تھوڑی دیر عابد معز کے ساتھ


عابد معز کو پڑھا تو تھا، لیکن اتنا نہیں کہ اُن کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔ پھر ایسا ہوا کہ عزیزی ڈاکٹر نازش اعظمی کے یہاں اُن کی کتاب ’ ذیابیطس کے ساتھ ساتھ ‘ دیکھنے، بعد میں اُڑا کر پڑھنے کو ملی اور پھر ہمارے کسی رفیق ِ کار کو وہ اتنی بھائی کہ وہ اُسے لے کر چلتے بنے اور آج کی صورت ِ حال یہ ہے کہ غالباًوہ ’کتاب‘ اُن کے پاس ہے اور یقیناذیابیطس ہمارے ساتھ۔ نازش اعظمی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اُن پر ہمہ وقت کوئی نہ کوئی دُھن سوار رہتی ہے، آج کل وہ اُردو کی خدمت میں مصروف اور سمینار کے کرب میں مبتلا ہیں۔ مجھے بھی کرب ناک کرنے کی جگت میں تھے، لیکن پھر پتہ نہیں کیوں رحم دل سے ہوگئے کہ بیشک اللہ رحم کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اُن کی سمینار کربی سے مجھے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کی طلب پراُن کے در ِ دولت پر حاضر ی کا غیر معمولی موقع مل گیا اور اس غیر معمولیت کے طفیل ان کے ذخیرہ ٔ کتب سے عابدمعز کی کئی کتابیں پار کرنے کے امکانات پیدا ہوگئے مزید اس متوقع سمینار میں اُن کی متوقع شرکت سے اُن سے ’ روبرو‘ ہونے کے بھی سبیل بھی نکلتی نظر آرہی تھی۔ در اصل ہم نے نازش اعظمی کے یہاں عابد معز کی کئی کتابیں دیکھ لی تھیں، سُو خود پر لازم کرلیا تھا کہ ہم عابد معز پر کچھ ضرور لکھیں گے۔ جب اس کا اظہار نازش اعظمی سے کیا تو اُنہوں نے کہا، ’ آپ کتابیں بیشک لے جائیے، لیکن آن محترم پر لکھنے کی قطعی زحمت نہ کیجئے، کوئی اور صاحب اُن پر لکھ رہے ہیں‘۔ اُس وقت ہمیں جاکر احساس ہوا کہ نازش اعظمی پربھی ہمارے علمی احوال منکشف ہوگئے ہیں۔

لیکن میں نے ہمت ِ مرداں مدد ِ خدا کے مصداق ہمت نہیں ہاری اور نازش اعظمی کے منع کرنے کے باوجود ہم عابد معز سے روبروہونے کا گویا بندوبست کرلیا وہ اس طورکہ اُن کی تین عدد کتابوں اور اُن کی کارگزاریوں کے بکھان پرمبنی ایک ماہنامہ کے خصوصی شمارے کو از اوّل تا آخر، بڑی شتابی سے پڑھ ڈالا، یہ بات دیگر ہے کہ پڑھا سب کچھ، سمجھا بقدر ِ ضرورت، کہ اس سے زیادہ کے لیے نہ تو ہمارے اندر گنجائش تھی، نہ ہی ہمت اور سکت۔ سوچا تھا کہ اس سمینار میں عابد معز پر کچھ لکھ کر ہم بھی سرخ رو ہوجائیں گے، لیکن نازش اعظمی تھے کہ کسی بھی طور ہمیں عابد معز سے دور رکھنا چاہتے تھے اور ہم تھے کہ بہر حال اُن کی صحبت اُٹھانے کی جُگاڑ میں تھے۔ احتیاطاًہم نے اُن موہوم خدشات کا بھی جائزہ لیا، جو آن ممدوح سے ہماری متوقع ملاقات کے یقینی رد ِ عمل کے طور پر نازش اعظمی کے ذہن میں پرورش پاسکتے تھے، پھر ہمیں احساس ہوا کہ کہیں عابد معز سے ہماری ’روبرو ‘ ہونے کی دلی خواہش کے بیانیہ کے لفظیات میں کچھ الٹ پھیر تو نہیں ہوگئی؟ کہ ہمیں نازش اعظمی کی فہم وفراست پر ذرا بھی شبہہ اور اُن کے جسمانی وجود سے کوئی خدشہ نہ تھا، پھر ہم نے ذرا سے غور وفکر کے بعد لفظیات کے صحرا سے بالآخر اُس لفظ کو تلاش کر ہی لیا، جس نے آں عزیز کو ہمارے تئیں بیش حسیت میں مبتلا کردیا تھا، غالباً اُنہوں نے ہماری ’ روبرو ‘ ہونے کی علمی خواہش کو ہمارا’ دوبدو‘ ہونے کا ارادہ سمجھ لیا تھا اور یقینا اسی لیے تو وہ ایک اچھے میزبان کی طرح عابد معز کے تحفظ میں لگ گئے تھے۔

