لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟


چند دن پیشتر فیملی آف دی ہارٹ کے سیمینار کے بعد میرے عزیز دوست پرویز صلاح الدین نے مجھے اپنے گھر ڈنر پر بلاتے ہوئے کہا کہ وہاں چند اور مہمانوں کے ہمراہ ایک جرنلسٹ کرن علی بھی آ رہی ہیں جو آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔

’کرن علی کون ہیں؟‘ میں متجسس تھا۔

’وہ ایک مقبولِ عام کنیڈین ٹی وی پروگرام REALITY BITES کی ہوسٹ ہیں‘۔

کرن علی سے ملاقات سے چند دن کے بعد انہوں نے فیس بک پر مجھے اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔

’آپ کن موضوعات پر اپنا پروگرام کرتی ہیں‘

’سوشل ایشوز پر‘

’ آپ میرے ساتھ کس موضوع پر تبادلہِ خیال کرنا چاہتی ہیں؟‘

’لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟‘

’یہ تو ایک دلچسپ موضوع ہے‘

میں نے سوچا پروگرام میں جانے سے پہلے میں اپنے پریشاں خیالات یکجا کر لوں اس طرح کرن علی کے پروگرام کی تیاری بھی ہو جائے گی اور ’ہم سب‘ کے لیے ایک کالم بھی تیار ہو جائے گا۔ایک پنتھ دو کاج۔۔

میں نے جھوٹ بولنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ بچے سچ بولتے ہیں۔ میں نے بچوں کے سچ کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو مجھے چندی گڑھ کے سردار جی یاد آئے جو چند ہہفتوں کے لیے اپنے بیٹے بہو اور پوتے سے ملنے ٹورانٹو آئے تھے ہندوستان جانے سے پہلے میں نے ان سے پوچھا

’بلبیر سنگھ جی آپ کینیڈا کے سفر کے بارے میں کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو آپ کو ساری عمر یاد رہے گا‘ سردار جی کہنے لگے کہ مجھے بہت سے پاکستانی اور ہندوستانی مردوں کی طرح خبریں سننے کا بڑا شوق ہے۔ ایک دن میں گھر آیا تو میرا پوتا کارٹون دیکھ رہا تھا میں نے اس سے ریموٹ لیا چینل بدلا اور خبریں دیکھنے لگا۔ میرے پوتے نے میری طرف دیکھا اور کہا GRANDPA YOU HURT MY FEELINGS۔ پھر بلبیر سنگھ کہنے لگے اگر میں اپنے دادا سے ایسا کہتا تو وہ میری پٹائی کرتے مجھے تھپڑ مارتے اور ذلیل کرتے۔

بچے سچ بولتے ہیں لیکن پھر وہ جھوٹ بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ وہ کیسے؟ نفسیاتی طور پر یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر بچے سے گلاس ٹوٹ جائے اور بعد میں اس کی اماں پوچھے ’بیٹا گلاس کس نے توڑا ہے‘ تو اگر بچے کو یقین ہو کہ اس کے سچ کہنے پر اس کی اماں ہمدردی کا اظہار کریں گی تو وہ سچ بتائے گا لیکن اگر اسے ڈر ہو کہ اس کی اماں پٹائی کریں گی تو وہ کہے گا میں نے نہیں توڑا یا مجھے نہیں بتا کس نے توڑا ہے یا بلی نے توڑ دیا ہے۔ وہ پٹائی سے بچنے کے لیے جھوٹ بولے گا۔

ایک بچے کو جب اس کے والد کہتے ہیں کہ بیٹا باہر جا کر دیکھنا دروازے پر کون ہے اور وہ اگر میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دینا ’ابو گھر پر نہیں ہیں‘۔ اس طرح بچہ اپنے باپ سے جھوٹ بولنا سیکھتا ہے۔

یہاں تک تو بچوں کے جھوٹ بولنے کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ جہاں تک بڑوں کے جھوٹ بولنے کا تعلق ہے میری نگاہ میں اکثر انسان اس حد تک سچ بولتے ہیں جس حد تک ان کے خاندان اور معاشرے کے لوگ سچ کو قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

