ٹرمپ کی آج کی تقریر سے نظر آتے شعلے


مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات کو مسلسل تکلیف پہنچانے والے چار اہم ترین تاریخی واقعات ہوچکے ہیں جن کے بارے میں حساس لوگ سوچتے ہیں تو بوکھلا جاتے ہیں۔ ان ہی واقعات سے نبردآزما ہونے کےلئے چند لوگوں نے ”بنیاد پرست“ ہوکر ”عظمتِ رفتہ“کو بحال کرنا چاہا جبکہ سرسید احمد خان جیسے چند بالغ نظر حالات سے باوقار سمجھوتے کرنے کو مجبور ہوگئے۔ ان کی دکھائی راہ پر چلتے ہوئے بھی اقبال غرناطہ کی مسجد میں چلے گئے تھے اور وہاں دو نفل ادا کرکے اپنی رو ح پر لگے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی تھی۔

پہلا واقعہ 1256ءمیں ہوا سقوطِ بغداد تھا۔ اس کے تقریباََ200سال بعد 1492میں اندلس برباد ہوا۔ 1857میں مغل سلطنت کا خاتمہ اور بالآخر 1919میں خلافتِ عثمانیہ کا انہدام۔ عربوں نے اس کے بعد 1967میں اسرائیل کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست بھگتی اور پاکستانیوں نے 1971میں سقوطِ ڈھاکہ دیکھا۔ سوویت یونین کا دسمبر1979میں افغانستان پر قبضہ اور اس کے خلاف برپا ہوئے ”جہاد“ نے جو جذبات ابھارے انہوں نے نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر پھیلے مسلمانوں کو آج بھی پریشان و بے حال بنارکھا ہے۔

میری ناقص رائے میں 2017کا 6دسمبر بھی مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات کو طویل المدتی زک پہنچانے والا ایک دن ثابت ہوگا۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں وہ پاکستان میں اس دن کا آغاز ہے۔ سات سمندر پار واشنگٹن میں البتہ اس وقت رات گہری ہوچکی ہوگی۔ وہاں سورج نکلنے کے بعد امریکی صدر نے ایک ”تاریخی“ تقریر کی تیاری کرنا ہے۔ اپنے ملک کی دوپہر کے ایک بجے وہ یہ تقریر پڑھنا شروع ہوجائے گا۔ اس کے بعد جو ہونا ہے اسے تصور کرنا کم از کم میرے لئے ناممکن ہے۔ خیر کی خبر لیکن ہر گز نہیں ہے۔

مسلمانوں سے اندھی نفرت کی بنیاد پر بھڑکائے جذبات کی بدولت امریکہ کا منتخب ہوا صدر ڈونلڈٹرمپ میرا یہ کالم چھپنے تک یہ اعلان کرچکا ہوگا کہ اس کا ملک اب یروشلم کو باقاعدہ طورپر اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کررہا ہے۔ اسرائیل میں موجود امریکی سفارت خانہ فوری طورپر اس شہر منتقل نہ ہوا تو بھی یروشلم پر اسرائیل کی کامل بالادستی کا دنیا کی واحد سپرطاقت کی جانب سے اثبات سقوطِ بغداد جیسا ہی ایک واقعہ ہوگا۔ ترکی اور اردن جیسے ممالک کے سربراہان ہی نہیں بلکہ فرانس ایسا طاقت ور یورپی ملک بھی کہ جس کی صلیبی جنگوں کے حوالے سے ”مسلم دشمنی“ کی ایک تاریخ رہی ہے، ٹرمپ کو متنبہکیے چلے جارہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے بازرہے۔ امریکی صدر کو روکنا مگر ناممکن ہوچکاہے۔

یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ تیل کی بدولت اور بے تحاشہ آبادی کی وجہ سے اسرائیل کے مقابلے میں سمندر کی طرح عظیم تر نظر آنے والے عرب اور مسلمان ممالک یکجا ویکسو ہوکر یروشلم کو اسرائیل کے قبضے سے بازیاب نہ کرواپائے۔ شاید ان کے لئے ممکن ہی نہیں۔ 1967سے مگر ہم سب کو اجتماعی طورپر یہ گماں رہا ہے کہ ”عالمی ضمیر“ نامی کوئی شے کسی نہ کسی روز یہ دریافت کر ہی لے گی کہ فلسطینی بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان کی ایک قومی تاریخ ہے۔ یہودیوں کی طرح انہیں بھی اپنے لئے ایک خود مختار ملک حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ یروشلم ان کی آزاد ریاست کا دارالحکومت نہ بھی بن پائے تو کم از کم اس شہر کے مسلم اکثریتی حصے پر ان کا اجارہ تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ ہمارا قبلہ اوّل۔ بیت المقدس۔ وہیں موجود ہے۔

