مجھے را کی ایجنٹ بننا ہے


خبر اور خبروں سے میرا بچپن سے ہی گہرا تعلق رہا ہے۔ جس عمرمیں بچے کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہیں میں اس عمر میں اخبار پڑھا کرتی تھی۔ اس زمانے میں ہمارے ہاں ’خبریں‘ اخبار آیا کرتا تھا۔ کارٹون دیکھنے کی بجائے ابو کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن پر روزانہ رات نو بجے نشر ہونے والا خبر نامہ دیکھا کرتی تھی۔

اس زمانے میں زیادہ چینلز تو تھے نہیں نہ ہی ٹاک شوز کا رواج تھا۔ خبرنامہ پڑھنے والے نیوز اینکرز کو ہی میں صحافی سمجھا کرتی تھی، اور جس طرح سب کی بچپن میں معصوم خواہشات ہوتی ہیں، میں نے بھی معصومیت میں بڑے ہو کر صحافی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر جس طرح بچپن گزرنے کے ساتھ معصومیت ختم ہوتی گئی۔ صحافی بننے کا شوق بھی اسی معصومیت کے ساتھ کہیں گم ہو گیا۔ میٹرک کے بعد میں نے پری انجینرنگ میں داخلہ لے لیا، داخلہ تو لے لیا مگر بعد جب ریاضی میں دو بار فیل ہوئی تو اندازہ ہوا کہ یہ سائنسی مضامین میرے بس کی بات نہیں۔ ویسے بھی بچپن میں مجھے ایک قاری صاحب قرآن پاک پڑھنے ایا کرتے تھے وہ فرماتے تھے کہ سائنس ایک فتنہ ہے۔ جیسے تیسے انٹر پاس کر کے میں نے اس فتنہ سے جان چھڑوائی، جان تو چھڑوا لی مگر اب پریشانی یہ کہ آگے داخلہ کس مضمون میں لیا جائے، سائنسی مضامین سے تو ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ دیا تھا، ادب سے لگاؤ تھا مگر اتنا نہیں کہ اس پر زندگی کے چار سال وقف کر دیے جائیں، ہوم اکنامکس وغیرہ پڑھنے والا میرا مزاج نہیں تھا۔ اسی کشمکش میں تین چار ماہ گزر گئے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں داخلے بند ہوگئے اور کچھ میں داخلہ بند ہونے کی آخری تاریخ سر پر آ گئی۔ اب کیا کیا جائے؟ پھر وہ بچپن کی بھولی ہوئی خواہش یاد آئی، اب کسی نہ کسی مضمون میں تو داخلہ لینا تھا تو صحافی بننے کی خواہش میں چار سالہ ماس کمیونیکیشن کی ڈگری میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ فیصلہ کرنے کے بعد اب ایک اور مشکل پیدا ہوئی۔ بچپن سے میرے ذہن میں جو صحافی کا نقشہ بیٹھا ہوا تھا، اس کے مطابق صحافی کا کام صرف ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر خبریں پڑھنا تھا۔ میری زبان میں ہکلاہٹ تھی۔ اب ایک ہکلانے والی لڑکی تو نیوز اینکر نہیں بن سکتی۔ پھرکچھ لوگوں نے سمجھایا کہ صحافت کا تعلق صرف ٹی وی پر بیٹھ کر صرف لکھی لکھائی خبریں پڑھنے سے نہیں بلکہ خبریں بنانے سے بھی ہے، کچھ اور لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے میں داخلہ لے ہی لیا۔

آج سے تین سال پہلے کی بات ہے، میں دوسرے سیمسٹر میں پڑھ رہی تھی۔ ایک ٹیچر نے کلاس میں سب سے پوچھا کہ آپ سب کا پسندیدہ صحافی کونسا ہے؟ ان دنوں مبشر لقمان کا ایک نجی چینل پر شو بہت مشہور تھا تو اکثریت نے اس کا نام لیا۔ میں نے جس کا نام لیا تھا، آج سوچتی ہوں تو دل و دماغ تلپٹ ہو جاتے ہیں۔ خیر تب صحافی اور اینکر میں فرق بھی نہیں پتا تھا اور نہ ہی استاد محترم نے ہمیں یہ فرق سمجھانے کی کوشش کی۔ تب ڈگری کا پہلا سال تھا اور اب آخری۔ ابھی تک کسی استاد نے صحافی اور اینکر میں فرق بیان کرنے کی زحمت نہیں کی۔ خدا جانے انہیں بھی یہ فرق پتا ہے یا نہیں۔ ہماری ایک ٹیچر کے شوہر آرمی میں تھے ان کے 75 منٹس کے لیکچر میں آخری پندرہ منٹ تو کلاس کو آرمی کی ملک کے لیے دی گئی قربانیاں یاد کروانے کے لیے وقف ہوتے تھے، اور وہ ہماری صحافتی لکھائی کو بہتر کرنے کے لیے ہمیں اوریا مقبول جان صاحب کے کالمز پڑھنے کے لیے دیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے آج بھی شک ہے کہ ہمارے اساتذہ کو صحافی اور صحافت کی تعریف معلوم بھی ہے یہ نہیں۔ داخلہ لیتے وقت مجھے امید تھی کہ چار سال کے اختتام پر اور کچھ سیکھوں یا نہ سیکھوں، ایک اچھا صحافی کون ہوتا ہے اس کی تعریف تو پتہ ہو گی لیکن ڈگری اس معاملہ میں میری کوئی مدد نہ کر سکی۔ چنانچہ پچھلے ایک سال سے خود ہی اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہوں۔

اس سوال کے جواب کے دوران میرے لیے اچھی صحافت کا پیمانہ سچ بولنا، حقائق کو توڑ موڑ کر پیش نہ کرنا، اصل معاشرتی مسائل کو سامنے لانا اور تعمیری تنقید کرنا تھا۔ جو صحافی اس پیمانے پر پورا اتر رہے تھے ان کے نام میں نے ایک طرف لکھ لیے اور جو نہیں ان کے نام دوسری طرف۔ پھر اس کے بعد میں نے دونوں طرف کے صحافیوں کی مقبولیت کا مقابلہ کیا۔ جو صحافی میرے طے کیے گئے پیمانے پر پورا نہیں اتر رہے تھے (جن میں سے اکثر صحافی بھی نہیں تھے) ان کی مقبولیت اور صحافت کے پیمانے پر پورا اترنے والوں کی مقبولیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ پیمانے پر پورا نہ اترنے والے صحافی محب وطن، سچے کھرے اور اکثر سینئر صحافی کہلاتے تھے جبکہ پیمانے پر پورا ترنے والے صحافی را کے ایجنٹ، لفافہ صحا فی اور غدار کہلاتے تھے۔

جواب تو مل گیا، لیکن اب مشکل یہ تھی کہ ایک اچھا صحافی بن کر اپنے اوپر غداری کا ٹھپا لگایا جائے یا صحافتی اقدار کو بھول کر مقبول صحافیوں کی صف میں کھڑا ہوا جائے۔ جھوٹ کا سہارا لے کر “سب اچھا ہے” کا راگ آلاپ کر کھوکھلی عزت کمانے سے بہتر سچ بول کر ذلت کمانے ہی میں مزہ ہے۔ اس لیے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ صحافی بن کر جب تک اپنے اوپر غدار یا راء کی ایجنٹ ہونے کا ٹھپا نہیں لگے گا، میں خود کو ایک بااثر اور اچھا صحافی نہیں سمجھوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).