اگر ایک جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو وہ سب سے چھپ کر اس لیے ملتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ اگر انہوں نے سچ بتا دیا تو گھر اور خاندان میں زلزلہ آ جائے گا اور نیکی بدی گناہ و ثواب کے پٹارے کھل جائیں گے اور عین ممکن ہتے کوئی مولوی فتویٰ بھی دے دے۔ ان نوجوانوں کو پتہ ہے کہ ان سے سچ کی بھاری قیمت مانگی جائے گی اس لیے وہ ابن انشا کے مشورے پر عمل کرتے ہیں

 سچ اچھا ہر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔

میں نے جب اپنی سوانح عمری ’اپنا اپنا سچ‘ میں اپنی رومانوی زندگی کی تفاصیل لکھیں تو میری والدہ نے کہا ’سہیل بیٹا جو چیزیں چھپانے کی ہوتی ہیں وہ آپ نے چھاپ دی ہیں‘۔ میں نے جوانی میں سعادت حسن منٹو کو پڑھا تھا وہ کہتے تھے۔ ’میں شراب پیتا ہوں تو منہ میں الائچی نہیں ڈالتا کہ لوگوں کو بو نہ جائے۔ میں ویشیا کے پاس جاتا ہوں تو کمبل لپیٹ کر نہیں جاتا کہ کسی کو پتہ نہ چلے‘۔ منٹو نے ہمیں سکھایا کہ ایک منافق معاشرے میں لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں اوروں سے بھی اور خود سے بھی۔

چونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے اس لیے اسے زیادہ لوگ ہضم نہیں کر سکتے۔

اگر انسان سچ بولتا ہے تو اس کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ قیمت کیا ہے؟ میں اپنی ذاتی زندگی سے ایک مثال دیتا ہوں۔ میری دوست اور رفیقِ کار بے ٹی ڈیوس نے ایک شام مجھے کہا کہ میری پیاری دوست ڈیبی اور ان کا شوہر ڈیرک نیوفن لینڈ سے ٹورانٹو آئے ہوئے ہیں اور ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور ملیں گے۔ چنانچہ ہم نے انہیں ایک اٹالین رسٹورانٹ میں ڈنر پر بلایا۔ ڈنر کے دوران بے ٹی اور ڈیبی بات کر رہے تھے اور میں اور ڈیرک تبادلہِ خیال کر رہے تھے۔ گفتگو کے دوران ڈیرک نے مجھ سے پوچھا

’کیا آپ خدا کو مانتے ہیں؟‘

پہلے میں نے سوچا جھوٹ بول دوں پھر سوچا کہ دہریے کو جھٹ نہیں بولنا چاہیے

میں نے کہا ’نہیں‘

میرا ’نہیں‘ سننا تھا کہ ان کا رنگ زرد ہو گیا۔ وہ اتنا پریشان ہوئے کہ اٹھ کر رسٹورانٹ سے باہر چلے گئے دس منٹ تک سگریٹ پیتے رہے پھر واپس آ کر کہنے لگا ’میری عمر43 برس ہے میں نے زندگی میں کسی دہریے سے ملاقات نہیں کی‘

۔ میں نے کہا ’لیکن اب آپ ملاقات کر رہے ہیں‘

ڈیرک کہنے لگے آپ تو ایک نیک انسان ہیں ہمدرد بھی ہیں مریضوں کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ میرا خیال تھا دہریے بداخلاق اور بے ضمیر ہوتے ہیں۔

ڈیرک چند ہفتوں کے بعد پھر مجھ سے ملنے آئے اور بہت سے سوال لے کر آئے۔ ہماری تفصیلی ملاقات کے بعد وہ مجھ سے اتنا خوش ہوئے کہ انہوں نے میرے لیے ایک محبت بھری نظم بھی لکھی۔

