جنید جمشید کی بات ہی الگ تھی


یہ 1986 کا زمانہ تھا، جنید جمشید یونیورسٹیز میں زیرِ تعلیم تھے اور ساتھ ہی میوزک کا شوق پورے کرنے کے لئے حال ہی میں ”وائٹل سائنز“ کے نام سے اپنا میوزک بینڈ بنایا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں یونیورسٹی اور مختلف فنکشنز کے ساتھ وہ میوزک کنسرٹس میں بھی پرفارمنس دے کر تیزی سے مقبولیت کا زینہ چڑھ رہے تھے۔ اگرچہ اس بینڈ کا ہر رکن اپنی جگہ با کمال تھامگر جنید جمشید کی بات ہی الگ تھی۔ وہ جب پاپ میوزک کی تیز دھنوں پر لہک لہک کر گایا کرتا تھا تو شائقین جیسے اس کی ہر ادا پر جھوم اٹھتے تھے۔

ان کے کیریئر میں نیا موڑاُس وقت آیا جب پی ٹی وی کے کریٹو ڈائریکٹر شعیب منصور کی نظر ان پر پڑی، شعیب منصور کو پاکستان کا مسٹر پرفیکٹ سمجھا جاتا ہے جس نے مٹی کو بھی ہاتھ لگا یا تو وہ سونا بن گئی۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ شعیب منصور کی ڈائریکشن اور وائٹل سائنسز جیسا با کمال بینڈ ہواور ایک شاہکار وجود میں نہ آتا۔ جونہی ان کا گانا ” دل دل پاکستان “ پی ٹی وی پر نشر ہوا، ہر کسی کی زبان پر بس یہی ایک ملی نغمہ تھا۔ جلد اس گروپ نے اپنا پہلا سولو البم ”وائٹل سائنز ون“ اور کچھ عرصے بعد اس کا سیکنڈ ورژن ریلیز کیا پھر انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

لیکن جنید کے اندر چھپا ایک حساس انسان اور لاحاصل کی جستجو اُسے کہیں ٹک کر بیٹھنے ہی نہیں دیتی تھی۔ اکثر راتوں کو گھر کے ٹیرس یا لان میں وہ گھنٹوں سوچوں میں غرق رہتا، کبھی بے چینی بہت بڑھ جاتی تو گٹار لے کر نئی دھنیں بنانے کی کوشش کرتا مگر سکون کا کوئی سرا پانے سے فی الحال وہ قاصر تھا۔ سو اِن بے کیف شاموں اور بے چین راتوں کو کوئی عنوان دینے کے لئے اس نے شادی کا فیصلہ کیا۔

شادی کی بعد زندگی جیسے ایک لگی بندھی ڈگر پر رواں ہو گئی مگر ان کابینڈ اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور رنجشوں کا شکار تھا۔ آپس کے اختلافات اتنے بڑھے کہ سلمان اور روحیل نے علیحدگی اختیار کرلی۔ قسمت جنید کے لئے کچھ اور در وا کرنے والی تھی مگر وہ اُن سے بے خبر اپنے سولو کیریئر کا آغاز کر چکاتھا۔ “اس راہ پر“ اور پھر ” دل کی بات“ جیسے البمز نے ثابت کیا کہ جنید کی صلاحیتیں وائٹل سائنز گروپ کی محتاج نہیں تھیں۔

وہ لاکھوں دلوں پر راج کرنے والا، دولت اور شہرت جس کے گھر کی باندی تھی، دراصل وہ بد نصیب شہزادہ تھا جو سکون کی متائے حیات کہیں گنوا بیٹھا تھا اور اب اس کیکھوج اور جستجو ہی جنید کی زندگی کا ماحصل تھی۔ مگر وہ نادان بے خبر تھا کہ تلاش کا یہ سفر بہت پر خطر اور کانٹوں بھرا ہے۔ آسائشوں اور نازو نعم میں پلا بڑھا۔ ماڈرن سٹائلش اور الائٹ لائف سٹائل کا دلدادہ جنید لاعلم تھا کہ جن راہوں کا مسافر وہ ہونے چلا ہے وہاں منزل کو وہی پہنچتے ہیں جن میں راہ کی کٹھنائیاں جھیلنے کا حوصلہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تلاش و جستجو کا یہی جنون 1997 میں اس جیسے مشہور پاپ سٹار کو ایک تبلیغی اجتماع میں لے گیا۔ جو بلاشبہ جنید کی زندگی کا ایک نیا موڑثابت ہوا۔

اس نتیجے پر پہنچنے میں اسے کم و بیش چھ برس کا عرصہ لگا کہ جس ڈگر پر وہ آج تک چلتا آیا تھا وہ محض فریبِ نظر تھا۔ سو 2003 میں جنید نے اعلانیہ میوزک اور الائٹ لائف سٹائل کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے لئے سچے اور سوہنے مذہب اسلام کی وادئی پرخار کا راستہ چن لیا۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا اس کیبیوی عائشہ کے علاوہ پوری فیملی، دوستوں اور عزیز و اقربا ء اور کروڑوں کی تعداد میں موجود اس کے مداحوں کے لئے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ آیا جنید اپنے لئے جن راہوں کا انتخاب کر رہاہے وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ ان پر کاربند بھی رہ سکے گا یا نہیں۔ عمومی خیال یہی تھا کہ چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ دو تین سال کا جنون ہے۔ وہ ایک نیا ایڈونچر کرنے کے موڈ میں ہے اور جلد یا بدیر وہ اسی پرانے طرز ِزندگی کی طرف لوٹ آئے گا جو اس کے خون میں شامل ہو چکا تھا۔