عابد معز کو پڑھتے ہوئے کئی با ر گمان گزراکہ وہ واقعی پڑھے، لکھے ہیں، لیکن کبھی یہ رائے بھی بنی کہ وہ غالباً لکھے، پڑھے ہیں۔ وہ اپنی بیشتر تصویروں میں ’فارغ البال‘ نظر آتے ہیں اور اپنی اکثر تحریروں میں خود کو ’فارغ البال ‘کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں۔ اصلاً اول الذکر میں وہ جذبۂ ترحم بیدار کرنے کی سعی بلیغ کرتے ہیں اور آخر الذکر میں اپنے ترحم کے جذبہ سے دوسروں کو فیض یاب کرنے کی عملی کوششیں اور مابعد کی تدبیریں ڈھونڈ تے نظر آتے ہیں۔ وہ یقینا بہر معنی و مفہوم فارغ البال ہیں، لیکن فارغ البال اور فارغ البالی کے اپنے کچھ مسائل بھی ہیں۔ فارغ البال ہونے کے مسائل بہت زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے، بس ذرا سی احتیاط اور تھوڑی سی ہشیاری سے اُن پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن فارغ البالی کے لازمی نتیجہ کے طور پر حاصل ہونے والے وسائل کوبرتنے سے ایسے غیر معمولی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں کہ جس کا حل کسی حکیم ِ داناکے اقلیم ِفکر و فراست سے بھی باہر ہے۔ عابد معز فارغ البالی کے لازمی وسائل اور اس کے بعد کے یقینی مسائل سے خوب واقف ہیں، اسی لیے تو حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنی تحریروں میں اپنی ’منکوحہ ‘ اور دوسروں کی ’بیگمات‘ کا بہت شدت سے مذاق اڑاتے ہیں، وہ بھی اس پیشہ ورانہ دانشوری کے ساتھ کہ ’ منکوحہ‘ اور ’بیگمات ‘کو اُن کی

فارغ البالی کے خوبصورت وسائل کی بے حد خوبصورت جھلک کی بھنک تک نہ لگ سکے اور خود وہ بہمہ خواص و صفات محفوظ، مامون اور شاد کام رہیں۔

عابد معزبڑے کام کے، اچھے اور بے حد منجھے ہوئے طنز و مزاح نگار ہیں۔ اُن کا میدان ِ کار زار بڑا بھرا پُرا ہے۔ وہ عثمانیہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور تغذیہ و استحالی امراض میں پوسٹ گریجوئیٹ ہیں اورنہ صرف ہندوستان وپاکستان، بلکہ اردو زبان و ادب کی نئی کالونیوں میں بھی اُن کا بڑا دبدبہ اور وہاں کے جریدوں اور رسالوں پر جابرانہ قبضہ ہے۔ وہ معاشرہ کے مضحک پہلوؤں پربڑی دیانت اور دل سوزی سے لکھتے ہیں۔ ڈھیرساری کتابوں کے حقیقی مصنف و مؤلف ہیں او ر متعدد دوسری کتابوں کی تصنیف کے محرک ہیں۔ اُنہوں نے اردو میں لکھنے والوں کی ایک نا معتبر جماعت کو تصنیف و تالیف کے کارِ بے کار میں لگا دیا ہے اور سرگوشی کی ہے کہ آپ ہی لوگوں کے وجود سے اِس جہان ِ رنگ وبو میں دانشوری قائم ہے، پھر تو اُن کی تشکیل کردہ جماعت نے دانشوری کے ایسے جوہر دکھائے کہ خود عابد معز بھی پریشانی کی حد تک حیراں اور تدارکی تدابیر میں سرگرداں دکھائی دیے۔

عابد معزچونکہ بذات ِ خود اعلیٰ درجہ کے بڑھے لکھے ہیں، اسی لیے اعلیٰ درجہ کی فن کاری بھی دکھاتے ہیں۔ ابھی ہم نے عرض کیا کہ وہ کئی کتابوں کے حقیقی خالق ہیں، اُن کی سنجیدہ کتابوں میں’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ ‘ اور ’ چکنائی اور ہماری صحت ‘ کو غیر سنجیدہ لوگوں نے بھی انتہائی سنجیدگی سے پڑھا ہے۔ اسی طرح اُن کی غیر سنجیدہ کتابوں ’ واہ حیدر آباد، یہ نہ تھی ہماری قسمت، عرض کیا ہے، ہنسنا منع ہے، ذرا مسکرائیے، بات سے بات اور فارغ البال ‘کو سنجیدہ لوگوں نے بھی لطف لے لے کر پڑھا ہے۔ گویا اُن کا اپنا ایک ہے اور وہ حلقہ بگوشی اسرار و رموز سے واقف بھی ہیں۔

