بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

وہ ایک جوان رعنا جس نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا تو ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن گیا، پاپ سنگنگ کا بے تاج بادشاہ، جب قومی نغمہ گایا تو ہر لب گنگنا اٹھا دل دل پاکستان اور جب دل کی گواہی پر چلا تو معروف مبلغ اور نعت خوان بن کر لوگوں کے دل و دماغ میں جگہ بنا بیٹھا۔ جب اس دنیا سے حادثاتی موت کی وجہ سے رخت سفر باندھا ہزاروں لاکھوں چاہنے والوں کی آنکھوں میں آنسو دے گیا۔

جنید جمشید دلوں کو فتح کرنے کا ہنر جانتا تھا وہ شیریں گفتار ایسا کہ گفتگو کرتا تو سامنے والا سوال کرنا بھول جاتا آج اس کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہو گیا۔ ہم اس حادثے کا کیسے بھول سکتے ہیں جب میڈیا پر خبر چل رہی تھی کہ چترال سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 661 حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوا گئی۔ جس میں جنید جمشید کے ساتھ ان کی اہلیہ سوار تھیں ان کے ساتھ مزید سینتالیس افراد لقمہ اجل بن کر شہید کہلائے، چونکہ تمام لوگ جل کر کوئلہ ہو گئے تھے تو ان کے پیاروں کے ڈی این اے سے پہچان کی گئی۔ ایک سال ہونے کو ہے لیکن اس حادثے کی مکمل وجوہات نہ معلوم ہو سکیں بس ابتدائی رپورٹس ہی ملیں۔ یہ اور اس طرح کے حادثات جیسے ائیر بلیو لائن کا حادثہ جو مارگلہ کی پہاڑیوں میں ہوا، گلگت چترال میں پورا جہاز غائب ہونے کا حادثہ، کیوں ہوئے کیسے ہوئے مگر بہت سے لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔

جنید کی شہادت ایک قومی المیہ ہے کیونکہ وہ ایک بہترین نعت خواں اور مبلغ تھا۔ اللہ نے اسے دل پر اثر کرنے والی آواز عطا کی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری سفر میں بھی وہ اسلام کی تبلیغ کے لیے چترال گئے تھے۔ جنید جمشید پاکستان کے بہترین اور ٹاپ کے پاپ سنگر تھے ان جیسی شہرت اور مقبولیت کم لوگوں کو نصیب ہوئی بعد ازاں مذہب کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث انھوں نے گلوکاری اور موسیقی کے کیرئیر کو خیرآباد کہدیا دور عروج میں۔ اپنی آواز کو پیارے نبیؐ کی نعت کے لیے وقف کردیا۔ آج بھی ان کی نعتیں لوگوں کے دلوں مین زندہ ہیں اور باقی زندگی تبلیغ کو شعار بنایا۔ جنید نے سنت نبویؐ پر عمل کرتے ہوئے کپڑے کا کاروبار کیا، جو جے ڈاٹ کے نام سے اب بھی مشہور ہے۔ اسے وسعت دے کر خوشبویات اور مختلف چیزوں تک بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اتنی ہی زندگی لکھی تھی۔ ان کی بہت سی نعتیں مشہور ہین لیکن ایک نعت محمدؐ کا روضہ نظر آرہا ہے، دل و دماغ پر وجد طاری کر دیتی ہے۔

ایک حادثاتی موت اپنے پیاروں سے پلک جھپکتے میں جدا کردیتی ہے، موت برحق ہے لیکن حادثات کی روک تھام اور ان کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ چند تعزیتی الفاظ اور مالی مدد اس دکھ کا درماں نہیں کرسکتی جو اپنے پیارے کے بچھڑنے پر ہوتا ہے۔ مخصوص سرکاری بیانات اور امداد کا اعلان، حادثات سے نبنٹنے کے اقدامات کا اعادہ صرف الفاظ تک ہی محدود رہتا ہے۔ امداد ملے نہ ملے اعلان ضرور ہوجاتا ہے کیا ہم ان حادثات سے سدھر نہیں سکتے حادثے کی وجوہات پتہ کرکے انھیں ٹھیک نہیں کیا جاسکتا تاکہ دوبارہ ایسا حادثہ رونما نہ ہو۔ احتیاطی تدابیر سے بھی حادثات ختم تو نہیں لیکن کم تو کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت اپنی ذمہ داری سمجھے اور نبھائے کیونکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).