ملا-ملٹری مدرسے میں کپتان کا داخلہ


عمران خان نے فیض آباد دھرنے کے خاتم پر شکرانے کے دو نفل ادا کئے اور پھر ملٹری ملا گٹھ جوڑ کے وکیل صفائی کا فرض ادا کرنے نکلے پڑے۔ کپتان حکومت پر چڑھ دوڑے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کو بڑی ڈھٹائی سے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کپتان کی ایمانداری کے کیا کہنے کہ سینکڑوں سیکوریٹی اہلکاروں کو شدید زخمی کرنے، اغوا کرنے اور کروڑوں روپوں کی پبلک پراپرٹی جلانے اور غریب ٹھیلے والوں کی کل پونجی تباہ کرنے والوں کے خلاف منہ کھولنا مناسب نہ سمجھا۔

عمران خان جس دیدہ دلیری سے فوج کے غیر جمہوری ثالثی کردار پر تعریف کے ڈونگرے برسا رہے تھے اس کی تعریف نہ کرنا دانشورانہ بزدلی کہلائے گی۔ لبیک والوں اور حکومتی معاہدہ میں کپتان کو کچھ بھی غیر قانونی یا غیر آئینی نظر نہیں آیا۔ معاہدہ میں فوج کی ثالثی پر انہیں فوج کے سیاسی کردار پر بھی کوئی اچھنبا نہیں  ہوا۔ کپتان اتنے با خبر تو ہوں گے کہ جمہوری حکومت اور سول سیکورٹی اداروں کی ایک فرقہ پرست مذہبی گروہ کے ہاتھوں منصوبہ بند بے توقیری اور پسپائی اچھا شگون نہیں۔ فوجی ترجمان کے بیان کے بعد کس میں جسارت کہ پر تشدد اور نفرت پھیلانے والے فرقہ پرستوں پر آنچ بھی آتی۔ تاریخ سے سبق حاصل کرنا تو دور کی بات، لگتا ہے کپتان کو تاریخ پڑھنا بھی پسند نہیں۔ انہیں شاید علم ہو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو سے بڑھ کر عوامی مقبولیت کی معراج کو کوئی نہیں  چھو سکا۔ بے ںظیر بھٹو اسی سیڑھی کے سہارے عوامی مقبولیت حاصل کر سکیں۔ ایک وقت تھا جب اصغر خان بھی عوام کے ایک نمایاں حصہ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سنا ہے گئے وقتوں میں ایک مقبول سیاسی لیڈر خان عبدالقیوم خان بھی ہوا کرتے تھے۔عصر حاضر میں نواز شریف پنجاب میں مقبول ترین لیڈر بن کے ابھرے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کپتان بھی نوجوانوں کے ایک موثر حلقہ میں مقبول ہیں۔ مگر انہیں صوبہ پختون خوا کے باہر یہ ثابت کرنا ہے کہ عوام نے انہں کس قدر مقبولیت بخشی ہے۔

کھلاڑی کو یہ کیسے سمجھائیں کہ بھٹو، بے نظیر اور مرتضےٰ کو کس نے عوام سے دور رکھنا چاہا اور بالآخر ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔ باوجود اس کے کہ اصغر خان نے بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹانے کے لئے اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کھل کر ساتھ دیا۔ یہ پتہ نہ چل سکا اصغر خان کی تحریک استقلال کیسے تتربتر ہوئی اور ان کے پاؤں کے نیچے سے کس طرح سیاسی زمین سرکا دی گئی۔ اور اب نواز شریف کی باری ہے۔ اس بارے میں تو کپتان کو خوب آگہی ہے کیونکہ وہ تندہی سے میاں نواز کو وزارت عظمیٰ کے بعد سیاسی عمل سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کرانے کے لئے عدلیہ کی خدمت میں دوزانو ہو کر حاضری لگوا چکے ہیں۔ ملک میں نئی طرز کی ‘مارشل لا‘ جوڈیشل ایمرجنسی کی چہ مگوئیاں بھی تو ان کے ارد گرد سے سنائی دیتی ہیں۔ کپتان اب نواز شریف، زرداری، مریم نواز اور شہباز کو عدالتی اور ریاستی اداروں کی مدد سے سیاسی عمل سے بے دخل کرا کر بلامقابلہ سیاسی بازی اپنے نام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

کپتان اپنی عوامی مقبولیت پر بہت نازاں اور مخمور ہیں۔ وہ یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ طاقتور حلقوں کی ہر جائز اور ناجائز بات پر ہاں میں ہاں ملانے سے اقتدار کی منزل قریب ہو رہی ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت، جمہوری اور سول اداروں کی بالادستی کوئی اہمیت نہیں  رکھتی۔ انہیں صرف اور صرف وزیر اعظم کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگانا ہے۔ وہ جمالی اور شوکت عزیز بننے کر تیار بیٹھے ہیں۔ اب تو وہ چوہدری شجاعت حسین جیسا کردار ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ حقائق سے آنکھیں چرانے سے حقیقتیں نہیں بدلتیں۔ پارلیمان، جمہوری حکومت اور سول ریاستی اداروں کو طاقتور حلقوں نے غیرآئینی ہتکنڈوں سے عملاَ بے دست و پا کر رکھا ہے۔ ریاست کے اصل حاکموں کو عوام میں مقبول سیاسی پارٹیاں یا لیڈر پسند نہیں۔ انہیں اپنے ہاتوں سے تراشے نام نہاد سیاسی بت اور سیاسی دم چھلے چاہئیں۔ انہیں کنونشن مسلم لیگ، مسلم لیگ جونیجو، آئی جے آئی، مسلم لیگ ق جیسی بغل بچہ سیاسی جماعتوں کی ضرورت رہتی ہے۔

آج پی ٹی آئی کی سیاست پر نطر ڈالیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کپتان طاقتور حلقوں کی خواہشات کے زیر سایہ طفیلی سیاسی کردار ادا کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔  کپتان ملا-ملٹری مدرسے میں داخلے کی زبردست ہواہش رکھتے ہیں، سوال ییہ ہے کہ انہیں یہاں داخلہ مل سکے گا یا انہیں بالائی تمتع کے بعد فارغ خطی دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).