فلسطین کا مسئلہ نعرے بازی سے حل نہیں ہو گا


 

عالمی رائے عامہ اور مسلمان دنیا کے جذبات سے قطع نظر صدر ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ عملی طور پر اسرائیل 1967 سے اس مقدس شہر پر قابض ہے اور دنیا بھر کے ممالک اس قبضہ کو ختم کروانے کے لئے کوئی موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جس طرح ٹرمپ کا یہ اعلان علامتی نوعیت کا ہے کہ ایک متنازعہ اور تاریخی اہمیت کے حامل شہر کو جس پر اسرائیل نصف دہائی سے قابض ہے، اب باقاعدہ اس کا دارالحکومت تسلیم کر لیا جائے۔ اسی طرح ان تمام برسوں میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرنے کا عالمی فیصلہ بھی صرف علامتی حیثیت ہی رکھتا ہے۔ فرانس سمیت جو اس وقت امریکی فیصلہ کے خلاف سب سے طاقتور اور موثر آواز کی حیثیت رکھتا ہے ۔۔۔۔۔ تمام مغربی ممالک عملی طور سے اسرائیلی جارحیت کو تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطینیوں کا احتجاج حماس کی طرف سے ہو یا انتفادہ کی صورت میں نوجوان اشتعال انگیزی کریں ۔۔۔۔۔ تمام یورپی ملک ان اقدامات کو مسترد کرنے میں ہم آواز رہے ہیں۔ پھر صدر ٹرمپ کے اعلان پر اس قدر عالمی ردعمل کا کیا مقصد ہو سکتا ہے اور کیا اس سے عملی طور پر فلسطینیوں کی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ فلسطینیوں کے علاوہ مسلمان ملکوں کو بھی اس سوال کا سامنا کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مشرق وسطیٰ میں اس وقت جو اسٹریٹجک اشتراک سامنے آ رہے ہیں ان کے تناظر میں امریکی صدر کے یک طرفہ اعلان کے بعد کوئی ڈرامائی تبدیلی رونما ہونے کا امکان نہیں ہے۔ سعودی عرب کی ایران سے نفرت یا اس کے اثر و رسوخ کا خوف اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے سے زیادہ قوی ہے۔ اسی لئے سعودی عرب کی طرف سے اگرچہ عرب رائے عامہ کو مطمئن رکھنے کےلئے امریکہ کے فیصلہ پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اس تاسف میں مذمت یا مسترد کرنے کی وہ شدت دکھائی نہیں دیتی جو سابق صدر باراک اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے سوال پر ریاض کی طرف سے سامنے آئی تھی۔ اس وقت سعودی عرب اور اسرائیل یکساں قوت اور شدت سے واشنگٹن میں یہ لابی کرنے میں مصروف رہے تھے کہ کسی طرح باراک اوباما کو ایران کی طرف دوستی و امن کا ہاتھ بڑھانے سے روکا جا سکے۔ مشرق وسطیٰ میں ان دونوں ملکوں کے مفادات یکساں نوعیت کے ہیں۔ اس لئے اگرچہ سعودی عرب نے ابھی تک اسرائیل کو باقاعدہ طور سے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کا رشتہ بھی موجود نہیں ہے۔ اب سعودی عرب کی حکومت ان خبروں کی تردید کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط ہیں اور دونوں ملکوں کے نمائندے علاقے میں امن و سلامتی کے حوالے سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ شہزادہ محمد سلمان نے گزشتہ ماہ 500 ارب ڈالر لاگت سے ایک نیا شہر آباد کرنے کا جو منصوبہ پیش کیا ہے، کئی اسرائیلی کمپنیاں اس کا حصہ بننے کےلئے سعودی سرکاری سرمایہ کاری اداروں سے رابطے میں ہیں۔

اس پس منظر میں مستقبل قریب میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قربت کے مزید آثار بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ امریکہ کےلئے بھی یہ قربت قابل قبول ہے۔ دونوں ملک اس کے قریب ترین حلیف ہیں اور دونوں کو امریکی اسلحہ وافر مقدار میں فراہم کیا جاتا ہے۔ سعودی شاہی خاندان مشرق وسطیٰ پر تسلط اور اپنی حکومت برقرار رکھنے کےلئے اسرائیلی تعاون پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور بھی ہوگا اور اس کی آمادگی بھی سامنے آنے لگی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اس حکمت عملی کی زیادہ شدید مخالفت ایران اور ترکی کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ترکی، امریکہ اور مغرب کے ساتھ اپنے تہہ در تہہ تعلقات کی موجودگی میں اسرائیل کے خلاف کسی سنجیدہ اور طویل المدت منصوبہ کا حصہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح ایران شام اور لبنان میں اپنی موجودگی کی صورت میں ضرور اسرائیل اور امریکہ کےلئے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے لیکن وہ اس قسم کی حکمت عملی سے سعودی عرب کے خوف میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہی خوف سعودی عرب کی حکومت کو امریکہ کا ہاتھ تھامے رکھنے اور اسرائیل کی طرف پرامید نظروں سے دیکھنے پر مجبور کرتا رہے گا۔