اگر ہم سچ اور جھوٹ کو اخلاقی حوالے سے دیکھنے کی بجائے نفسیاتی حوالے سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ جھوٹ بولنے کا ایک تخلیقی پہلو بھی ہے۔اس کا تعلق انسان کی ذہانت سے بھی ہے۔ میں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک نفسیاتی تحقیق کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔

ماہرینِ نفسیات نے بیس بچے لیے اور انہیں ایک خوبصورت سے گھر میں لے لگے۔ وہاں انہوں نے بچوں سے پوچھا

آپ کا پسندیدہ SNACK کیا ہے؟

بعض نے کہا بسکٹ بعض نے کہا چوکلیٹ۔ ماہرینِ نفسیات نے ہر بچے کو اس کا پسندیدہ سنیک دے دیا اور کہا کہ اسے آدھ گھنٹے تک نہ کھانا۔ پھر وہ بچوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں

پہلے گروپ کے بچوں نے سنیک کھا لیا تھا اور انہوں نے سچ بولا کہ ہم صبر نہ کر سکے اور سنیک کھا لیا

دوسرے گروپ کے بچوں نے صبر کا اظہار کیا اور سنیک نہ کھایا۔ ماہرین نے انہیں وہ سنیک بطور تحفہ دیا کیونکہ انہوں نے ریسرچ میں مدد کی تھی

تیسرا گروپ ان بچوں کا تھا جنہوں نے سنیک تو کھا لیا تھا لیکن انہوں نے جھوٹ بولا کہ سنیک کو بلی کھا گئی یا وہ ٹوئلٹ میں گر گیا یا اسے کسی اور بچے نے کھا لیا۔

جب ماہرین نے ان بچوں کے نفسیاتی ٹیسٹ کیے تو پتہ چلا کہ جھوٹ بولنے والے بچے باقی بچوں سے زیادہ ذہین بھی تھے اور تخلیقی ذہن بھی رکھتے تھے کیونکہ انہیں جھوٹ بولنے کے لیے ایک کہانی گھڑنی پڑی۔ کہانی گڑھنا ایک تخلیقی عمل ہے۔

اسی لیے ہم سب جانتے ہیں کہ شاعر‘ ادیب‘ افسانہ نگار اور ناول نگار چند جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں اور ہم سب کو محضوض کرتے ہیں۔ انہی کہانیوں پر فلمیں بنتی ہیں۔ لیکن وہ ادیب ان کہانیوں سے ایک سماجی تبدیلی لاتے ہیں۔ کافکا کہتے تھے IN FICTION WE CREATE A LIE TO TELL A TRUTH

جو بچے جھوٹ بولتے ہیں انہیں ایک خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اس جھوٹ کا مثبت اور تعمیری استعمال کر سکیں۔ اگر ان کے والدین اور اساتذہ انہیں تخلیقی ذہن کا مثبت استعمال نہیں سکھائیں گے تو وہ اس کا پھر منفی اور تخریبی استعمال کریں گے۔

جھوٹ بولنے والوں کی ایک وہ قسم ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ایسے لوگ PSYCHOPATH اور PATHOLOGICAL LIAR  ہوتے ہیں۔ یہ ذہنی مریض ہوتے ہیں اور دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ ایسے سائیکوپیتھ بعض دفعہ تو جرائم پیشہ بن جاتے ہیں لیکن بعض دفعہ وہ مشہور ڈاکٹر وکیل بزنس مین ہونے کے علاوہ مذپبی اور سیاسی لیڈر بھی بن جاتے ہیں اور معاشرے میں شر پھیلاتے ہیں۔ یہ EVIL GENIUS ہیں جو سادہ لوح عوام کو ورغلاتے ہیں اور انہیں شدت پسندی‘تشدد پسندی اور دہشت پسندی پر اکساتے ہیں اور انسانیت کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں سے محتاط رہنا چاہیے کیونکہ یہ انسانیت کے مستقبل کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔

میری نگاہ میں سب سے زیادہ خطرناک جھوٹ وہ ہیں جو خدا اور مذہب کے مقدس نام پر بولے جاتے ہیں ایسے لوگ CULT LEADERS  بن جاتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔۔۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail