خود کشی کا کھیل


کچھ لوگ اسے ’’سخت گیر شکنجہ‘‘ کہہ رہے ہیں۔ کچھ اسے کڑاپھندا قرار دیتے ہیں۔ کچھ دیگر اسے ہڈیاں چٹخا دینے والے بیلن کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ آپ جو بھی کہہ لیں، اس سے بنیادی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا تزویراتی ماحول تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کی عالمی ساکھ، اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا مستقبل اور اس کی جغرافیائی سرحدیں شدید خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔

چونکہ یہ تزویراتی انحطاط داخلی طور پر بپا فساد کی دھند میں کہیں کھو چکا ، اس لئے یہ قومی خبرنامے کا حصہ نہیں ہے۔ افق پر منڈلانے والے ان خطرات سے آگاہ افراد لب کشائی نہیں کررہے ، لہذا کسی عوامی فورم پر ان پر بحث ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ قوم اس کھائی سے بے خبر ہے جس کے کنارے وہ الٹے قدموں آن پہنچی ہے۔ بنیادی خطرے کا تعلق واشنگٹن کی ڈرون اور ڈرٹی بم کے استعمال کی دھمکی سے ہے۔ رواں سال کے وسط میں اُس وقت کے وزیر ِاعظم پاکستان کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے اس دھمکی کی اطلاع پہنچا دی تھی کہ وائٹ ہائوس پاکستان کے اندر کسی ممکنہ حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہوسکتی تھی؟ حقانی گروہ مغوی امریکی اور کینیڈین فیملی (جسے اکتوبر میں پاکستانی سرزمین پر ہونے والے ایک متنازع آپریشن کے ذریعے رہا کرا لیا گیا )کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس فیملی کی رہائی کے بعد سے اس دھمکی کا اعادہ نہیںکیا گیا لیکن اسے واپس بھی نہیں لیا گیا ہے۔ درحقیقت اس دھمکی کو شکایات کی ایک طویل فہرست کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے جنہیں مطالبات کی صورت پیش کیا جاتا ہے۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ یہ مطالبات ایک طے شدہ ایجنڈے کے مطابق اسلام آبادسے دھونس یا دھمکی کے ذریعے اپنی بات منوانے کا ایک طریقہ ہیں۔
نئے مطالبات کا فوکس لشکر ِ جھنگوی،جماعت الدعوۃ اوردیگر انتہا پسند گروہوں پر ہے۔ الزام ہے کہ یہ گروہ پاکستانی سرزمین سے افغانستان، انڈیا اور مقبوضہ کشمیر میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ مطالبات پاکستان کو افغانستان اور انڈیا میں ہونے والی دہشت گردی کے مرکز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کو ایک بریک تھرو ملا جب امریکہ نے سات سو ملین ڈالر کی امداد کے لئے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی شرط سے الگ کرکے پاکستان کو کچھ رعایت دے دی۔ مشرقی سرحد پر پائی جانے والی تشویش کو مغربی سرحد کی تشویش سے الگ کرنے سے پاکستان پر امریکی مطالبات کا بوجھ کچھ کم ہوگیا۔ اس نے پاکستان کو موقع فراہم کردیا کہ وہ دونوں گروہوں کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف حکمت عملی بنا سکے۔ تاہم یہ ’’رعایت ‘‘ انوکھی نہیں ہے۔ 2015 ء میں ایسے ہی ایک بل نے پاکستان کو گروہوں میں امتیاز کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اس سے امریکی پالیسی کا دبائو کم نہ ہوا۔ ڈرون حملے بدستور جاری رہے ، اور اپنی سرزمین پر پاکستان کی کارروائی کو ہمیشہ ’’ناکافی ‘‘ قرار دیا گیا۔