دریں حالات ایران عملی طور سے فلسطینی عوام کےلئے سہولت فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ البتہ اس کی طرف سے فراہم ہونے والی امداد کی بنیاد پر جو فلسطینی گروہ مقبوضہ عرب علاقوں میں احتجاج، تشدد یا بدامنی کو فروغ دیں گے، وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے خواب کو مزید دھندلانے کا سبب بنیں گے۔ باقی مسلمان ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے اس ساری صورتحال میں نہ تو امریکی تھارٹی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ وہ فلسطینیوں کی مدد کے لئے عملی اقدامات کرنے کے قابل ہیں۔ اس لئے اسلام آباد اگر صدر ٹرمپ کے فیصلہ کی مذمت بھی کرتا ہے تو وہ اس سے کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بیان صرف عرب رائے عامہ کو خوش کرنے کے لئے دیئے جاتے ہیں جبکہ عرب دنیا میں فیصلہ سازی کا محور اس وقت سعودی عرب ہے۔ اگرچہ یمن جنگ کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب میں فاصلہ پیدا ہوا ہے لیکن پاکستان ابھی تک سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو قبول کرنے اور اس کی رائے کو وزن دینے پر مجبور ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ 20 لاکھ سے زائد وہ پاکستانی ہیں جو اس وقت سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور جن کا بھیجا ہوا زرمبادلہ پاکستان کےلئے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایران کا ہمسایہ ہونے اور اس کے ساتھ وابستہ گونا گوں مفادات کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کوئی اہم پیش رفت کرنے میں ناکام ہے۔ دیگر مالی مفادات کے علاوہ اسلام آباد کے پالیسی سازوں کو یہ خوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے کہ اگر انہوں نے سعودی حکومت کو ناراض کیا تو ایک فرمان شاہی کے ذریعے پاکستانی کارکنوں پر سعودی سرزمین تنگ کی جا سکتی ہے۔ خاص طور سے شہزادہ محمد بن سلمان کے طاقتور ہونے اور فیصلے کرنے کا اختیار حاصل کرنے کے بعد صورتحال تبدیل ہو چکی ہے، کیونکہ وہ فوری اور بے خوف فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔

جو عناصر پاکستان کی سڑکوں اور گلیوں پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف گلا پھاڑ کو چلانے، ٹرمپ کے پتلے جلانے اور امریکی و اسرائیلی جھنڈے پاؤں میں روند کر یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہیں، انہیں حقیقت حال کا ادراک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ان عناصر کو اشتعال دلانے اور سڑکوں پر لانے والے اداروں یا میڈیا کے نمائندوں کو بھی یہ باور کرنا چاہئے کہ اس طرح نہ پاکستانی مفادات کا تحفظ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فلسطین کو آزاد کروایا جا سکتا ہے۔ فلسطینی عوام کو سہولت فراہم کرنے کا راستہ فی الوقت سعودی عرب سے ہو کر ہی جاتا ہے۔ گزشتہ 50 برس کے دوران جذباتی نعروں، عرب اسرائیل جنگوں، تصادم کی پالیسی اختیار کرنے سے فلسطینیوں کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل مسلسل مضبوط ہوا ہے اور اس کی مزاحمت کرنے والی عرب حکومتیں اور رہنما ایک ایک کرکے منظر نامہ سے غائب ہو چکے ہیں۔ عرب ملکوں میں اب امریکہ نواز حکومتوں کا راج ہے۔

بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلہ کے نتیجہ میں اس مسئلہ کو حل کرنے کی شعوری کوششوں سے ہی بہتری کی امید ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اس اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال میں فلسطینی مسئلہ پر کوئی نہ کوئی رعایت دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ سہولت حاصل کرنے کےلئے سفارتی ہنر مندی، سیاسی ہوشمندی اور نعرے بازی کی سطح سے بلند ہو کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali