زیادہ آسائش کم گنجائش


اگر ہم بات کریں آج کی دیکھا جائے دنیا میں تو دن بہ دن ترقی ہوتی جارہی ہے۔ ہماری زندگی میں اس ترقی کے باعث بہت ساری آسائشوں کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ آآسائش کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہیں جیسے غیر ضروری ٹیکنالوجی کا استعمال اور دکھاوے گھر کی فضول آسائش و زیبائش اور دوسروں کو دیکھ کر کسی چیز کو خود پر حاوی کرلینا ان آسائشوں میں آسکتا ہے۔ یہ آسائش ہماری رگوں میں نشے کی طرح گھل رہی ہے اور ہم اس کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا تو دور کی بات ہم اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ٹھیک ہے کچھ آسائشیں ہماری ضرورت ہیں لیکن کچھ آسائشوں کو ہم نے ضرورت بنالیا ہے۔

مثال کے طور پر ہم پہلے کسی بھی دودھ سے چائے بنا کر پی لیتے تھے لیکن اب چائے کے لئے خاص دودھ مارکیٹ میں میسر ہے۔ ہم نے اپنی ضروریات کو اس طرح سے وسیع کردیا ہے کہ گاڑی بھی اب ہم معاشرے میں دکھاوا کرنے کے لئے اپنی گنجائش سے باہر لیتے ہیں مگر لوگوں کی گنجائش میں اس طرح سے اضافہ نہیں ہورہا۔ اب اس معاشرے میں جو نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ ان آسائشوں کی اتنی عادی ہوگئی ہے اور اس میں مزید اضافہ چاہتی ہے اور یہ اضافہ اگر گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہ ہوپائے تو وہ غلط راہ اختیار کرلیتے ہیں اور مختلف جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیوں ہم نے اپنی آسائشوں کی خاطر اپنی بنیادی ضروریات کو مشکل بنا دیا ہے۔ اگر ہم پرانے وقتوں کی بات کریں تو ان غیر ضروری آسائشوں کے بغیر ہم اپنی زندگی بہتر طرح سے گزار رہے تھے لیکن اب ہم نے اپنے آپ کو دکھاوے کا غلام بنا لیا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے اندر اس بات کو اجاگر کرنا چاہیے کہ وہ ہر چیز کو اپنی ضرورت کے حساب سے استعمال کریں تاکہ اگے چل کر ان کو کسی بھی طرح کی احساس کمتری نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).