بلوچستان میں‌ شورش کے اصل محرکات کیا ہیں؟


میری نظریں جب بھی گاؤں کے واحد کنویں پر پڑتی تھیں تو وہاں خواتین کا جم غفیر ہی نظر آتا تھا۔ 60 فٹ گہرے کنویں‌ سے پانی نکالتی ہوئی یہ خواتین اکیسویں‌ صدی کی انسان لگتی ہی نہیں تھیں۔ پر وہ اکیسویں‌ صدی میں‌ ہی جی رہی تھیں۔ پانی کا انتظام و انصرام خواتین کے حصے میں‌ آیا تھا۔ مرد حضرات کو استثنا حاصل تھا۔

دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں‌ کرتیں۔ 14 سال کی عمر میں‌ شادی کر کے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں‌ تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے۔ صبح ‌ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں۔ یہ کام رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں۔ کپڑے دھوتی ہیں۔ کھانا بناتی ہیں۔ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔

اکیسویں‌ صدی نے کروٹ بدلی، پر ہمارے گاؤں‌ کی خواتین کی قسمت نہ بدلی۔ وہی ڈھول، وہی کنواں اور کنویں‌ سے پانی نکالنے کی مہم جوئی۔ بسا اوقات وہ کنواں خشک ہو جاتا تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو پانچ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی تھی۔ سروں‌ پر بڑی بڑی منجلیں‌ رکھ کر گھروں‌ تک پہنچایا کرتی تھیں۔ اسی قافلے میں‌ شامل ایک میری ماں بھی ہوا کرتی تھی۔ ماں کو تھکا ہارا پاتا تو نظریں شرم کے مارے جھک جاتی تھیں۔ شرم کے مارے ماں سے اس کی تھکاوٹ کا حال بھی نہ پوچھ پاتا۔ پھر نہ جانے دو گھونٹ پانی کس شرم سے حلق کے اندر چلا جاتا۔

کہا جاتا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کے ذمے ہوتی ہے پر پانی جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے مجھے ریاست کہیں‌ بھی نظر نہ آئی۔ اپنی، اپنی ماں‌ کی اور گاؤں‌ کی فریاد کس کے پاس لے جاتا۔ کہیں‌ بھی راستہ نظر نہیں‌ آیا۔

میری ماں محنت مزدوری کرتی تھی۔ کپڑے سیتی تھی۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم میری تعلیم پر لگاتی تھی۔ مجھے تعلیم دلوائی پر وہ خود تعلیم حاصل نہ کر سکی۔ میں ماں سے اکثر پوچھا کرتا تھا ”ماں تو پڑھی کیوں نہیں“۔ ماں خاموش ہو جاتی۔ میں پھر پوچھ لیتا ماں کچھ نہ کہتی۔ میرے بار بار سوال کرنے پر تنگ آ جاتی کہتی ”اسکول تھا کہاں، جو پڑھ لیتی“۔ گاؤں میں تعلیمی نظام تھا ہی نہیں۔ اکلوتے بیٹے کو تعلیم دلوانے کے لیے ماں کو اس کی جدائی سہنا پڑی اور بیٹے کو تعلیم دلوانے پچاس کلومیٹر دور رشتہ داروں کے ہاں وہاں بھیج دیا جہاں خیریت دریافت کرنے کا واحد وسیلہ خط و کتابت ہوا کرتی تھی۔ نہ ہی ماں تعلیم حاصل کر سکی اور نہ ہی گاؤں‌ کی دیگر خواتین، تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ حصولِ تعلیم کے لیے مجھے وہ ذمہ دار ریاست کہیں‌ بھی نظر نہ آئی۔

میرے گاؤں‌ کے لوگ اپنا علاج جڑی بوٹیوں‌ سے کیا کرتے تھے۔ (اب بھی کرتے ہیں)۔ گاؤں کی ایک خاتون زچگی کی کشمکش میں‌ مبتلا ہوئی۔ جڑی بوٹیوں‌ سے کام چلایا۔ مقامی دائی کے حربے ناکام ہوئے۔ ہسپتال کا نظام تھا ہی نہیں‌، سو عطائی ڈاکٹر کا سہارا لیا گیا۔ عطائی ڈاکٹر کی دوائیوں کا الٹا اثر ہوا وہ گھر جہاں چند لمحے قبل شادمانی کی صورت حال تھی، صفِ ماتم بچھ گئی۔ ماں اور بچہ دنیا میں نہ رہے، وقت سے پہلے چل بسے۔ صحت کا معاملہ تعلیم جیسا تھا۔ یہاں بھی مجھے ریاست نظر نہیں‌ آئی۔

دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ گھر میں نہ سالن کی خوشبو آ رہی تھی اور نہ ہی ماں مجھے نظر آ رہی تھی۔ معلوم ہوا کہ گھر میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں ختم ہو گئی ہیں ماں لکڑیاں لانے جنگل چلی گئی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ماں دور سے لکڑیوں کا انبار سر پر سجائے نظر آئی۔ شرم سے میرا سر ایک بار پھر جھک گیا۔ ماں سے کچھ کہہ نہ پایا۔ سنا تھا سوئی گیس نام کی کوئی چیز بھی بلوچستان سے نکلتی ہے۔ سوئی اپنا تھا پر گیس اپنی نہ تھی۔ سو گاؤں‌ میں‌ اب بھی لکڑی لانے کا رواج ہے۔ البتہ لکڑیاں‌ لانے کی ذمہ داری اب خواتین کے ذمے نہیں‌ رہی۔ مردوں‌ نے محسوس کیا اب یہ کام وہی کرتے ہیں۔

احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی۔ ایک جانب احساس محرومی، غربت اور بنیادی حقوق کی عدم دستیابی تو دوسری جانب تعلیم سے دوری، یہ وہ اسباب تھے جنہوں‌ نے نوجوانوں‌ کے ذریعہ معاش کا حصول ناممکن بنا دیا۔ بے چینی کی فضا قائم ہوئی۔ ریاست تو انہوں نے دیکھی نہیں تھی سو اپنی ریاست قائم کر دی۔ وہ ریاست جو پہلے نہ صحت، تعلیم، پانی، بجلی، گیس کی صورت میں نظر نہیں‌ آئی، اب وہ بندوق برداروں سے مزاحمت کرتی ہوئی نظر آئی۔ ریاست اور غیر ریاستی قوتوں کے مابین جنگ کا آغاز ہوا۔ اب تو فقط جنگوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ مشاہدے سے جان جا سکتی تھی۔

حالات نے اسلام آباد منتقل کر دیا۔ اسلام آباد کے لوگ بلوچستان جیسی صورت حال سے دوچار نہ تھے۔ بڑے بڑے ہسپتال تھے۔ تعلیمی ادارے تھے۔ پانی تھی بجلی تھی۔ خوش حالی تھی یہاں‌ تک کہ ڈیرہ بگٹی سے اسلام آباد تک طویل سفر کرتی ہوئی گیس پائپ لائن تھی۔ نہ یہاں‌ کی خواتین سروں‌ پر پانی لاتی ہوئی پائی گئیں نہ سروں‌ پر آگ جلانے والی لکڑیوں‌ کا انبار، نہ ہی تعلیم سے بے بہرہ تھے اور نہ ہی صحت کی ناگفتہ صورت حال سے دوچار تھے۔ نہ چوکیاں قائم تھیں‌ اور نہ کوئی پوچھ گچھ تھی امن ہی امن تھا۔
تب خیال آیا بلوچستان میں‌ شورش کے اصل محرکات کیا ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).