انسان مکڑا کیسے بنتا ہے


فرانز کافکا کی مشہور کہانی میٹامورفوسس (Metamorphosis) کا مرکزی کردار معمول کی ایک صبح اپنے بستر میں جاگتا ہے تو خود کو ایک مکڑے میں تبدیل ہوا پاتا ہے۔ ہمیں اس پہیلی نما کہانی کو سمجھنے میں کافی وقت لگا۔ اسی سال جنوری کی ایک صبح جب اپنی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی تو پوری طرح کھلا کہ کافکا اصل میں کہنا کیا چاہتا ہے۔ جنوری کی اس صبح لبرل بلاگرز کے لاپتہ ہونے کی خبر آئی تھی۔ ایسے میں غم و غصے سے بھی زیادہ جو کیفیت طاری تھی وہ بے بسی کی تھی۔ بے بسی ایسی کہ بستر سے نکلنا محال تھا۔ خالی آنکھیں بمشکل چھت سے دیوار اور واپسی کا سفر کر پا رہیں تھی۔ مکڑا ہونا اور کسے کہتے ہیں؟

اب سال کے آخری مہینے عزیز دوست اور سماجی کارکن رضا خان کے غائب ہونے کی خبر آئی ہے۔ جنوری کی طرح اس بار بھی ایک ہی خیال نے بوجھل کیا کہ پہلے دوستوں کے دوست لاپتہ ہو رہے تھے، اب میرے دوستوں کی باری ہے۔ اسی طرح میری باری کب آ جائے کون کہہ سکتا ہے۔ دو مہینے پہلے ایک قریبی دوست کو لاہور کے گلبرگ میں واقع کتابوں کی ایک مشہور دکان سے دن دہاڑے اٹھایا گیا۔ اٹھانے والے مہربان تھے۔ ‘سبق’ سکھا کر اسی دن کتابوں کی دکان پر لوٹا دیا۔ ایک کہاوت ہے کہ کسی ایک دوستی کے ٹوٹنے کا احساس ایسا ہی ہے جیسے جسم کا ایک حصہ علیحدہ ہو جائے۔ دوست کے جبری طور پر غائب ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے؟ غالبا جسم کے آدھے رہ جانے جیسا۔

رضا محمود خان کے کردار اور مفروضہ ‘جرائم’ کی صفائیاں پیش کرنا بے سود ہے۔ ابھی تو سرکاری عقوبت خانوں کی اس تصویر کو ذہن میں نقش کرنے کا وقت ہے جو لوٹ آنے والے وقاص گورائیہ نے بتائی۔ ابھی تو چند لمحات اس 4  بائی 2 فٹ کے رقبے میں باندھنے کا وقت ہے جہاں لاپتہ ہونے والوں کی ہونے والوں کی دنیا مقید ہوتی ہے۔ ابھی تو سوچوں کے سلسلے کو گالیوں کی اس بوچھاڑ کے رو برو لانے کا وقت ہے جو تپھڑوں، لاتوں اور چمڑے کے ‘چھتر’ سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ گالیاں بھی رضا کی بلند حوصلہ روح تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ لیکن کیا وہ دوسرے لوگوں کے سامنے ہوئی آبرو ریزی (rape) کی تکلیف کو بھی جھیل پائے گی۔ شعور کی پوری طاقت بھی ان وسوسوں کو دور کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

ریاست پاکستان نے ہم سب کو مکڑا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن جبری گمشدگیوں کے اس دیس کے ساتھ ہماری وفاداری کافکا کے مرکزی کردار کی اپنے خاندان کے ساتھ وفاداری جیسی ہے۔ گریگور سیمسا نہیں چاہتا کہ اس کے گھر والوں کو ہر روز تھکا دینے والے کام کی اذیت سے گزرنا پڑے۔ وہ یہ سب خود جھیلے گا تاکہ گھر والے عزت کی روٹی کھا سکیں۔ جہاں تک تکلیف اٹھانے کی بات ہے، وہ سمجھتا ہے کہ چاہے یہ گناہ اول ہے یا عارضی بھول، یہ بار اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ کیونکہ اپنا غم ہے گواہی تیرے حسن کی۔ اور اس گواہی پر قائم رہنے سے ہی مکڑے سے انسان بننے کی راہ نکلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).