انقلاب کی تلاش


 \"inam-rana\"سنا ہے فیض کی شاعری سے متاثر ایک نوجوان نے ایک دن انقلاب کے انتظار سے اکتا کر کہا، فیض صاحب، آخر انقلاب کب آئے گا؟ فیض صاحب جو عمر کے آخری حصے میں خود بھی \”بلا سے ہم نے نہ دیکھا۔۔۔\” جیسے مصرعے کہنے لگے تھے اور انقلاب کی حرکیات سے واقف تھے، سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچ کر دھواں ناک سے نکالتے ہوے ایک لمبی خاموشی کے بعد بولے\”بھئی آ جائے گا، ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے\”۔ وہ پوچھنے والا اب جس عمر کو پہنچ چکا ہو گا یقینا فیض صاحب کی تصویر سے کہتا تو ہو گا، اب تو عمر بھی ہو گئی سر، آخر کب آئے گا؟

نوجوانی سمندر کی اس اٹھتی لہر کا نام ہے جو بلند ہوتی ہوئی آتی ہے تو لگتا ہے سب بہا کر لے جائے گی۔ اس میں چھپا طوفان اس غرور میں ہوتا ہے کہ ساحل پر موجود ہر شے کو تہس نہس کر دے گا۔ مگر ساحل تک آتے آتے وہ طوفان، وہ رفتار، وہ غرور اور دم توڑ جاتا ہے اور لہر ساحل کے قدموں پہ سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ نوجوانی یہ یقین رکھتی ہے وہ بدلنے کی، توڑنے کی، بہتر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہ ہر ظلم، نا انصافی اور اس بت سے ٹکرانے کی ہمت رکھتی ہے جو اس کے یقین کے آگے آئے۔ بے شک یہی یقین دنیا میں بدلاؤ، بہتری اور خوبصورتی لانے کا باعث بنتا ہے۔ یہی یقین ہے جو ہمیں ہر نوجوان میں دکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی نظریے سے وابستہ ہو۔ یہ جذبہ آپ کو لبرل نوجوان میں بھی دکھے گا اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ نوجوانوں میں بھی۔ انقلاب آئے یا نہیں یہ جذبہ ہی ہے جو عمر کے آخری حصہ میں یہ اطمنان دیتا ہے کہ زندگی بیکار نہیں گزری بلکہ کسی نظریے کسی آدرش کی پیروی میں گزری۔

یہی جذبہ تھا جو مجھے بیس سال کی عمر میں پروفیسر کے پاس لے گیا۔ فیض کی شاعری اور کچھ کتابوں نے \”لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے\” کے جذبات پیدا کر دئیے تھے اور معاشرے کے پسے ہوے طبقات اور ہر ظلم کے تخت اچھالنے کی ہمت پیدا کر دی تھی۔ لاہور کے ایک معروف انقلابی وکیل نے جب دو سال میں دو تحریکوں کا بیڑہ غرق کر دیا تو مجھےاحساس ہوا کہ میرے اپنے طبقے میں انقلاب کا نظریہ فقط ڈرائنگ روم ایکٹیوٹی ہے جو کوٹ میں رومال کی طرح سجایا جاتا ہے کہ زرا اچھا لگتا ہے۔ معاشرے کے جن پسے ہوے لوگوں کی محرومی پر بہترین سکاچ وسکی پیتے ہوے ہم فکرمند ہوتے تھے، ان ہی کو ہمارے ڈرائنگ روم میں آنے کی اجازت نہ تھی۔ ہر دو چار ہفتوں بعد جب ہم کسی خوبصورت مغنیہ کے سنگ بلند آواز \”ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے\” گاتے تھے تو یہ کم ہی سوچتے تھے کہ اس پارٹی پہ اٹھنے والا خرچہ ایک پسے ہوے مزدور کے مہینے بھر کی کمائی سے زیادہ ہے۔ شاید ایسی ہی کسی شام میں نے اس ماحول سے بیزاری محسوس کی اور کسی اب یاد نا آتی وجہ سے پروفیسر تک جا پہنچا۔ پروفیسر پاکستان کی \”لیفٹ\” کی موومنٹ کی دائی تھی۔ ستر کی دہائی سے وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہا تھا اور اندر باہر کی ہر بات سے واقف تھا۔ خالص لاہوریوں کی طرح ہر جملے کے بعد ایک آدھ گالی اس کا تکیہ کلام تھا اور نظام کی بات کرتے ہوے یہ گالی جملے کے شروع اور آخیر دونوں طرف سجتی تھی۔ پہلے تو پروفیسر نے مجھے بوژوا طبقے کا ایک ایڈونچرسٹ نوجوان ہی سمجھا جو باپ کی لمبی سی گاڑی پہ ڈرائیور کے ساتھ آ کر نسبت روڈ کے ایک چائے خانے میں اس سے انقلاب ڈسکس کرتا تھا۔ ایک دن تنک کر اس نے مجھے کہا بھی، \”اوئے ۔۔۔۔۔۔ تینو پتہ وی اے کہ اے انقلاب تیرے ورگیاں دے خلاف ہی آنا اے\”۔ آخر ایک عرصے بعد اسے یقین آ ہی گیا کہ میں انقلاب کی تلاش میں سچا ہوں خواہ یہ مجھ سے میری گاڑی اور ڈرائیور ہی کیوں نہ چھین لے۔ میں ہمیشہ پروفیسر کا ممنون رہوں گا کہ اس نے مجھ میں موجود انسان سے بلا تفریق محبت، سچ کے لیے کھڑا ہونے کی ہمت اور تحقیق کی عادت کو مہمیز دی۔ اور پروفیسر ہی کی وجہ سے میں پارٹی کے ان گوشوں سے بھی آگاہ ہوا جو عام کارکن سے کافی عرصہ تک پوشیدہ ہی رہتے ہیں۔

