کچھ بات ضیاالدین یوسف زئی کی۔۔۔۔


وہ انسان ہکلاتا تھا۔ بولنے میں اسے بہت پریشانی ہوتی تھی، بعض اوقات وہ ایک ہی لفظ پہ اٹک جاتا اور اسے دہراتا رہتا، یہاں تک کہ اچانک وہ سارے لفظ جو رکے ہوئے ہوتے‘ ایک دھماکے سے ادا ہو جاتے۔ اس کا باپ اس چیز سے چڑتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کا معزز انسان تھا۔ بلند آہنگ تھا، خطیبوں کے انداز میں بولتا تھا۔ بلکہ وہ تقریروں کے لیے مشہور تھا۔ ایک مسجد کا امام تھا۔ بولتا تو لوگوں کے لہو گرما دیتا تھا۔ جمعے کا وعظ سننے تو پتا نہیں کہاں کہاں سے لوگ آتے تھے۔ جب اس کا باپ مسجد میں کھڑے ہو کر‘ ایک گھنٹے تک لوگوں کو تبلیغ کرتا تو اس کی آواز بعض اوقات اتنی بلند ہوتی تھی کہ بغیر کسی لاؤڈ سپیکر کے دور کھڑے لوگ سن رہے ہوتے۔ وہ دنیا کے حالات پہ بات کرتا، تاریخ کی مثالیں دیتا، سیاست پہ بولتا، پھر مذہب سے مثالیں نکال کر لاتا، وہ سر سے پاؤں تک ایک مقرر تھا۔ ایسی گرجدار آواز والے انسان کے لیے ہضم کرنا بہت مشکل تھا کہ اس کا بیٹا ہکلاہٹ کا شکار ہے۔ بیٹا اپنی جگہ پریشان ہوتا تھا۔ وہ کتاب سے محبت کرتا تھا، اسے شاعری پسند تھی، وہ لفظوں کی دنیا کا آدمی تھا لیکن ہکلاہٹ اس کا اظہار چھین لیتی تھی۔ بیٹا بے بس تھا۔

اس کی ماں اسے ایک پیر صاحب کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے تھوڑا سا گڑ لیا، کچھ کھایا اور باقی کا اسے تھما دیا کہ روزانہ یہ کھاؤ گے تو روانی سے بولنے لگو گے۔ یہ علاج بھی فیل ہو گیا۔ جتنا زیادہ وہ چاہتا کہ اس کی آواز اپنے باپ کی طرح اونچی اور گونج دار ہو، اس میں ہکلاہٹ نہ ہو، اتنا ہی زیادہ وہ بولنے میں پریشانی محسوس کرتا۔ پھر اس کے حالات بھی ایسے تھے کہ کوئی بھی ایکسٹرا آرڈنری علاج یا مدد اسے میسر نہیں تھی۔

وہ ایک غریب فیملی میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ چونکہ استاد بھی تھا تو اسے پڑھائی کی فیس میں رعایت مل جایا کرتی تھی۔ اس ڈسکاؤنٹ کے لیے وہ جتنی بار بھی پرنسپل آفس کے پھیرے لگاتا، اتنی دفعہ اس کی شرمندگی میں اضافہ ہوتا۔ اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگتے۔ بعض اوقات تو اس کی ہکلاہٹ بھی اس وقت شدید تر ہو جاتی جب اسے پرنسپل سے یہ بات کرنا پڑتی۔ اسے لگتا کہ رعایت کے چند روپوں کے لیے اس کی عزت داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ اسے نئی کتابیں تک نہیں ملتی تھیں۔ اس کا باپ اپنے طالب علموں سے کہتا کہ تم لوگ جب پاس ہو جاؤ تو اپنا کورس سنبھال لینا، میں اپنے بیٹے کو بھیج کے منگوا لوں گا۔ اب کتابیں لینے جانا اس کے لیے ایک اور شرمندگی کا مقام ہوتا۔ وہ بہت زیادہ احساس اور اَنا والا انسان تھا لیکن اسے معلوم تھا کہ پڑھنا ہے تو اسی راستے سے گزرنا پڑے گا۔ اس کی بکس پہ کبھی اس کا اپنا نام نہیں ہوتا تھا۔ ”میں نئی کتاب چاہتا تھا، جس پر کسی اور لڑکے کا نشان نہ لگا ہوا ہو، اور جو میں نے اپنے والد کے پیسوں سے خریدی ہو‘‘۔

وہ دس برس کا تھا تو روس نے افغانستان پہ حملہ کر دیا۔ بہت سے پناہ گزین بھی اس جنگ کے دوران اس کے علاقے میں آ گئے۔ ان پناہ لینے والے بچوں کو جو کتابیں پڑھائی کے لیے ملتی تھیں ان میں میتھس کی مثالیں تک گولیوں کی جمع تفریق اور روسی کافروں کی مرنے یا بچ جانے کی ہوتی تھیں۔ علاقے میں جتنے بچے تھے وہ بھی اس جنگ کے حالات سے متاثر ہو رہے تھے۔ اس کے مدرسے میں اس لڑائی سے متعلق ایسے شاندار الفاظ میں گفتگو ہوتی کہ تمام بچے متاثر ہو جاتے۔ ایک دو سال بعد اس نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ روس کے خلاف لڑنے جائے گا۔ شاید بول نہ سکنے کی فرسٹریشن ہو گی‘ جس نے اسے یہ راستہ دکھلا دیا۔ یا شاید غربت ہو گی جو اسے شارٹ کٹ پہ مجبور کر