مسلمانوں اور یہودیوں کے علاوہ دنیا بھر کی مسیحی برادری کا بھی اس شہر سے گہرا جذباتی رشتہ ہے۔ بہتر اور معقول راستہ تو یہی تھا کہ یروشلم کو ”متنازعہ رقبے“ کے بجائے ایک ایسے شہر کی صورت فراہم کردی جاتی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تعلق کے دعوے دار ادیان کے تمام پیروکاروں کے لئے اپنے اپنے روحانی مراکز تک پہنچنے کا حق تسلیم کیا جاتا۔ اس شہر کو اس کی تاریخ کی طرح تینوں مذاہب کا مشترکہ شہر مان لیا جاتا۔ اسرائیل مگر اس شہر کو فقط یہودیوں کا شہر بنانے پر مصر رہا اور اب ٹرمپ کا امریکہ اس ضمن میں اس کا سہولت کار بننے پر آمادہ ہوگیا ہے۔

مجھے ہرگز یہ گماں نہیں کہ امریکی عوام میں سے کوئی طاقت ور گروہ یروشلم کی وجہ سے ٹرمپ کے خلاف اسی شدت کے ساتھ نمودار ہوگا جیسے1970ءکی دہائی میں ویت نام جنگ کے خلاف مزاحمت دیکھنے کو ملی تھی۔ یورپی ممالک بھی ٹرمپ کے فیصلے کو ہضم کرہی لیں گے۔ اصل طوفان مشرقِ وسطیٰ میں برپا ہونا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد مصر، اردن اور شام جیسے ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگ کی تیاری کے بہانے اپنے شہریوں پر بدترین آمریت مسلطکیے رکھی۔ 1973کے بعد مصر اور اردن کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی وجہ سے فلسطینی حقوق کی بحالی کے دعوے دار نہ رہے۔ شام مگر ڈٹا رہا۔ لبنان میں حزب اللہ نمودار ہوگئی۔ فلسطین میں حماس اُٹھی۔ صدام حسین جیسے آمر بھی اسرائیل کے خلاف بڑھک بازی میں مصروف رہے۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت نے سعودی عرب سے ہر طرح کی سرپرستی کا تقاضہ کیا۔

مجھے خدشہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اندرونی خلفشار سے بدحال ہوئے ا فراد ٹرمپ کے بدھ کے روز ہوئے اعلان کے بعد اپنی حکومتوں کی بے بسی کو مزید نفرت انگیز جذبات کے ساتھ لیں گے۔ ان کی اجتماعی بزدلی کو سزا دینے کے عہد ہوں گے۔ مزید ہیجان وخلفشار پھیلے گا۔ دہشت گردی کے بے تحاشہ واقعات ہوں گے۔ ان واقعات کی بناءپر اسلام کو ایک بار پھر”دہشت گرد“ مذہب بناکر پیش کرنے کے ہزار ہا جواز فراہم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ سب سے زیادہ بے چینی مگر ہمیں شاید سعودی عرب میں دیکھنے کو ملے۔

ٹرمپ نے اپنے یہودی داماد کشنر کے ذریعے شاہزادہ محمد بن سلمان کو ”اپنا“ بنالیا ہے۔ یہ ”دوستی“ درحقیقت ”ہوئے تم دوست جس کے۔ “والا قصہ ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ایک معتبر کالم نگار ٹامس فریڈمین کے ذریعے MBSمشہور ہوئے شاہزادے کو دورِ حاضر کا ”روشن خیال“ بناکر پیش کیا جاچکا ہے۔ بہت ہی سفاک مہارت کے ساتھ عرب عوام میں یہ ”خبر“ بھی پھیلادی گئی ہے کہ چند ہفتے قبل MBSنے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ اکیلے میں ایک ملاقات کی تھی اور اسے اس بات پر شدت سے قائل کرنا چاہا کہ وہ یروشلم پر اسرائیل کی کامل بالادستی کو قبول کرنے کو تیار ہوجائے ورنہ۔

سعودی حکومت نے اس تاثر کو رد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ انگریزی والا Damageمگر ہوچکا ہے۔ سادہ لوح عرب اور مسلمانوں کی اکثریت کو اس بات پر قائل کرنا اب ناممکن ہوگا کہ یروشلم پر اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ٹرمپ نے سعودی عرب سے Clearanceلئے بغیر کیا ہے۔ بہت مہارت سے ٹرمپ /MBSدوستی کے بارے میں پھیلایا تاثر بالآخر کیا گل کھلائے گا اسے سوچ کر خوف آتا ہے۔ مزید پریشانی اس یقین کی وجہ سے بھی ہورہی ہے کہ اپنی بدھ کی دوپہر ہوئی تقریر کے ذریعے ٹرمپ جو آگ بھڑکائے گا اس کے شعلوں سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔

بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).