بیٹی سے کتاب کا تحفہ ملنے پر ۔۔۔۔ تم ملالہ ہو


2017ء میرے لئے ایک خوش قسمت برس رہا۔ اس برس میں مجھے ایسی خوشیاں نصیب ہوئیں کہ زندگی کا بہترین لطف مل گیا۔ کیسے؟

میں سیاسی طور پر جمہوریت پسند ہوں۔ سماجی طور پر رواداری کا قائل ہوں۔ میں کسی انسان سے زبان، نسل، ثقافت یا عقیدے کی بنا پر تعصب نہیں رکھتا۔ ذاتی زندگی میں میری ترجیحات وہی ہیں جنہیں لبرل سوچ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ میری بیٹی کامنی مسعود 1996ء میں پیدا ہوئی تو میں نے بہت دباؤ محسوس کیا۔ رکیے؟ آپ غلط سمجھے۔ یہ دباؤ اس لئے نہیں تھا کہ مجھے بیٹا پیدا ہونے کی خواہش تھی۔ میرے جیسے خیالات کے انسان کے لئے بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں ہو سکتا۔ میرے ذہنی دباؤ کے اسباب کچھ اور تھے۔

میں جس ملک میں رہتا ہوں، وہاں قانونی طور پر عورت اور مرد میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ میرے لئے یہ امتیاز ناپسندیدہ ہی نہیں، ناقابل قبول بھی ہے۔ میری ساری بالغ زندگی صنفی امتیاز کے خلاف مقدور بھر کوشش کرتے ہوئے گزری ہے۔ ایک قانون پسند شہری تقریر اور تحریر کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار اور پرچار تو کر سکتا ہے لیکن انفرادی طور پر قانون تبدیل نہیں کر سکتا۔ قانون بدلنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ قانون ایک فرد کی مرضی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے رائے عامہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ میں ایک ایسے ملک میں رہتا ہوں جہاں نصف آبادی ناخواندہ ہے اور نیم خواندہ، نیم تعلیم یافتہ آبادی کی بہت بڑی تعداد عورت اور مرد میں امتیاز کی حامی ہے۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر میرے لئے یہ بات انتہائی تشویش کا باعث تھی کہ اپنی بیٹی کو قانونی امتیاز سے کیسے محفوظ رکھوں گا؟

میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں سیاسی بندوبست پوری طرح سے جمہوری نہیں ہے۔ میری رائے میں جمہوریت موجود نہ ہو تو انسان اپنی زندگی سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا، اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار نہیں لا سکتا۔ میرے ملک میں طویل برسوں تک جمہوریت معطل رہی ہے۔ اور جب بظاہر جمہوریت بحال ہوتی ہے تو جمہوری ثقافت کمزور ہونے کی وجہ سے جمہوریت کو پاؤں جمانے کا موقع نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں بہت سے بظاہر تعلیم یافتہ افراد، اعلیٰ دانش گاہوں کے استاد، تجربہ کار صحافی، سیاست دان، اعلیٰ سرکاری عہدے دار کھلم کھلا جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں۔ عام شہریوں اور غریب لوگوں کو یہ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ ان کا معیار زندگی صرف جمہوریت کی مدد ہی سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی امنگیں جمہوریت ہی میں پوری ہو سکتی ہیں۔ ان کی خوشیوں کی حفاظت جمہوریت ہی میں ممکن ہو سکتی ہے۔ جمہوریت پسند شہریوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ظلم اور جبر کے ذریعے اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتے۔ جمہوریت ظلم اور تشدد کو روکنے ہی کا نام ہے۔ ظلم اور تشدد کے ذریعے جمہوریت رائج نہیں کی جا سکتی۔ دوسری طرف جمہوریت کے دشمنوں کو ڈنڈا اٹھانے، گولی چلانے اور قتل و غارت میں کوئی عار نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، کبھی عقیدے کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں اور کبھی زبان اور ثقافت کی بنیاد پر تشدد کرتے ہیں۔ جہاں جمہوریت نہیں ہوتی، وہاں طاقتور لوگ روپے پیسے، عہدے، عقیدے اور تشدد کی مدد سے کمزور کے خلاف گٹھ جوڑ قائم کر لیتے ہیں۔ پرامن طریقوں سے ظلم اور تشدد کی مزاحمت کرنا ایک مشکل اور طویل راستہ ہوتا ہے۔ مجھے 21 برس قبل تشویش تھی کہ کیا میری بیٹی جمہوریت سے بہرہ مند ہو سکے گی؟ کیا وہ جمہوریت کے لئے جدوجہد کے سخت راستے پر چلنا پسند کرے گی؟ کہیں وہ اپنے مفاد میں غریب اور کمزور لوگوں کے ساتھ ناانصافی میں حصے دار تو نہیں بن جائے گی؟ کیا میری بیٹی یہ سمجھ سکے گی کہ زندگی کا بہترین استعمال اسے دوسروں کی مدد کرنے میں بسر کرنا ہے؟

میں جس ملک میں رہتا ہوں، وہاں گھر، اسکول اور گلی کوچوں میں تشدد کی ثقافت عام ہے۔ مجھے تشدد سے نفرت ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تشدد کی فضا میں سانس لینے والے انسان رفتہ رفتہ تشدد اور ناانصافی کے بارے میں بے حس ہو جاتے ہیں۔ دکھ اور اذیت کا جواز تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں خود غرضی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ تشدد کو ایک طرز زندگی سمجھ کر قبول کرنے لگتے ہیں۔ بیٹی پیدا ہونے پر مجھے اندیشے لاحق ہو گئے تھے کہ اپنی بیٹی کو تشدد کی زہر آلود فضا سے کیسے محفوظ رکھوں گا؟

میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں گلی، محلے، درس گاہوں اور کام کی جگہوں پر عورتوں، خاص طور پر کم عمر بچیوں کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ ہم لوگ سندھ میں سفر کر رہے تھے۔ ہمیں حیدر آباد سے روہڑی جانا تھا۔ برسات کا موسم تھا۔ حیدر آباد سے ٹوٹی پھوٹی اور بارش کے پانی میں ڈوبی سڑکوں پر کئی گھنٹے سفر کرنے سے تنویر جہاں کا دمہ کا مرض بڑھ گیا۔ وہ سفر کے قابل نہ رہیں۔ ہم نے سوچا کہ انہیں ہوٹل میں ٹھہرا دیا جائے۔ سکھر میں پیپلز پارٹی کے ایک سیاسی رہنما کی ملکیت ہوٹل کے ادھیڑ عمر مینجر نے صاف جواب دے دیا، “ہم اکیلی عورت کو کمرہ نہیں دیتے”۔ اس کے لب و لہجے سے لگ رہا تھا گویا وہ کوئی نیکی کی بات کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ جانور اپنی جہالت کو نیکی نہیں سمجھتے۔ مجھے ایک دفعہ پشاور شہر کی جی ٹی روڈ پر واقع پلازے میں ایک میٹنگ کے لئے جانا تھا۔ خیبر پختون خوا (تب صوبہ سرحد) کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون میرے ہمراہ تھیں۔ ہمیں پلازے کے چوکیدار نے یہ کہہ کر روک دیا کہ حاجی صاحب کا حکم ہے کہ عورت پلازے میں داخل نہیں ہو سکتی۔ یہ پلازہ اے این پی کے ایک کارکن کی ملکیت تھا۔ یاد رہے کہ ابھی طالبان کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ پاکستان میں ملا کے ظہور سے بہت پہلے سیاسی جماعتیں تعلیم کے مقابلے میں جہالت اور انصاف کے مقابلے میں تعصب اختیار کر چکی تھیں۔ مجھے بیٹی پیدا ہونے پر خوف لاحق ہو گیا تھا کہ کیا میری بیٹی معاشرے میں بدسلوکی سے محفوظ رہ سکے گی؟

مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کو تعلیم پاتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس برس وہ اکیس برس کی ہو گئی۔ وہ تاریخ کی طالب علم ہے اور عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے۔ اس نے اپنی سالگرہ پر مجھے ایک کتاب کا تحفہ بھیجا ہے۔ اس کتاب پر اس نے اردو میں ایک دو جملے لکھے تھے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے اور میری خوشی میں شریک ہوں۔

(“کہ” کی بجائے “کے” لکھنا املا کی غلطی ہے۔ معلوم ہو گیا کہ املا کے ضمن میں بیٹی باپ ہی پر گئی ہے۔)

اور آج 5 دسمبر 2017ء کو مجھے ملالہ یوسف زئی کی کتاب “میں ملالہ ہوں” موصول ہوئی ہے۔ ملالہ صرف ضیاالدین یوسف زئی کی بیٹی نہیں، پاکستان کے ہر اس باپ کی بیٹی ہے جس نے پاکستان میں علم، مساوات، جمہوریت اور رواداری کا خواب دیکھا ہے۔ پانچ برس قبل نو اکتوبر 2012 کو طالبان نے پاکستان کی بہادر ترین بیٹی کو گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک ہفتے بعد 15 اکتوبر 2012 کی شام برمنگھم برطانیہ کے کوئن الزبتھ میڈیکل سنٹر سے اطلاع آئی کہ ملالہ یوسف زئی کی جان بچا لی گئی ہے تو میں نے خوشی میں رقص کیا تھا۔ میں نے 22 اپریل 2014 کی شام بھی رقص کیا تھا جب خبر ملی تھی کہ ڈاکٹروں نے حامد میر کی جان بچا لی ہے۔ میں نے عرض کی کہ میں لبرل انسان ہوں۔ ہم لبرل لوگ خوشی کے موقع پر رقص کیا کرتے ہیں۔

ملالہ یوسف زئی نے اپنی کتاب پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھا ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجئے۔۔۔۔

اس آٹوگراف میں کچھ مبالغہ ہے۔ ہم نہتے اور کمزور لوگ اپنی بہادر بیٹیوں کیا مدد کر سکتے ہیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ ہماری بیٹیوں نے کتاب تک کا راستہ پا لیا ہے۔ ہماری نسل کو اطمینان ہے کہ مشکل حالات میں ہم نے اپنی لڑائی کو زندہ رکھا ہے۔ پاکستان کی ساری بیٹیاں اب کتاب اٹھائے اس لڑائی کے لئے تیار ہو گئی ہیں۔ اب یہ جنگ ہمارے ساتھ ختم نہیں ہو گی۔ ہم نے اپنی لڑائی کا میدان تھوڑا سا پھیلا دیا ہے۔ ہم نے آنے والی نسلوں کو جہالت، ناانصافی اور تشدد کے خلاف صف آرا کر دیا ہے۔ اس بیٹی کو کوئی نہیں ہرا سکے گا جس نے کتاب اٹھا لی ہو اور قلم پکڑنا سیکھ لیا ہو۔

مجھے اس برس اپنی بیٹیوں سے کتاب کے تحفوں کی صورت میں زندگی کی بہترین خوشی ملی ہے۔ ہم لبرل لوگ اپنی خوشی کو سب کے ساتھ بانٹا کرتے ہیں۔ اس لئے آپ کو بھی اس خوشی میں شریک کرنے کی کوشش کی ہے۔

جب ملالہ یوسف زئی کی کتاب “میں ملالہ ہوں” شائع ہوئی تو پاکستان میں کچھ لوگوں نے ایک مہم چلائی تھی، “میں ملالہ نہیں ہوں”۔ مجھے جہالت، تشدد اور نانصافی کی حمایت کرنے والوں سے صرف یہ کہنا ہے کہ واقعی تم ملالہ نہیں ہو۔ ملالہ ہونے کے لئے بہادر ہونا پڑتا ہے، اتنا بہادر کہ قاتلوں کو بھی معاف کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).