ہم ہر ہفتے نسبت روڈ کے چائنہ ہوٹل میں اکٹھے ہوتے جہاں چائے کی دس بارہ پیالیوں پر پندرہ بیس سگریٹ پھونکتے رات بھر مباحثے چلتے۔ پروفیسر ہمارا گُرو تھا۔ ایک حلقہ تلامذہ میں گھرا جو اس کی ہر بات اسی احترام سے سنتا اور اپناتا جیسے ارسطو کے شاگرد۔ مذہب، فلسفہ، سیاست، ادب، معاشیات، فنون لطیفہ؛ کون سا موضوع تھا جس پہ اس نے ہماری تربیت نہی کی۔ اکثر فجر کے وقت میں ہی اسے گھر اتار کر آتا اور مجھے اس سے خصوصی گفتگو کی سعادت بھی حاصل ہوتی۔ پروفیسر کچھ باقاعدہ کام وام نہیں کرتا تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اپنے ایک بھائی اور بھابی کے ساتھ رہتا تھا۔ کچھ ایک دو پراجیکٹ کر کے وہ اتنی رقم کما لیتا تھا کہ اگلے دو تین ماہ آرام سے گزر جائیں۔ رات بھر جاگتا، کتابیں پڑھتا، فلمیں دیکھتا اور دن چڑھے تک سو کر اٹھتا تو چائے خانے چلا آتا۔ ایک دن میں نے کہا استاد جی آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ اوئے ۔۔۔۔۔ دیا، جب تک یہ نظام مجھے میری پسند کا کام نہیں دے گا میں کیوں کروں؟ پر آپ کی پسند کا کام کیا ہے؟ جو بھی مجھے پسند ہو، پروفیسر نے غصہ سے کہا۔ پر استاد جی آپ کی پسند کا کام جب تک طے نہی ہو گا، آپ کوشش نہی کریں گے، تب تک نظام کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اوے ۔۔۔۔ ، جب تک یہ نظام نہی بدلے گا کچھ بھی نہی ہو سکتا۔ پروفیسر کے غصے کا گراف چڑھتا دیکھ کر میں خاموش ہی رہا۔ پروفیسر نے ساری عمر شادی بھی نہیں کی۔ جب بھی میں اس بارے میں اس سے سوال کیا اس نے کہا \”میری مرضی؟ مجھے باقی رہنے کا کوئی شوق نہیں۔ شادی فقط اولاد کی خواہش کو ایک قانونی نام دینے کا نام ہے۔ کیونکہ انسان چاہتا ہے کہ وہ زندہ رہے، خواہ اپنی اولاد کی ہی صورت۔ سو شادی کا یہ ادارہ وجود میں آیا ہے تو اس کے پیچھے یہی سوچ ہے۔ مجھے زندہ رہنے کا کوئی شوق نہیں۔\” اب چونکہ میری اور پروفیسر کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ میری ہر قسم کی بات سن لیتا تھا تو ایک دن میں نے کہا استاد جی ایک بات کہوں، آپ دراصل ذمہ داری سے بھاگتے ہیں۔ شادی کا ادارہ ہمارے معاشرے میں مرد پہ جتنا بوجھ ڈالتا ہے آپ اسے اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ پروفیسر نے ایک قہر بھری نظر اور دو گالیوں کے ساتھ بس اتنا کہا\”چوّلاں نہ مار\”۔

