ناصر کاظمی: رات کا بے نوا مسافر


ناصر کاظمی کی شاعری کے دو بنیادی موتیف (Motif) اداسی اور تنہائی قرار دیے گئے ہیں۔ ناصر کے دوستوں اور نقادوں نے اداسی کا سبب ہجرت کو قرار دیا ہے۔ یہ بات اس قدر زور شور سے پھیلائی گئی ہے کہ ناصر ہجرت کا شاعر بن کر رہ گیا ہے۔ میرا ناصر کاظمی سے تعارف صرف ان کی شاعری کی وساطت سے ہوا ہے، اس لئے مجھے ناصر کی شاعری میں ہجرت کی واردات برگِ نے کی ڈھائی غزلوں کے سوا کہیں دکھائی نہیں دی۔ لیکن اس بات کے اتنا مشہور ہونے پر مجھے اس لئے کوئی تعجب نہیں کہ ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو کوئی بات اس وقت تک نہیں سمجھ سکتی جب تک اس کے شان نزول کا تعین نہ کر لے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ادب و فن کی تفہیم کے لئے یہ نظریہ رائج و مقبول ہے کہ ادب فنکار کی ذات کا اظہار ( Self-expression) ہے۔ شاعری اور فن داخلی اور نفسیاتی کیفیات و احوال کا بیان ہے۔ چنانچہ شاعر کی ذات کو درمیان میں لائے بغیر شاعری کی تفہیم ناممکن بن جاتی ہے۔ اس نظریہ کی رو سے شاعری شاعر کے سوانح کے سواکچھ اور نہیں۔ شاعر کو سمجھنے کے لئے اس کے مقام و وقت کا حوالہ لازم ٹھہرتا ہے۔ چونکہ ناصر انبالہ سے ہجرت کرکے لاہور میں وارد ہوا تھا اس لئے برگِ نے کی غزلوں کو ہجرت کی واردات کا نتیجہ قرار دے دیا گیا اور پہلی بارش کی تفہیم کی خاطر بعض نقاد حضرات ناصر کے محبوب کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ناصر نے کبھی بھی اظہارِ ذات کے نظریے پر صاد نہیں کیا؛ اس کے نزدیک شاعری نالہ آفرینی، حسن آفرینی اور پیکر تراشی سے عبارت ہے۔

انگریزی محاورے کی یہ بات کہ پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے ، کہیں اور سچ ہو نہ ہو اردو تنقید کے بارے میں آج بھی درست ہے۔ ہمارے نقاد ابتدائی کتاب سے جو تاثر قائم کر لیتے ہیں پھر اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اکثر صورتوں میں تو نقاد حق بجانب ہوتے ہیں کیونکہ بیشتر شاعر اپنی پہلی کتاب میں خرچ ہو جاتے ہیں اور باقی کتابوں میں اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں مگر ایک سچے شاعر کا تخلیقی سفر ارتقا کی نئی منازل طے کرتا رہتا ہے۔ ناصر کاظمی کی ہر کتاب ایک نیاجہان خلق کرتی ہے جو پہلے جہان سے بڑی حد تک مختلف ہوتا ہے۔برگِ نے، دیوان، پہلی بارش اور سر کی چھایا کے اپنے اپنے جہان ہیں مگر نقاد برگِ نے یا زیادہ سے زیادہ دیوان سے آگے جانے کو تیار نہیں ہیں۔ پہلی بارش بڑی حد تک اورسر کی چھایا مکمل طور ان کے لیے جہان بے در ہیں۔

ادب و فن کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ بڑے تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی کاوشوں میں ایسے تجربوں کو کامل فنکارانہ چابک دستی سے پیش کیا ہے جو ان کے جسم و جان پر کبھی بیتے نہ تھے۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ بعض اوقات فن کار کا کام اس کمی کی تلافی ہوتا ہے جو اس کی ذات میں ہوتی ہیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال مشہور جرمن موسیقار رچرڈ واگنر ( Richard Wagner)ہے جس نے جب اپنا مشہور نغماتی اوپیرا Tristan and Isolde لکھنے کا فیصلہ کیا تو اس نے ایک دوست کے نام خط میں تحریر کیا: ”چونکہ میں زندگی میں محبت کی حقیقی مسرت سے ہم کنار نہیں ہوا، اس لیے میں اس خوبصورت خواب کی یاد میں ایک ایسی یادگار تعمیر کرنا چاہتا ہوں جس میں ابتدا سے انتہا تک محبت کو درست طور پر بیان کیا جائے۔“ گویا اس کا یہ شاہکار اس لیے تخلیق نہیں ہوا کہ وہ محبت کے تجربے سے گزرا تھا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اس تجربے سے شادکام نہیں ہوا تھا۔

کسی کی ذاتی واردات سے بھلا کسی دوسرے شخص کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے سوائے اس صورت کے کہ قاری کو شاعر کی واردات اپنے جسم وجاں پر بیتنے والی واردات دکھائی دے۔ فن کی تحسین و تنقید کے لئے اصل سوال تو یہ ہے کہ فنکار نے اپنے فن کی روایت میں کیا نیا اضافہ کیا ہے۔ کیا اس کی کاوش پہلے سے موجود معیارات پر پورا اترتی ہے؟ کیا وہ ان معیارات کو بہتر بنانے اور انہیں وسعت دینے میں کامیاب ہوا ہے؟ اردو شاعری میں کسی شاعر کے مقام و مرتبہ کا تعین اس بات سے ہو گا کہ آیا وہ میر، غالب اور اقبال کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اقبال کے مابعد کی شاعری میں ناصر ہی وہ شاعر ہے جو یہ حوصلہ کرنے کا یارا رکھتا ہے۔ اردو شاعری کی اعلیٰ ترین روایت میں اپنا مقام پیدا کرتے ہوئے اس نے اسے نئے امکانات سے بھی روشناس کیا ہے۔ ناصر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے وہ آیت یاد آتی ہے جس میں کلمہءحق کو ایسے شجرہءمبارکہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں اور شاخیں آسمان تک بلند ہوتی ہیں۔ ناصر کی شاعری کی جڑیں بھی اردو شاعری کی روایت میں ہیں لیکن اس کی بلند و بالا شاخیں ہمیں نئے اور ان دیکھے جہانوں کا پتہ دیتی ہیں۔

 ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک کلیدی استعارہ سفر ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ ایک مسافر کے روپ میں دیکھا ہے۔ برگِ نے کے دیباچے میں شاعر وہ گیت گانے والا ہے جو ”گاو ¿ں گاو ¿ں، نگری نگری گھومتا پھرتا تھا…. اسے پہچاننے والے اسے بھاٹ کہتے تھے، موجد اور خالق کا نام دیتے تھے اور اس کے ذریعے دھرتی کا رابطہ آسمانوں سے جا ملتا تھا۔“ اور دیوان کا اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے:

کہیں کہیں کوئی روشنی ہے

جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے

کہاں ہے وہ اجنبی مسافر

کہاں گیا وہ اداس شاعر

پہلی بارش تو ہے ہی سفروں کی روداد۔ وہ سفر خارج میں بھی ہیں اور باطن میں بھی۔ ان سفروں کے مقامات میں دوزخ، جنت، سر سبز و شاداب زمینیں اور اجڑے دیار سبھی شامل ہیں۔ وہ ان دیکھی راہوں کا مسافر ہے جو نئے جہانوں کی دریافت کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اسے شعور ہے کہ اس سفر کی کوئی منزل نہیں اس لیے اس کے سنگی ساتھی بھی کچھ منزلوں تک ساتھ دیں گے اور بچھڑ جائیں گے۔ مگر اس کی قسمت میں کسی منزل پر کمر کھولنا نہیں۔

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں

تیری مجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکر و عمل

…. ….

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

سر کی چھایا میں ناصر نے اپنی شاعری کو جو وسعت دی ہے اور زبان و بیان کے جو انداز دکھائے ہیں وہ ناصِر کے شعری سفر کی ایک حیرت افزا جہت ہے مگر یہ کتاب ابھی تک نقادوں کی توجہ سے محروم ہے۔ یہ کتاب محض ذاتی واردات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جمی جمائی تہذیب کا بیان ہے جس کا استعارہ سورج پور ہے جو آگ کا شکار ہو کر اجڑ جاتا ہے۔ اس کا ملال بھی ہے مگر نواں شہر آباد کرنے کا عزم بھی ہے۔ انسان کو اپنی جنم بھومی اور تہذیب و ثقافت سے پیار بھی ہوتا ہے مگر جب دھرتی نامہرباں ہو جائے اورپاو ¿ںجلنے لگیںتو یہ کہتے ہوئے وہاں سے ہجرت بھی کر جاتا ہے :