مگر وقت نے دیکھا کہ جنید نا مجنون تھا نا دیوانہ۔ وہ چائے کی پیالی میں اٹھنے والا کوئی طوفان نہیں تھا جو جلد ٹھنڈا پڑ جاتا۔ یہ ایک انقلاب تھا جس کا سرچشمہ اسلام کی سنہری تعلیمات اورحضور ِپاکﷺ کی ذاتِ عظیم تھی۔ رف ٹف جینز کی جگہ پاکیزہ کرتہ شلوار نے لی۔ ہاتھوں میں گٹار کی جگہ تسبیح نظر آنے لگی۔ سڈنی شیلڈن کے ناولز کا دلداہ حدیث، فقہ اور قرآنی تفاسیر کی ضخیم کتابوں میں زندگی کی الجھی ڈوریوں کے سرے ڈھونڈنے لگا۔ جب سلمان، فاخر اور فخرِ عالم جیسے اس کے دیرینہ ساتھی بیرونِ ملک کنسرٹس میں دھواں دار پرفارمنس دے کر لاکھوں میں کھیل رہے ہوتے تھے تو جنید جمشید ایسے وقتوں میں رائےونڈ، ملتان یا سکھر میں تبلیغی اجتماعات میں پایا جاتا تھا۔

اللہ پاک نے جنید کے گارمنٹس بزنس میں اتنی برکت ڈالی کہ آج جے جے۔ پاکستان بھر کی بہترین برانڈز میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ شہرت جسے جنید نے علانیہ ٹھوکر مار کر گمنامی کی زندگی اختیار کی تھی اب بھی اُس کے تعاقب میں تھی۔ مگر اِس دفعہ اس کی وجہ شہرت دل کے تاروں کو چھو لینے والی اس کینعتیں اور پر مغز تقاریر بنیں۔ دنیا اُس وقت حیران رہ گئی جب لہک لہک کر “گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نا پرانا“ گانے والے جنید کو عجز و انکاری کا پیکر بنا اُس نے ” میرے نبی پیارے نبی ﷺ“ اور “جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے“۔ پڑھتے سنا۔

جوں جوں نعت خواں اور مذہبی سکالر کی حیثیت سے جنید جمشید کی مقبولیت بڑھتی گئی اس کے حاسدین کی تعداد میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔ کبھی عامر لیاقت جیسے گھاگ کھلاڑی اسے مذہبی سیاست کے اکھاڑے میں دھکیلتے تو کبھی کوئی اور عالمِ دین اس پر کفر کے فتوے جاری کر دیتا۔ بے شک وہ طفلِ مکتب تھا مگر اُس کی ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیسا مکتب ہے جہاں غلطی پرڈانٹ پھٹکار کر سرزنش کرنے کے بجائے کافر قراردیکر واپسی کے سارے راستے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے جاتے ہیں۔ طعنوں طشنوں اور گالیوں نے اس کے دل ہی نہیں روح تک کو گھائل کر ڈالا، آنکھیں خون کے آنسو روتی رہیں۔ جب وہ نام کا مسلمان بھی نہ تھا، سٹیج پر تھرک تھرک کر دنیا کا دل لبھایا کرتا تھا تب کبھی وہ اسلام کے اِن ٹھیکیداروں کے لئے ملعون نہیں تھا، لیکن جب گمراہی کی زندگی کو خیر باد کہہ کر حق کی روشنیوں میں راستہ تلاشنے لگا تھا تو ہر دوسرے قدم پر اسے کوئی نہ کوئی سنگسار کرنے والا مل جاتا تھا۔

وہ زندگی جسے الوداع کہے جنید کو ایک عشرے سے زیادہ ہونے کو آیا تھا گناہوں، لغزشوں اور کوتاہیوں کا مرکب تھی۔ مگر تب کبھی اسے سرِ راہ روک کر ذلت کے طمانچے نہیں مارے گئے تھے۔ بے شک وہ گناہگار تھا، خطاکار تھا۔ اس کی پور پور گناہوں کی دلدل میں ڈوبی ہوئی تھی مگر اس دلدل سے نکلنے کے لئے وہ جب بھی ہاتھ بڑھاتا تھا تو انسان کے بہروپ میں چھپا بیٹھا کوئی شیطان اسے مزید گہرائی میں دکھیل دیتا تھا۔ وہ گناہ گار تھا، خطاکار تھا۔ مگر وہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنی اور ہر مسلمان کی بخشش کا طلب گار بھی تھا۔ بلاشبہ جنید جمشید کی داستانِ حیات، غموں کی کڑی دھوپ اور سکھ کی میٹھی چھاؤں میں ایک مختصر مگر یادگار سفر تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).