کیا علامہ اقبال اپنے آخری ایام میں قائد اعظم سے ناراض تھے؟


میں اس موقع کا منتظر بیٹھا تھا۔ میں نے اسی وقت کھڑے ہو کر سوال کیا: “ہماری درخواست کے نا منظور کئے جانے کی وجہ کیا ہے؟”

نواب زادہ صاحب نے کسی قدر تحکمانہ انداز میں فرمایا: “بیٹھ جاؤ!”

میں نے عرض کیا: “ میں سکول کا طالب علم نہیں ہوں اور نہ آپ سکول کے ماسٹر کہ مجھے یوں بیٹھنے کا حکم دیں۔”

اس پر وہ بگڑ کر بولے: “کیا لاہور سے ہماری بے عزتی کرنے یہاں آئے ہو؟”

میں نے جواب دیا: “میں آپ کی بے عزتی کرنے تو نہیں آیا لیکن اپنی بے عزتی کرانے بھی نہیں آیا۔”

میرے پاس الہٰ آباد کے بیرسٹر ظہور احمد بیٹھے تھے۔ وہ میرا کوٹ کھینچ کے کہنے لگے: “بیٹھ جاؤ!”

لیکن خلیفہ شجاع الدین پیچھے بیٹھے کہہ رہے تھے: “نہیں بولنے دو انہیں!”

مسٹر جناح یہ سب دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر پوچھا: “چاہتے کیا ہو؟”

میں نے عرض کیا: “پنجاب مسلم لیگ کا الحاق۔”

فرمایا: تم میں سے ایک آدمی یہاں آکر اپنا معاملہ پیش کرے۔”

ملک برکت علی نے پلیٹ فارم پر جا کر تقریر شروع کی۔ ان کی تقریر ختم ہوئی تو پورا ایوان ہمارا ہم خیال اور معاون بن گیا۔ لیکن مسٹر جناح نے چوبیس گھنٹے کی مہلت طلب کی اور فرمایا کہ سر سکندر آج شام کی گاڑی سے کلکتہ آرہے ہیں۔ کل صبح اس بات کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔

شام کو ہمیں پیغام ملا کہ دوسرے روز صبح آٹھ بجے مسٹر اصفہانی کے مکان پر جہاں مسٹر جناح مقیم تھے ہم حاضر ہوں تا کہ سر سکندر کی موجودگی میں معاملات طے کئے جائیں۔ سر سکندر کے ساتھ ان کے دونوں مسلمان وزیر اور تمام پارلیمنٹری سیکرٹری اور پرائیویٹ سیکرٹری آئے تھے۔ اس کے علاقہ نواب ممدوٹ بھی ان کے ہمرکاب تھے۔

مسٹر جناح نے فرمایا پنجاب میں ایک نئی پراونشل مسلم لیگ قائم کی جائے گی، جسے مرتب و منظم کرنے کے لئے ایک 35 آدمیوں کی آرگنائزنگ کمیٹی مقرر کی جاتی ہے اور اس آرگنائزنگ کمیٹی میں دونوں فریقوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی۔

غلام رسول خاں نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ ہمارے الحاق کی درخواست کا کیا حشر ہوا لیکن مسٹر جناح نے جواب دیا۔ گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر انہوں نے، ملک برکت علی سے کہا کہ آرگنائزنگ کمیٹی کے لئے اپنے آدمیوں کی ایک فہرست تیار کریں۔ ملک صاحب نے ایک کاغذ پر اٹھارہ آدمیوں کے نام لکھ دئیے۔

یہ مجلس مشاورت کم و بیش دو گھنٹے جاری رہی اور بعض معاملات پر سر سکندر سے ہماری تیز و تند گفتگو بھی ہوئی۔

اسی شام آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نے آرگنائزنگ کمیٹی کی مکمل اور باضابطہ فہرست ہمارے پاس بھیجی، تو ہمیں یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ اس میں ہماری پارٹی کے صرف دس آدمیوں کے نام درج تھے۔ پچیس آدمی سر سکندر حیات کے تھے۔ غلام رسول خاں غصے سے بے تاب ہوگئے۔ لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ اب چاہے ہمارا ایک بھی آدمی شامل نہ کیا جائے کم از کم مجھے نہ تعجب ہوگا نہ افسوس۔

