جنسی تعلیم کو شجر ممنوعہ نہ بنائیے


گزشتہ دنوں آسٹریلوی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کی ویڈیو نظر سے گزری جس میں پارلیمنٹ کارکن ممبر ہم جنس پر ستوں کی شادی یا تعلقات کو قانونی حیثیت دینے کے لئے بل پر بحث کر رہا تھا اس بل کے دفا ع میں عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے اپنے مرد ساتھی کو پارلیمنٹ میں براہ راست شادی کی پیشکش بھی کی جس کو منظوری نصیب ہوئی۔ اس ممبر کو ساتھی ارکان کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ بل کی منظوری ہاں کی صورت میں بھی تحفہ کی گئی جس کی مطابق اب آسڑیلیا میں ہم جنس تعلقات کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی بل کی منظوری کے بعد سپیکر پارلیمنٹ کے الفاظ تھے۔
’’ واہ کیا دن ہے۔ یہ دن ہے محبت کا، یہ دن ہے برابری کا، یہ دن ہے عزت کا۔ یہ دن ہے رشتوں میں ذمہ داری کا‘‘۔

یہ وڈیو دیکھنے کے بعد میرے جیسے ناقص مسلمان نے سوچا ’’ لاحول ولا قوۃ ‘‘ ہم جنس پرستی۔ توبہ‘‘ پھر اتفاقاً ایک وڈیو افغانستان سے وائرل ہوتی ہوئی نظر سے گزری جو بچہ بازی پر مبنی تھی اور اس میں بالغ مردحضرات کی طرف سے نابالغ بچوں کے ساتھ جنسی روابط کے احوال کا بیان تھا۔ بچہ بازی کے اس فعل کے انجام دہی کے پیچھے بالغ مرد کے الفاظ تھے۔
’’یہ نا بالغ بچہ ہماری پسند ہے، معاملہ برابری کا ہے۔ ہم ان کو پیسا دیتے ہے اور یہ ہم کو اپنا جسم ‘‘۔

معاملہ دونوں طرف کی ویڈیوز میں برابری کا ہی تھا مگر ایک میں عزت کے بڑھاوے کی بات اور دوسرے میں عزت اتارنے کی بات۔
میرے اس مضمون کا مقصد نہ تو ہم جنس پرستی کی بے جاہ طرف داری اور نہ ہی بچہ بازی کی بلاوجہ مخالفت ہے۔ مقصد صرف ایک فرق کو سمجھنا ہے، کہ مغربی تہذیب جسے ہم دن رات گالیاں دیتے ہیں انسانی جنسیات کے معاملہ میں کسی درجہ محتاط اور قوانین پرست ہے، وجہ جنسی تعلیم کی اہمیت اور افادیت ہے مغرب میں کسی کی مرضی کے بغیر اگر جنسی دخل اندازی کی جائے تو متاثرہ شخص کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ قانونی کارروائی کر کے انصاف حاصل کرے۔

اورہمارے ہا ں تھانوں کی سامنے عورتیں خود کو پٹرو ل چھڑک کر انصاف کی بھیک مانگتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں۔

جنسی تعلیم کا موضوع مبنی ہے انسانی جنسیات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ جذبات کے اظہار اور تعلقات کی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے لے کر انسان کا جنسیاتی طور پر اپنے جسم کی پہچان، جنسی تعلقات، جنسی تعلقات کے بنانے کی مناسب عمر کا تعین، محفوظ جنسی تعلقات کے طریقے، جنسی امراض سے بچاؤ کی احتیاط، خاندانی منصوبہ بندی، جنسی گریز، تولیدی حقوق اور صحت تک رسائی وغیرہ۔ اس مضمون میں میرا چناؤ جنسی تعلقات میں عمرکا تعین، ذمہ داری اور ہراسیت سے احتیاط ہے۔

ہمارے جیسے معاشروں میں جہاں جنسی تعلیم پہ بات کرنا ممنوع تصور ہو تا ہے، وہاں اس تعلیم سے بے گانگی بہت سے سماجی مسائل کا شاخسانہ بن رہی ہے ان میں سر فہرست انسانی صحت میں بتدریج گراوٹ (ایڈز کے بڑھتے ہوئی کیسز) رشتوں میں اخلاقی گراوٹ، جنسی خریدوفروخت میں اضافہ اور پھراس سب میں اضافہ کرنے والے عناصر، غربت اور بڑھتی ہوئی آبادی شامل ہے روز مرہ مشاہدات میں نظر ڈالتے ہیں۔ جنسی تعلیم سے نااشنائی اپنے جسم کو سمجھنے اور اس کی پاکیزگی جیسے مسائل سے نپٹنے کے لئے دشواری دیتی ہے بہت سے سوالات جو ہماری نوجوان ہوتی نسل جب اپنے بڑوں سے پوچھتی ہے تو جواب آتا ہے
’’یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے سو تمہارے ساتھ بھی ہے‘‘ ایک غیر تشفی بخش جواب ہے!

