یروشلم، ڈونلڈ ٹرمپ اور مسلم امہ


یروشلم اور انسانی تاریخ کا ساتھ کم وبیش سات ہزار سال قبل مسیح شروع ہوتا ہے۔ مختلف مذاہب کی کتابوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس جگہ کی اہمیت ماضی سے شروع ہو کر آنے والے وقت میں بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب کی اس جگہ سے بڑی مضبوط وابستگی ہے۔ مسلم امہ اسے بیت المقدس اس لئے کہتی ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور آخری پیغمبرمحمدﷺ نے معراج کا سفر اسی مقام سے شروع کیا۔ مسیحی برادری کے لئے اس جگہ کی اہمیت اس لئے ہے کہ حضرت عیسیٰ نے دنیا میں اپنے آخری ایام اسی یروشلم میں بسر کیے اور اسی مقام پر مصلوب کیا گیا، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی اسی مقام پر دی اور کائنات کی تخلیق یہیں سے ہوئی۔

اگر صرف پچھلی دس صدیوں پر نظر دوڑائی جائے تویروشلم کی تاریخ سلطان صلاح الدین ایوبی سے لے کر پچاس سال قبل لڑی جانے والی عرب اسرائیل جنگ تک خونی معرکوں سے بھری پڑی ہے، اس سارے عرصے میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ اس خطے پر حکومت کی جس کا دورانیہ تقریبا سات سو سال سے زائد تک کا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے بادشاہ سلیمان نے پندرہویں صدی میں اس شہر کے گرد ایک فصیل قائم کروائی جس کی لمبائی تقریبا 4، 018 کلومیٹر کے قریب تھی، اس دیوار کو بنانے کا بنیادی مقصد اس مقدس شہر کو مزید جنگ اور انتشار سے پاک رکھنا اور اس پر مسلمانوں کا کنٹرول مزید مضبوط کرنا تھا، آج سے پورے ایک سو سال پہلے جب سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا تو یہ شہر برطانوی راج کے زیر قبضہ آ گیا اورتقریبا تین دہائیاں تخت برطانیہ اس پر حکومت کرتا رہا۔

1947 میں اقوام متحدہ نے تمام مذاہب کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یروشلم کواپنے زیر اثر لینے کی منظوری تو دے دی مگر قبل اس کے کہ عملی طور پراس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے عالمی جنگ دوم کے اثرات نے اس خطے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور بر طانیہ نے یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کر لیا اگلے ہی سال 1948میں اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اسی سال اسرائیل نے اقوام متحدہ کے اس عمل سے انکار کرتے ہوئے مغربی یروشلم کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا۔ ان عوامل کی وجہ سے عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی عمل میں آئی جو آج بھی فلسطینی مہاجر کیمپ کی صورت میں ایک بڑی تعداد میں فلسطین میں ہیں۔ اس جنگ کے بعد فلسطین غزہ کی پٹی تک محدود ہو کر رہ گیا اور یروشلم کا یہ مشرقی حصہ دو دہائیوں تک اردن کے زیر اثر رہا۔ 1967 میں ایک مرتبہ پھر عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا، یہ جنگ چھ دن جاری رہی جس کے نتیجے میں عرب قوتوں کو مشرقی یروشلم سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور یہ حصہ بھی اسرائیل کے زیر تسلط آگیا۔

اس دن سے آج دن تک اس علاقے کو متنازعہ سمجھا جاتا رہا۔ اس مسئلے کے حل کے لئے اور اسرائیل کو واپس 1967 سے پہلے والی جغرافیائی درجہ بندی میں واپس لانے کے لئے بے شمار کوششیں ہوئی، عالمی دنیا نے ثالثی کی پیشکش کی، اقوام متحدہ میں قراردادیں لائی گئیں مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ امریکا بھی اس معاملے میں کھل کر اظہار رائے سے گریز کرتا رہا۔

مگر ایک لمبے عرصے کے بعد ٹرمپ کے حالیہ اعلان نے ایک مرتبہ پھر اس مسئلے کو ہوا دی ہے۔ جس میں امریکہ نے باقاعدہ طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور اپنی ایمبسی کو بھی نئے دارالحکومت میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے صدارتی منصب سنبھالا ہے یہ سب سے اہم اعلان سامنے آیا ہے جس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، مسلم ممالک کی طرف سے مذمتی بیانوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حماس نے بھی کڑے نتائج کی دھمکی دی ہے۔

ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد مشرق وسطیٰ میں اور خاص طور پر فلسطین میں قیام امن کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے اور اس خطے کو ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کے دریا میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصر، شام، عراق، لیبیا میں تو یہ آگ پہلے ہی پوری طرح پہنچ چکی تھی اور باقی رہ جانے والے عرب ممالک مسلکی تفریق اور دیگر عوامل کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں،

اس سارے معاملے میں قابل ذکر امر یہ ہے کہ 1967 میں عرب ممالک کی بد ترین شکست کے بعد بھی ان ممالک نے اس مسئلے کے حل کے لئے کیا کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی، اسرائیل نے جب یہودی بستیوں کی آبادکاری کا آغاز کیا تو تمام مسلم امہ بشمول عرب ممالک نے مذاحمتی بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے۔ جب 2002 میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں فلسطین کو دیوار کے ذریعے مزید پیچھے دھکیلنے کے منصوبے پر عمل در آمد شروع کیا تو بھی تمام اطراف سے خاموشی دیکھنے کو ملی۔

فلسطین کے حوالے سے اسرائیل اور امریکا کے اقدامات پر تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کواپنی نا اہلی کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جواس سارے عرصے میں پراکسی وار میں مصروف رہے اور ابھی تک مصروف ہیں، اسرائیل نے اپنی طاقت کے ذریعے عرب ممالک کو بری طرح شکست تو دی ہی تھی مگر ان کی سفارتکاری کو بھی داد دینی چاہیے جس نے آج معاملات کو یہاں تک پہنچایا اور اپنا مقصد حاصل کر لیا۔

عرب ممالک کی سپر پاور سمجھا جانے والا ملک سعودی عرب بھی اس معاملے پر دبے الفاظ میں مذمت کر رہا ہے، آنے والے دنوں میں شاہی سلطنت کیا واضح حکمت عملی اپناتی ہے اس کا انتظار کرنا ہوگا مگر یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب مشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے تو سعودی عرب کے بعد وہ سیدھے اسرائیل پہنچے تھے۔

شاہی خاندان کے ساتھ روایتی رقص میں امریکی صدر کو کتنی گرمجوشی نظر آئی، اس اقدام کو جو آج ٹرمپ نے اٹھا یا ہے کو اس گرم جوشی سے کتنی تقویت ملی یہ تمام پہلو بھی قابل توجہ ہیں۔

اورپھر شاید عرب ممالک کی اپنی کمزوریاں، ایک ہی خطے میں رہ کر اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی، شیعہ سنی طاقت کی جنگ نے اسرائیل اور امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ اگر یہ انتہائی اقدام اٹھا بھی لیا جائے تو سوائے مذاحمتی بیانات کے کچھ سامنے نہیں آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ میرے اس اقدام کے فورا بعد مسلم امہ او آئی سی کے فورم پر اکٹھی بھی ہو گی، دل کھول کراس فیصلے پر تنقید بھی کی جائے گی مگر شاید مسٹر ٹرمپ کو یہ یقین بھی ہو کہ یہ سارا عمل ”نشستند گفتند و برخاستند ”کے فقرے پر ہر طرح سے پور ابھی اترے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).