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

اپنی دھرتی کو اگر کسی سبب سے چھوڑنا پڑجائے تو تخلیقی آدمی ایک نئی جنت تعمیر کرنے کا عزم لے کر نئے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ بس پرانی یادوں کی ایک کسک رہ جاتی ہے مگر اُسے معلوم ہوتا ہے کہ واپسی کا راستہ مسدود ہو چکا ہے:

                اس دھرتی سے میرا ناتہ ٹوٹ چکا ہے

                اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

ناصر کے بہت سے دوستوں نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ میرا بائی، سورداس اور کبیر کا بہت ذکر کیا کرتا تھا اور انہیں اپنی شعری روایت میں شمار کرتا تھا۔ ناصر نے غزل میں تو بہت کم ہندی بحریں استعمال کی ہیں مگر سر کی چھایامیں ہندی دوہوں کی روایت میں بہت اعلیٰ شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ ناصر نے برگِ نے کے دیباچے میں شاعر کو ایک بھاٹ کے روپ میں دیکھا تھا ”جس کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی سیدھا سادا اور رس بھرا ساز ہوتا تھا جس کی دھن پہ اس کے سارے گیت ڈھلتے تھے اور گلے سے باہر نکلتے ہی دلوں میں اتر جاتے تھے۔“ سر کی چھایا کا ایک کردار حسنی ہے ،جو کوی بھی ہے اور گن کار بھی۔ وہ طنبورے پر اپنے گیت گاتا ہے:

                سانجھ بھئے اک ڈھیر پہ اندھا سادھو روئے

                ہم نے نگری چھوڑ دی، ہمیں نہ چھیڑے کوئے

پچھم دیس کے نیل ماں ڈوبن لاگا بھان

اس کی ریکھا دیکھ کے ڈول گئی مری جان

                سدھ بدھ ہے مجھے دھوپ کی نا میں جانوں چھاو ¿ں

                نا مرا ٹھور ٹھکاناکوئی نا مرا کوئی گاو ¿ں

                رُت بدلی، آندھی چلی، سوکھن لاگے پات

                رنگ برنگی ڈالیاں، روویں مل مل ہات

اور پھر ناری کے ساتھ اس کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:

حسنی:     میں ہوں ایک ستاریا کھو گئی میری ستار

                نگری نگری گاتا پھروں، لوگ کہیں گن کار

ناری:       گنی ہے تو گن کاری ہے تو کوئی گن دکھلا

                سرتی روپ کو من میں بٹھا کے موہن گیت سنا

حسنی:     تار طنبورے بن او ناری کیسے گاؤں گیت؟

                اجڑے بن کی باس ہے، سنگت بن سنگیت

ناری:       بین نہ باجے تار بن، من باجے بن تار

                بین بنا جو گیت سناوے وہی بڑا گن کار

سر کی چھایا کا شاعر عربی اور ایرانی تہذیب کا نہیں بلکہ اپنی اس دھرتی کا ترجمان ہے۔ اس کی شاعری کی فضا، اس کے موسم، اس کے تہواراور میلے ٹھیلے، اس کا رہن سہن، اس کی بولی سب کا تعلق اس زمین کے ساتھ ہے۔ مگر وہ دھرتی کا قیدی نہیں ہے۔

ناصر کی اداسی کا اصل سبب یہ ہے کہ اسے اب وہ لوگ دکھائی نہیں دیتے جو زمین کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان دیکھے جہانوں کی دریافت کرنے والے اب بنے بنائے راستوں کے مسافر بن کر رہ گئے ہیں۔ اسے اس بات کا دکھ نہیںکہ سورج پور اجڑ گیا کیونکہ ایسا تو کئی بار ہو چکا ہے اور شائد ہوتا بھی رہے گا۔ المیہ تو یہ ہے کہ نیا شہر بسانے کا حوصلہ رکھنے والے نظر نہیں آتے۔ اس کی اداسی اور تنہائی کا سبب یہی ہے کہ اس کے عہدکے فنکار دنیا کے دھندوں میں کھو کر اپنا کار منصبی بھول گئے ہیں۔

دیوان کی آخری غزل میں ناصر کی اداسی پورے طور پر اپنا رنگ دکھاتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی کے لمحہ بہ لمحہ غروب ہوتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنی شاعری کے آغاز میں ایک خواب کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا تھا۔ وہ خواب اس وقت ریزہ ریزہ ہو گیا جب ناصر کی زندگی کی شام ہو رہی تھی۔ وہ جاتے جاتے بھی ہم سے یہ کہہ رہا تھا:

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں

عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اُٹھانے والے کیا ہوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).