گئی۔ وہ ہر رات دعا مانگ کے سوتا کہ اللہ میاں حالات ایسے بنا دے کہ میں تیری راہ میں لڑوں اور کام آ جاؤں۔ ان دنوں خود کش بمبار بننے کا رواج نہیں ہوا تھا ورنہ شاید یہ آپشن اس کے لیے زیادہ آسان ہوتی۔ اب اس نے اپنے نام کے ساتھ ایک فرقے کا لاحقہ (تخلص ٹائپ چیز) بھی لگانا شروع کر دیا۔

جن دنوں وہ لڑائی پہ جا کر واپس نہ آنے کی دعائیں مانگا کرتا تھا‘ انہیں دنوں اس کی ملاقات ایک اور آدمی سے ہو گئی۔ تب اسے تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آیا ”ہم پشتون اس گھاس کی مانند ہیں جو خونخوار درندوں کے سموں تلے کچلی جاتی ہے‘‘۔ اس آدمی سے ملنے کے بعد اس نے رئیلائز کیا کہ جنگ اس کی نہیں تھی۔ جنگ دو بڑی عالمی طاقتوں کی تھی اور وہ محض ایندھن بننے جا رہا تھا، ایندھن بھی کیا، ایک چھوٹا سا کوئلہ؟ تو اب یہ چیپٹر بھی بند ہو گیا۔ اسی بیچ اس کے باپ نے گاؤں کے رواج سے ہٹ کر‘ اسے گورنمنٹ سکول میں بھیج دیا تاکہ بڑی کلاسیں وہاں پڑھ سکے۔ امام مسجد ہوتے ہوئے بھی اولاد کو جدید تعلیم دلوانا شاید وہ کام تھا جس نے اس کی زندگی کا ٹریک بدل دیا۔

وہ تیرہ برس کا تھا جب اس نے اپنے باپ سے کہا کہ وہ ایک مقابلے میں تقریر کرنے جا رہا ہے۔ باپ ایک دم حیران سا ہو گیا، اس کی طرف دیکھنے لگا، تم کیسے جا سکتے ہو؟ تم تو ایک جملہ بولتے ہوئے دو منٹ لگا دیتے ہو؟ پھر وہ ہنسنے لگ گیا۔ بیٹے نے کہا کہ آپ مجھے بس تقریر لکھ کے دے دیں، باقی میرا کام ہے۔ میں یاد کر لوں گا اور اسے پڑھ بھی دوں گا۔ یہ پورے ضلعے کا وہ مقابلہ تھا جو ہر سال ہوتا تھا اور بہت سے لوگ اس میں شریک ہوتے تھے۔ باپ پریشان تھا کہ یار! کوئی نیا مسئلہ نہ کھڑا ہو جائے، یہ بولنے گیا اور بول نہ سکا یا گھبرا گیا تو میری عزت بالکل ہی ختم ہو جائے گی۔ دوستوں نے منع کیا، استادوں نے سمجھایا کہ میاں پاگل پن چھوڑ دو، تم سے بات ہوتی نہیں ہے اور تقریر کرنے جا رہے ہو، سوچ لو، دوبارہ سوچ لو۔ بہرحال، اسے کے باپ نے اسے ایک اچھی تقریر لکھ کے دے دی۔

دن، رات، جنگل، پہاڑ، آسمان، ندی، پرندے، ہوا… سب اس کی یہ تقریر سنتے تھے، گھر میں اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہ پریکٹس کرتا، تو وہ باہر نکل جاتا تھا اور بس یہی ایک دھن اس پہ سوار ہوتی تھی۔

ایک اچھا خاصا مجمع وہاں موجود تھا۔ ہال علاقے میں رہنے والے سارے مردوں سے بھرا ہوا تھا۔ گاؤں‘ دیہات میں اس وقت ویسے بھی لوگوں کے پاس وقت ہوتا تھا تو سب لوگ سال کے اس دن کا انتظار کیا کرتے اور شوق سے اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔ بہت سے مشہور ڈیبیٹرز کے بعد اس کی باری آ گئی۔ ”میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور گھٹنے بج رہے تھے، میرا قد اتنا چھوٹا تھا کہ میں ڈائس کے اوپر سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سامنے موجود چہرے دھندلا سے گئے تھے۔ میری ہتھیلیوں پہ پسینہ تھا اور منہ ایک کاغذ کی طرح خشک تھا۔‘‘ پھر آخر کار اس نے بہت ہمت جمع کر کے بولنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ کبھی نہ رکنے کے لیے بولا۔ ایسی رواں تقریر کی جس طرح آبشار بلندیوں سے گرتی ہو۔ جب وہ چپ ہوا تو اس کا اعتماد اپنے میکسیمم لیول پہ تھا۔ ہال سب کی تالیوں سے گونج رہا تھا۔

جب اسے پہلا انعام ملا تو اس کا باپ فخریہ انداز میں تالیاں بجا رہا تھا۔ اپنے باپ کا مان بڑھانے کی خواہش پوری ہو چکی تھی۔ اس کے مطابق پوری زندگی میں یہ پہلا کام تھا جس نے ”بابا کو مسکرانے پر مجبور کر دیا‘‘۔ اس کا باپ اسے فخر سے ضیاء الدین شاہین کہتا تھا۔ ضیاء الدین بعد میں یوسف زئی کے لاحقے سے پہچانے گئے۔ وہ ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain