دو روٹیاں چوری کرنے والے ننھے مجرم


ایک تصویر میرے سامنے ہے اور بہت بول رہی ہے۔
دو بچے ہیں جنہیں خالق کائنات نے بہت پیار سے بنایا ہے۔ ان کے نقوش اعضاء سب تکمیل کا نمونہ ہیں۔ مگر ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔ چوری کرتے پکڑے گئے۔ کیا چوری کی انہوں نے۔ روٹی۔

سرخی کچھ یوں ہے کہ باپ کا سایہ سر پہ ہے مگر اس سائباں میں سایہ دینے کی صلاحیت نہیں۔ بھوک کی دھوپ اور غربت کی ٹھٹھرا دینے والی سردی اس سایے سے ڈھکی نہیں جاتی انہوں نے ماں کی گود میں چھپنے کی کوشش کی بھی کی مگر وہ گود صبر اور برداشت کی گرمی سے خالی تھی۔ غربت کی چکی میں پستے ہوئے نشئی شوھر کے ہاتھوں تنگ آ کر وہ انہیں چھوڑ کر کسی کے ساتھ زندگی کو زندگی سمجھ کر گزارنے چل دی تھی۔

شاید کہیں سے محبت بن مانگی بارش کی طرح برس جائے۔ یہ بچے خود رو پودے کسی بنجر زمیں میں بغیر کسی نمو کے بفیر دیکھ بھال کے اگ رھے ہیں۔ چوری کا جرم نا قابل معافی ہے بجا ہے۔ مگر ہمارا مجموعی معاشرتی رویہ کیا ہے۔ دل فگار رد عمل ہے کہ ان کے ہاتھ باندھ کے بٹھایا گیا ہے گویا ہاتھ کھولے تو ملک لوٹ کے کھا جائیں گے

معذرت کے ساتھ ابھی ان کے بندھے اتنے لمبے اور دل مجرمانہ حد تک وسیع نہیں ہوئے کہ ملک کو باپ کا خزانہ سمجھ کے لوٹ کے کھا جائیں۔ پھر نیب کے سامنے پیش ہونے سے ڈریں۔ اوردو روٹیاں چرا کے اشتہاری قرار دیے جائیں۔

ابھی تو وہ ہمارے رویوں کی مار سہہ رہے ہیں۔ کل کو سیکھیں گے چوری کے بعد ڈاکہ کیسے ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم نے اپنا معاشرتی فرض ادا نہ کیا۔ ہمارے مال میں غریبوں اور ناداروں کا حصہ ہے۔ سائل کو جھڑکیاں دینے سے منع فرمایا گیا ہے۔ سورہ ماعون میں واضح طور پہ کہا گیا

بھلا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے یہ وہی بد بخت شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور لوگوں کو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ ۔

یہ شخص آپ میں ہم کوئی بھی ہو سکتا ہے جو ناداروں کی ناداری سی بے خبر ہو جو غربت کی جھریوں میں چھپی بے بسی کو محسوس نہ کر سکتا ہو۔ جو اپنے ہمسائے میں ٹھنڈے چولہے سے بے خبر ہو۔ جو ان ننھے ہاتھوں سے چوری کی گئی روٹی چھیننے میں پیش پیش ہو۔ جو ان ہاتھوں کو باندھنے کے لیے رسی لایا ہو جو ان ننھے بچوں کا تماشا دیکھنے میں سب سے آگے ہو جس نے ان کے سرخ چہروں پہ پہلا تھپڑ مارا ہو۔ کیا اس میں اتنی ہمت ہے کہ سب کے سامنے اپنے منہ پہ خود تھپڑ مار سکے۔ اپنے بندھے ہاتھوں کو خود کھول سکے

کہ وہ کسی نادار کو ایک وقت کی روٹی نہیں دے سکتے۔ اور کچھ نہیں تو کیا اتنی ہمت بھی نہیں کہ اپنی بد بختی کا پرچار خود کر سکے۔ کہ قران ایسے شخص کو بدبخت کہتا ہے۔ جو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

اُمید ہے ایسی بستی کی جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو
دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دُشوار نہ ہو
مرنا بھی آزار نہ ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو
یہ بستی کاش ہماری ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے
دل سب کے سب صاف ملے
اک آس ہے ایسی بستی کی
جہاں بھوک سے روٹی سستی ہو۔ !

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).