ہمارے بوڑھے اکیلے کیوں رہ جاتے ہیں؟


بیجنگ میں عمر رسیدہ لوگ بہت نظر آتے تھے۔ یہ لوگ ہمیشہ مختلف کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کوئی ورزش کر رہا ہوگا تو کوئی پوتے یا پوتی کو کنڈر گارٹن چھوڑنے جا رہا ہوگا۔ شام کے اوقات میں بوڑھے مرد اور عورتیں ٹولیوں کی صورت میں اکٹھے ہوتے تھے اور مختلف ورزشی کھیل کھیلتے ہیں۔ باتونی عورتیں دو یا تین کے گروہ میں تیز تیز چہل قدمی کر رہی ہوتی ہیں۔ ذرا سنجیدہ قنم کے لوگ ایک چینی کھیل جیانزی کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں کھلاڑیوں نے چڑی کو اپنے جسم کے مختلف حصوں (سوائے ہاتھوں) کا استعمال کر کے فضاء میں ہی بلند رکھنا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ اس کھیل میں اپنے پیروں کا استعمال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ چین میں مختلف ایسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جو لوگوں کو بہت کم قیمت میں مختلف جگہوں کی سیر کو لے کر جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی سمارٹ فون ایپلیکیشنز کے ذریعے ان ٹرپس میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے۔ کمپنی کی بسں مخصوص پوائنٹس سے لوگوں کو لیتی ہے اور منزلِ مقصود کو چل پڑتی ہیں۔ شام میں ان لوگوں کو واپس اسی مخصوص پوائنٹ پر اتار دیا جاتا ہے۔ ان پراگرامز میں بوڑھے افراد کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔ یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ٹرپ پر جاتے ہیں، اپنے ملک کی مختلف جگہیں دیکھتے ہیں اور نئے دوست بناتے ہیں۔

چین میں ریستوران بھی ہر درجے کے موجود ہیں۔ فائیو سٹار بھی بہت مہنگے نہیں ہیں اور تین یا چار سٹار ریستوران میں بھی بہترین سروس ملتی ہے۔ یہ لوگ ہفتے میں دو سے تین بار اپنے کسی پسندیدہ ریستوران میں اکٹھے ہوتے ہیں اور رات کا کھانا کھاتے ہیں۔ شرابوں کا دور چلتا ہے، قہقہے لگاتے ہوئے بیتے وقتوں کی باتیں کی جاتی ہیں اور جدا ہونے سے پہلے اگلی ملاقات کا منصوبہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔

مغرب میں جائیں تو وہاں کی حکومتوں نے بڑی عمر کے لوگوں کو مزید سہولتیں فراہم کی ہوئی ہیں۔ میری دادی کی ایک بہن امریکہ رہتی ہیں۔ ان کے سب بچے شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھر میں رہتے ہیں۔ اب انہوں نے اکیلے پن کا حل یہ نکالا کہ اپنے گھر میں ڈے کئیر سینٹر کھول لیا اور کچھ ملازم بھی رکھ لیے۔ ان کا پورا دن ان بچوں کی دیکھ بھال میں گزر جاتا ہے۔ مصروفیت کے ساتھ ساتھ انہیں آمدن کا ایک ذریعہ بھی مل گیا ہے۔ سال میں ایک دفعہ وہ اور ان کے شوہر اپے دوستوں کے ساتھ کسی نہ کسی ملک کی سیاحت کو چل پڑتے ہیں۔ چند ہفتے گزار کر جب وہ واپس آتے ہیں تو پہلے سے زیادہ تروتازہ اور خوش ہوتے ہیں۔ ان کے بچوں کے ساتھ بھی ان کا ایک صحت مندانہ رشتہ ہے۔ مہینے میں دو بار سب ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے مختلف قصے سنتے ہیں، پرانی تصاویر دیکھتے ہیں اور مل کر کھانا کھاتے ہیں۔

پاکستان میں ایسا دیکھنے کونہیں ملتا۔ نہ ہی ہماری حکومت نے ان لوگوں کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے اور نہ ہی یہ لوگ اپنے اس عمر کے لیے کوئی تیاری کر کے رکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری ثقافت میں ہر انسان کسی دوسرے کے لیے جیتا ہے۔ اگر وہ نہیں جیتا تو بس اپنے لیے نہیں جیتا۔ ماں باپ کو آرام دینے کی خواہش میں ہم انہیں بیکار بنا دیتے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اپنے بچوں کی شادی کے بعد وہ اکیلی ہو گئی ہیں۔ ان سے تفصیلات دریافت کیں تو کہنے لگیں کہ بیٹے سارا دن کاروبار کی وجہ سے گھر سے باہر ہوتے ہیں اور بہووئیں انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیتیں۔ ان خاتون کا پورا دن ادھر ادھر فون کرنے اور ٹی وی دیکھنے میں گزرتا ہے۔ ان جیسی ہزاروں خواتین ہین، مردوں کی الگ کہانیاں ہیں۔

میرے دادا اپنی زندگی کے آخری دو برسوں میں بالکل اکیلے رہ گئے تھے۔ وہ میرے ایک چچا کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر وقت کی روک ٹوک کی وجہ سے بچے ان کے پاس جانے سے کتراتے تھے۔ چچی گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔ میرے بھائی نے اس وقت ایک مدرسے سے قرآن حفظ کرنا شروع کیا۔ اس کا مدرسہ دادا کے گھر کے پاس تھا۔ دوپہر میں اسے تین گھنٹوں کی بریک ہوتی تھی۔ اس بریک میں وہ دادا کے پاس چلا جاتا تھا۔ چچی نے بتایا کہ جب سے یہ آرہا ہے دادا کو ایک مصروفیت مل گئی ہے۔ اس کے آنے سے پہلے اپنا کمرہ خود ٹھیک کرتے تھے۔ اپنے بستر پر اس کے لیے جگہ بناتے تھے۔ اس کے سونے کے بعد الارم دیکھتے رہتے تھے اور وقت پر اسے اٹھا دیتے تھے۔

بہت کم افراد ایسے نظر آتے ہیں جو اس عمر میں بھی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہمارے بڑھاپے کی تیاری بس بڑھاپے کے سہارے پیدا کرنے تک محدود رہ جاتی ہے۔ بڑھاپے کے سہاروں کے باوجود بڑھاپے میں ہمارا واحد سہارا تنہائی ہوتی ہے جو ہمیشہ وحشت ناک ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).