عابد معز اپنے میدان کار ِ زار کے بڑے ماہر دانشور ہیں۔ اُن کی تحریوں کے کرداروں میں زیرکی بھی ہے اور بھولا پن۔ وہ معاشرہ کے جس پہلو پر لکھتے ہیں، اُس کے مالہ اور ما اِلیہ پر پہروں غور کرتے ہیں، اس کے بعد ہی لکھتے ہیں۔ اورلکھنے کے ہر مرحلے میں ان کا نصب العین معاشرہ کی اصلاح ہوتا ہے۔ گویا اُن کا قلم داعیانہ ہوتا ہے، مدعیانہ نہیں۔ اُن کے انشائیوں کا تازہ ترین[ہماری معلومات کی حد تک] مجموعہ ’ فارغ البال ‘ اِس وقت ہماری ملکیت میں ہے، اس میں ان کے’ تصویر ِ کائنات میں رنگ، عقبی ادب، ہاتھ پر یوں تو گھڑی ہے لیکن، مجھے زندہ رہنے دو، فلمی پلاننگ، بیمہ ایجنٹ سے بچنا محال ہے، سوز ِ محبت، سوال نامہ، انگلش میڈیم اسکول، بارے کرکٹ کا کچھ بیان ہوجائے، خوشیوں کی آواز قہقہہ، خوشحالی کا تکون، ہم آپ کو معزز بناتے ہیں، آنچل کی تربیت، پیسہ کی کم شدگی، یہ القاب و آداب!، بڑھتی کا نام توند، اتفاق ہے کہ زندہ ہیں ہم، تکیہ پر ہمارا تکیہ، اقبالیہ، ہمارے بھی ہیں ڈاکٹراں کیسے کیسے اور گھونگھٹ اُلٹنے سے پہلے، وغیرہ ایسے انشائیے شامل ہیں، جن میں زندگی کی تیکھی تازگی کے ساتھ اصلاح معاشرہ کی فکری شیرینی ملتی ہے۔

’ عرض کیا ہے ‘ عابد معز کے شگفتہ افسانوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس میں اُنہوں زندگی کے شگفتہ رنگوں کی جس خوبصورتی سے رنگولی سجائی ہے، وہ اُنہی کے قلم شاداب رقم کا حصہ ہے۔ اس مجموعہ میں شامل افسانے ’ پی سی، شریک ِ زندگی، لو لیٹر، شکر بیتی، انکل اور آنٹی، نام میں کی رکھا ہے، وہ، ہم صاحب ِ کتاب ہوئے، سُر نہ ملا، عرض کیا ہے، فرنٹ وہیل ڈرائیو، ہم نے مکان بنایا، قصہ تیمار داری کا، مام ما، داستان ِ معرکۃ الزوجہ، عجیب وغریب آوازیں، گاؤں کی سیر، میں صرف پتی ہوں، اور سگ گزیدہ‘۔ ایسے شگفتہ افسانے ہیں، جن میں طنز ومزاح کا تروتازہ اسلوب ملتا ہے۔

عابد معز پیشہ سے ڈاکٹر ہیں، اسی لیے جب کسی ایسے موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں، جس میں صحت و مرض کے بیانیہ کی بھی گنجائش ہو، تو پھر اُن کا انداز ِ بیاں دیکھے بنتا ہے۔ اُنہوں ’ سگ گزیدہ ‘ میں اس مرض کی علامتوں کی جو تصویر کشی کی ہے، اُس میں اُن کے اندرون کا ’ڈاکٹرسید خواجہ معز الدین ‘متحرک نظر آتاہے، جو عابد معز کے محاکاتی بیانیہ کو تکنیکی لوازمے فراہم کرتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ سچائی یہ کہ عابد معز نے ’ڈاکٹر سید خواجہ معز الدین ‘ کو بار بار، زق پہنچایا ہے اور ڈاکٹر صاحب ہیں کہ اُس شوخ کو دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں۔

عابد معزکے احوال پر میری اِس تحریر سے کیا نتیجہ نکالا آپ دانشوروں نے؟ کیا اُنہیں نازشیؔ تحفظ کی اب بھی ضرورت ہے؟ لیکن نازش اعظمی کے احتیاط کا عالم یہ ہے کہ اُنہوں نے ہمارے محکمہ سے ہمیں ایک خط بھجوادیا کہ ’ اس سمینار میں آپ کی شرکت قطعی ممنوع ہے۔ ‘!

حکیم وسیم احمد اعظمی - دہلی - ہندوستان
Latest posts by حکیم وسیم احمد اعظمی - دہلی - ہندوستان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).