آرگنائزنگ کمیٹی مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی۔

سر سکندر حیات خان، صدر  ۔۔۔ نواب ممدوٹ (نواب شاہنواز خان) ۔۔۔ سعادت علی خاں یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔ ملک خضر حیات ٹوانہ ۔۔۔ میاں عبدالحئی وزیر تعلیم  ۔۔۔ میاں احمد یار خاں دولتانہ  ۔۔۔ سید افضال علی حسنی۔ یونینسٹ۔۔۔ میاں مشتاق احمد گورمانی ۔۔۔ میر مقبول محمود۔ پارلیمنٹری سیکرٹری ۔۔۔ سید امجد علی ۔۔۔   غیاث الدین ایم ایل اے (مرکزی اسمبلی)  ۔۔۔ نواب زادہ خورشید علی خاں ۔۔۔ نواب سر محمد حیات خاں نون یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔ راجہ فتح خاں یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔    نواب مظفر خاں یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔  خان بہادر نواب فضل علی یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔ راجہ غضنفر علی خاں پارلیمنٹری سیکرٹری ۔۔۔ کیپٹن سر شیر محمد خاں ایم ایل اے (مرکزی اسمبلی) ۔۔۔ خان بہادر شیخ کرامت علی یونینسٹ ایم ایل اے۔۔۔ چوہدری محمد یٰسین یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔ شیخ صادق حسن امرت سر ۔۔۔ مولانا غلام رسول مہر ایڈیٹر انقلاب ۔۔۔ شیخ فیض محمد ۔۔۔ خان بہادر مولوی غلام محی الدین قصوری یونینسٹ ایم ایل اے  ۔۔۔ خان بہادر چوہدری ریاست علی یونینسٹ ایم ایل اے ۔۔۔ علامہ اقبال  ۔۔۔ ملک زمان مہدی خان ۔۔۔ خلیفہ شجاع الدین ۔۔۔ غلام رسول خان ۔۔۔ ملک برکت علی ۔۔۔  پیر تاج الدین ۔۔۔ مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکش  ۔۔۔ مولانا ظفر علی خان  ۔۔۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لاء ۔۔۔ عاشق حسین بٹالوی

اب کلکتہ میں مزید قیام بے سود تھا۔ چنانچہ 19 اپریل کی شام کو ہم واپس روانہ ہوئے۔ کلکتہ سے لاہور تک کا طویل اور صبر آزما سفر اچھی خاصی کوفت میں کٹا۔ غلام رسول خاں کے مزاج میں غصہ زیادہ تھا۔ وہ راستے میں بار بار کہتے تھے کہ اب پنجاب میں مسلم لیگ کو ختم سمجھو۔ کبھی کہتے، افسوس! ہماری دو سال کی محنت رائیگاں گئی۔ کبھی کہتے ہم لاہور جا کر ڈاکٹر صاحب کو کیا منہ دکھائیں گے۔

فلسفے کی دنیا کا درویش اقبال

ملک زمان مہدی خاں کو بظاہر مسلم لیگ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ میں لاہور پہنچ کر سیدھا اپنے گاؤں چلا جاؤں گا۔ میری زمینداری کے بہت سے کام رکے پڑے ہیں۔ خلیفہ شجاع الدین اور ملک برکت علی غالباَ یہ سوچ رہے تھے کہ ہائی کورٹ کھلنے پر انھیں کون کون سے اپیلوں میں پیش ہونا پڑے گا۔

میں اس خیال سے خوش تھا کہ چلو ہر روز کی دانتا کلکل ختم ہوئی۔ اب اطمینان سے بیٹھ کر کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کروں گا۔

21 اپریل کو صبح نو بجے ہم لاہور پہنچے۔ ابھی گاڑی پلیٹ فارم پر اچھی طرح رکنے بھی نہ پائی تھی کہ ہم نے اخبار فروش لڑکے کو چلّاتے ہوئے سنا۔ وہ پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ ڈاکٹر اقبال فوت ہوگئے۔

اس خبر سے ہم پر ایک بجلی سی گر گئی اور تمام ساتھی دم بخود و پریشان ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اسٹیشن سے باہر آکر اپنے گھروں کو واپس جانے کی بجائے ہم سیدھے جاوید منزل گئے اور اس شخص کے جسد خاکی کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو آخری مرتبہ روشن کیا جس کے ساتھ اس کے نیازمندوں نے ملک و ملّت کی حیات تازہ کی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3