ہماری محفلوں کی رودادیں بھی بہت دلچسپ ہیں۔ ہم کبھی کبھار کسی مظاہرے وغیرہ کی تیاری کے لیے اکٹھے ہوتے۔ رات بھر کامریڈز مختلف پلان کرتے۔ امیروں کی حرام زدگیوں، غریب کی بے بسی، عورت کے ساتھ جبر، مولوی کی چیرہ دستیوں پر گرما گرم تبصرے ہوتے۔ صبح اکثر مظاہرہ پر کچھ کامریڈ غیر حاضر اور کچھ لیٹ ہوتے تھے، اس نظام میں جو گندی شراب ہمیں ملتی تھی وہ ہینگ اوور ہی اتنا برا دیتی تھی، اس میں کامریڈز کا کیا قصور۔ اکثر ہم کامریڈز اس بات پہ ماتم کناں رہتے کہ جس معاشرے میں شراب بھی چھپ کر پینی پڑے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ مذہب کا مذاق اڑانا کامریڈ ہونے کا لازمی جزو تھا۔ جو اس میں جتنا پرجوش اور مفصل ہوتا وہ اتنا ہی پرخلوص انقلابی سمجھا جاتا۔ البتہ مذہب ایسا برا جرثومہ ہے کہ جسم سے کم ہی نکلتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو جوش، سبط حسن اور مہدی حسن کو ملحد مگر اچھا شیعہ ضرور بنائے رکھتا ہے۔ ایک دن میں نے پروفیسر سے کہا کہ میرا ایک تھیسس ہے۔ جب تک ہم پاکستان میں مذہب کو گالی دے کر سوشلزم اور کمیونزم کی بات کرتے رہیں گے، ہم ناکام ہی رہیں گے۔ مذہب ہزاروں سال سے اس خطے کے لوگوں کی ہڈیوں میں گودے کی طرح ہے۔ کیا بہتر نہیں کہ ہم سٹریٹجی بدلیں۔ پروفیسر نے پہلے تو میری بوژوا سوچ کی گالیوں سے بھرپور تواضع کی، پھر میرے پارٹی میں مستقبل پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا اور ۔۔۔۔۔ دیا، کمیونزم کی ضرورت ہی کیا ہے اگر مذہب کو ہی ماننا ہے۔ خیر میرا آج بھی ماننا ہے کہ مذہب، پاکستان کا وجود میں آنا اور کچھ دیگر ایسی حقیقتیں ہیں کہ جن کو مانے بغیر جو بھی سیاسی نظریہ اس خطے میں آیا، فیض جیسا شاعر تو شاید دے دے، انقلاب نہیں دے پائے گا۔

ہم میں سے اکثر نوجوان \”ویلے\” ہی تھے۔ کوئی کام کم ہی کرتے تھے۔ رات بھر انقلاب کا خواب دیکھتے تھے مگر میں آج بھی نہیں سمجھ پاتا کہ کوئی بھی انقلاب اس شخص کی مدد کیا کر سکتا ہے جو کچھ کرنا ہی نہ چاہتا ہو مگر پروفیسر کا خیال تھا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اس کا حصہ بن کر کوئی کام کرنا اس نظام کو مضبوط کرنے کا باعث ہو گا۔ وقت گزرا، دن بدلے اور بہت کچھ بدلا۔ اکثر نوجوان جو ہمارے گروپ کا حصہ تھے شادی یا معاشی مسائل کی وجہ سے مختلف نوکریاں کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جیسے جیسے وہ کام میں پھنستے، معاشی ترقی حاصل کرتے اور گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا، ان کی شرکت کا معمول کم ہوتا چلا جاتا۔ ریگولر صرف وہی رہ گئے جن کا رزق پارٹی اور اس کی سرگرمیوں سے وابستہ تھا یا مجھ جیسے جو ابھی اس چکر میں نہیں پھنسے تھے۔ کئی اب بھی مہینے میں ایک آدھ بار آ جاتے اور دوسرے پیگ کے بعد اس نظام کو رونا روتے جس میں بیوی سے چھپ کر شراب پینی پڑتی ہے۔ ایک دن میں نے کہا پروفیسر، میرا ایک اور تھیسس ہے۔ ہمارے ملک میں انقلاب کبھی نہیں آئے گا۔ پروفیسر نے گندی سی گالی دے کر کہا کیوں؟ اس لیے کہ ہم سچے انقلابی ہیں ہی نہیں۔ ہمارے امیر انقلاب کا نعرہ اس لیے لگاتے ہیں کہ اپنے ہی طبقے میں زرا منفرد سمجھے جائیں۔ اور غریب انقلابی اس لیے بنتا ہے کہ اسے لگتا ہے کہ انقلاب آیا تو یک دم اسے وہ سب کچھ میسر آ جائے گا جسے وہ للچائی نظروں سے دیکھتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ ہم نے انقلاب کو نظریہ سمجھا ہی نہی بس نعرہ بنایا ہے اپنی اپنی غرض پوری کرنے کا۔ شاید پروفیسر تھک گیا تھا میری فضول باتیں سن سن کر سو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وقت کی گردش مجھے لندن لے آئی۔ رابطہ کمزور ہوتا گیا۔ اب بھی کبھی کبھار بات ہو جاتی یا پاکستان چکر پر ملاقات۔ پروفیسر اب بھی غیر شادی شدہ تھا۔ اب بھی نسبت روڈ پہ بیٹھتا تھا اور اب بھی اٹھارہ بیس برس کے بچے بچیاں اس کے گرد بیٹھے انقلاب پر مباحثے کرتے تھے۔ پچھلے سال پاکستان گیا تو ملاقات نہ ہو سکی۔ ادھر ادھر سے پوچھا تو پتہ چلا عارف والا میں پروفیسر کے والد کی چھوڑی بیس ایکڑ زمین تھی۔ پروفیسر اب وہاں زمینداری کرتا ہے۔

(بھائی انعام رانا، فیض صاحب سے سوال پوچھنے والا آغا نوید کئی برس پہلے فیض صاحب کے پاس چلا گیا تھا۔۔۔ مدیر)

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
32 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments