ٹریبونل کو بھیجی جائے جو معاملے کو دیکھے اور رائے قائم کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ قاری خود سانحے کے ذمے دار کا فیصلہ کرے، بہت سے قاری تو علامہ صاحب آپ کو بھی ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔
وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستان عوامی تحریک کی طرف سےکوئی شہادت نہیں جب کہ مختلف ایجنسیز کی رپورٹ میں دونوں طرف سے فائرنگ کا ذکر ہے، ایجنسیوں کی رپورٹ کو اس رپورٹ کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ رپورٹ میں یہ جا بجا موجود ہے کہ پاکستان عوامی تحریک نے لوگوں کو اکٹھا کیا، وہ کون تھا جو ساری رات یہ کہتا رہا شہادت کا وقت آگیا ہے باہر نکلیں؟ یہ نہیں بتایا گیا کہ لوگوں کو کس نے اکٹھا کیا؟ لیکن بے شمار شہادتیں میڈیا کے پاس ہیں اور کلپس بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تصادم کی صورتحال پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیدا کی کیونکہ انہیں 14 اگست کے لانگ مارچ کے لیے لاشیں درکار تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ ایک انتظامی فیصلہ ہے اور اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔

جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے چند نکات

جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات کی رپورٹ پیش کی، کمشنر لاہور نے بیریئر لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری نے23 جون 2014 کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کا کہا جب کہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ طاہرالقادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے۔
جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے، اجلاس میں ڈاکٹر توقیر شاہ نے بیرئیر ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔

یاد رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

اس موقع پر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک اور 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جس کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر قانون فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب اس واقعے کی جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی تحقیقات بھی کرائی گئی لیکن اب تک جوڈیشل ان کوائری رپورٹ منظرعام پر نہیں لائی گئی تھی۔
بشکریہ جیو نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).