ٹرمپ انتظامیہ دھمکیاں دینے کی راہ پر بہت آگے تک جاچکی ہے۔یہ میز پر پستول رکھ کر دوٹوک انداز میں، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتی ہے۔ اس اگست میں افغانستان میں دنیا کے سب سےبڑے غیر جوہری بم کا گرایا جانا ٹرمپ کی ڈیفنس پالیسی کنٹرول کرنے والے ریٹائرڈ جنرلوں کا جارحانہ پیغام تھا۔ اس ’’اعلامیے ‘‘ کا مقام پاکستان کی سرحد کے قریب ، افغان صوبہ ننگرہار تھا۔ اس دھماکے کی آواز اسلام آباد کے کانوں تک پہنچانا مقصود تھی۔ اس کی گونج کہہ رہی تھی ۔۔۔’’یہ توٹریلر ہے ، اصل ہدف تم ہو۔‘‘
اس کے بعد پاکستان نے ایک درجن کے قریب اہم ممالک کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر سفارتی کوششوں کے ذریعے امریکی مہم جوئی کے خطرے کو ٹالا۔ یہ ایک عارضی ریلیف تھا، جیسا کہ گزشتہ روز امریکہ کے سیکرٹری دفاع، جنرل (ر) جیمز میٹس کے پاکستان کے دورے سے ثابت ہوا۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی سرزمین سے کارروائیاں کرنے والے گروہوں سے نمٹنے کی کوششوں کو دگنا کردے۔ اس کے بعد جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل (ر) جوزف ڈنفورڈ کا دورہ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے حوالے سے اپنے اقدامات کے خدوخال طے کرچکا ہے۔ ان اقدامات میں مزید دھمکیاں اور پاکستانی سرزمین پر ممکنہ حملے شامل ہیں۔ بظاہر سنائی دینے والے دوستانہ کلمات اور خیر سگالی اور عمدہ رویے کا اظہار صرف میڈیا کو دکھانے کے لئے ہے۔
پاکستان کے دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں اور حکومتی نمائندوں کو یقین ہے کہ امریکہ کا روابط قائم کرنا ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس کی حقیقی حکمت عملی ، جو کہ پاکستان کو گھیر کر ایک کونے میں لے آنا ہے ، کا اظہار اس کی سائوتھ ایشیا پالیسی سے پہلے ہی ہوچکا ہے۔ اس پالیسی کیلئے امریکہ نے اسلام آباد سے کوئی بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے ایشو پر واشنگٹن پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے براہ راست اور واضح خطرہ سامنے رکھتا ہے، اور اس ضمن میں اپنے ارادے چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس بات کا حقیقی امکان موجود ہے کہ جب واشنگٹن کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان پر حملہ آور ہو تو اسے زیادہ تر دنیا کی حمایت حاصل ہو۔ اس حملے کے داخلی طور پر تباہ کن اثرات مرتب ہوںگے۔

قومی سلامتی کو لاحق خطرات صرف یہیں تک ہی محدود نہیں۔ پاکستان کو ممکنہ طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والی تاریخی جنگ کا حصہ بنانے کی بھرپور تیاری کی جارہی ہے۔ دکھائی یہی دیتا ہے کہ اس جنگ کو غیر ملکی فنڈنگ سے قائم کردہ پراکسی دستوں کے ذریعے بیرونی ممالک میں لڑا جائے گا۔ اس کی وجہ سے ان ممالک کی مسلکی ہم آہنگی میں مسائل پیدا ہوں گے۔ موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ ہم سعودی اتحاد سے باہر نکلنے کی تاب وتواں نہیں رکھتے۔ اس الائنس کی قیادت جنرل (ر) راحیل شریف کررہے ہیں۔ اس وقت ہماری نظروں کے سامنے مسلکی کشیدگی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس کے شدت پکڑنے سے ملکی استحکام کمزور تر ہوتا جائے گا۔
بات یہیں تک ہی محدود نہیں۔ ہم بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا بھی حصہ بننے جارہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ایسی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ سی پیک میں کوئی سوال اٹھائے بغیر شریک ہونے کے بعد کیا واشنگٹن، دہلی اور کابل کے جارحانہ اشتراک کے خلاف ہمارے سر پر بیجنگ کی حفاظتی چھتری موجود ہوگی یا نہیں۔ چین ہمارا پارٹنر ضرور ہے لیکن اتحادی نہیں۔ سی پیک ایک کمرشل معاہدہ ہے نہ کہ دفاعی معاہدہ۔ تو اس صورت میں ہم دنیا پر غلبہ پانے کے لئے چین کی واشنگٹن کے ساتھ لڑی جانے والی اس طویل جنگ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس میں دوسری طرف دہلی ، ٹوکیو اور کابل موجود ہوں گے؟
اس زہرناک ماحول میں ملک میں جاری نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کو بھی شامل کرلیں تو اُن تباہ کن قوتوں کی تصویر واضح دکھائی دینے لگے گی جو ہمارے درودیوار کو منہدم کرکے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ حالیہ واقعات ان کاشوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ دنیا کے موثر ترین انٹیلی جنس نیٹ ورکس ان کی پشت پناہی کے لئے موجود ہیں۔ اب ایشو صرف انسداد دہشت گردی کا نہیں ہے۔ اس کا مقصد پاکستان میں افراتفری اور انتشار پھیلا کر اس کے جوہری اثاثے ختم کرنا ہے۔
تاریخ کا فہم رکھنے والا کوئی شخص بھی اس زہرناک آمیزے کو انتہائی سنجیدگی سے لے گا کیونکہ ہم سے کہیں زیادہ طاقت ور اور مستحکم ممالک کو اس سے کہیں کم خطرات نے برباد کرکے رکھ دیا، جن کا ہمیں سامنا ہے۔ انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں معقولیت کی انتہائی اشد ضرورت تھی ، یہ ہمارے طاقت کے دریچوں میں عنقا ہوچکی ہے۔ گزشتہ چند ہفتے ایک گروہ کی چالبازیوں کے گواہ رہے جسے ملک میں پروان چڑھا کر اس پر مسلط کردیا گیا ہے۔ ان واقعات نے دنیا کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کا مزید جواز فراہم کردیا ہے۔
ٹھیک جس وقت ہمیں بہترین اقدامات کی ضرورت تھی، ہمارے ہاں بدترین جنونیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جس وقت اسلام آباد کو مستحکم اور فعال دکھائی دینا چاہیے تھا، اس پر تشنج کی کیفیت طاری ہے۔ ضروری تھا کہ اس موقع پردنیا کو اتحاد اور داخلی نظم کاپیغام دیتے لیکن ہم بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر الزامات کی سنگ باری کرتے ہوئے اپنے اندر تفریق کی گہری ہوتی ہوئی لکیروں کو اجاگر کررہے ہیں۔ جب ہمارے دشمن ہمیں جنونی قاتلوں کے طور پر پیش کررہے ہیں، ہم اپنی پوری کوشش سے اس افسوس ناک تاثر کو تقویت دے رہے ہیں۔

اس وقت پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں کی میزپر حقیقی مسائل کی بجائے اناپسندی اوردوسرے کو نقصان پہنچا کر فائدہ اٹھانے کی فرومایہ سیاست کے انبار لگے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ ارباب ِ اختیارکو ہمہ وقت کوئی نہ کوئی بے چینی لگی رہتی ہے۔ جب پوچھیں کہ کیا چیز اُنہیں سکون نہیں لینے دیتی تو پتہ چلتا ہے اُنہیں مسائل حل کرنے کی ’لت ‘ پڑی ہوئی ہے۔ اس لیلیٰ کے جنون میں وہ مسائل پیدا کرتے ہیں تاکہ اُنہیں سلجھاکر وصال ِ خوباں کے مزے لوٹ سکیں۔ لیکن کتھا یہ آن پڑی کہ اب مسائل کاخنجر شہ رنگ پر دھرا ہے ، کھلواڑ کرنے کی گنجائش نہیں۔ اب ملکی حالات اس مشغلے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ملک کی سرحدوں پر خطرات نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ ان کا سامنا کرنا ہے یا ملک میں سیاسی انجینئرنگ کا تماشا لگانا ہے ؟ یہ دونوں کام بیک وقت نہیں ہوسکتے۔ پاکستان یا سیاسی ایجنڈوں میں سے کسی ایک کوتو ترجیح دینی ہو گی۔ کسی ایک کا انتخاب کرنے سے دوسرے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ انتخاب بہت واضح ہے۔ اس کی تفہیم بھی مشکل نہیں ، لیکن بدقسمتی سے درست انتخاب کرنے کی عقل کا قحط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).