نوجوان نسل جس پر کڑے پہرے لگا دیے گئے ہے کہ جب تک اچھی نوکری اور گھر نہیں ہو گا شادی نہیں کر سکتے ہو، اس کو آسان لگتا ہے بس سٹاپوں پر، ہوٹلوں پریا سڑکوں پر بھیک مانگتے بچوں کو پیسوں کا لا لچ دے کر جنسی تسکین حاصل کرنا پھر اس پر ستم ظریفی یہ کہ وہ بچے پہلے تو خود بچہ بازی کو شکار ہوتے ہے اور پھر بڑے ہو کر اپنے سے چھوٹے بچوں سے جنسی بد فعلی کرتے ہیں، غریب ماں باپ کو محتاط کرنے کی کوشش کرو تو جواب آتا ہے اس ایک کی قربانی دے کر اگر چار اور بچوں کا پیٹ بھر جاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے اور یوں وہ بچہ اپنے غریب ہونے کے جرم کی سزا بھگتتا ہے۔

اب بچہ ایک کاروباری حیثیت اختیار کر چکا ہے جنسی تعلیم میں جہاں ایک نقطہ انسانی جنسیات میں جنس مخالف کے ساتھ تعلقات کو پوری ذمہ داری سے بنانا شامل ہے وہاں بچہ بازی کرنے والے افراد چونکہ جنس مخا لف سے نارمل تفاعل سے دور ہوتے ہیں تو جنس مخالف کی طرف اس کی بے تحاشہ کشش نابالغ بچوں کو زنانہ کپڑے پہن کر بالغ مردوں کے سامنے ناچنے پر مجبور کرتی ہے۔

پھر یورپ کو جنسی بے راہ روری پر جتنی مرضی گالیاں دے لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ جنسی تعلقات سے ان کی قانون سازی مظبوط ہے۔ ہمیں سننے کو ملتا ہے دیکھے جی مذہب لڑکا لڑکی کی دوستی کی اجازت نہیں دیتا، مگر مذہب تو بچہ بازی کی اجازت بھی نہیں دیتا اجازت تو اس بات کی بھی نہیں کہ بحثیت باس، استاد، مولوی، حکمران یا محض مرد ہونے کے ناطے مردانہ غالبیت والے معاشرے میں اپنی حثیت کا ناجائز استعمال کیا جائے۔ کسی کے کمزور لمحوں میں آپ پر کیے گئے اعتماد کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔

یہاں تو نصیحت کرنی ہو تو کہتے ہیں دیکھو آج کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ کرو گے کل کو اپنی بہن بیٹی کی سامنے آئے گا۔ معذرت کے ساتھ خد ا اتنا تو بے انصاف نہیں کہ گناہ ایک شخص کرے تو سزا دوسرا شخص بھگتے۔ اخلاقیات کو مشروط کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ تعلقات ہمیشہ برابری کی بنیاد پر بنتے ہیں جس میں دونوں فریقین کی مرضی شامل ہونا ضروری ہوتا ہے جسے جنسی تعلیم نے سکھایا کہ ’’ان چاہا ‘‘ رشتہ قائم کرنے کی کوشش جنسی ہراسیت کہلائے گی، کسی کے انکار کو اقرار تصور کرنا تعلقات کی توہین ہوگی، تعلقات جذباتی نوعیت کے ہوں یا جنسی نوعیت کے ’’ذمہ داری‘‘اس میں پہلی شرط ہو گی۔

ہم نے اپنے تعلیمی اداروں، دفاتر، بس سٹایوں بازوں میں ہراساں ہونے والے مرد خواتین کو نہیں سکھایا کہ تمارا جسم تمہاری ذاتی ملکیت ہے اور اس میں دخل اندازی کر نے کا حق کسی کو نہیں، ہم نے سکھایا تو صرف یہ کہ ہراسیت کا شکار ہوئے ہو؟ تو اس میں تمہارا ہی قصور ہو گا، کس نے کہاتھا کہ ایسا لباس پہن کر ایسے وقت میں باہر نکلو۔ معاف کیجئے گا اخلاقیات کو لباس اور وقت سے مشروط کرنا کہاں کا انصاف ہے۔

جنسی تعلیم کو عمر کی مناسبت سے نصاب کاحصہ بنانا ہو گا۔ اور اس کے لئے قانونی اور صحت کے ماہرین کی رائے اور خدمات حاصل کرنی ہوں گی۔
اپنے بچوں کو سکھانا ہو گا کہ تمہارے جسم میں کسی کی دخل اندازی کو کس کس طرح سے روکنا ہے، خود بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہو گا کہ ہمارا ایک بچہ دوسرے بچوں کے پیٹ کا ایندھن نہ بنے۔

جنسی تعلیم سے نوجوانوں کوجنس مخالف کے ساتھ تفاعل کے مناسب طریقوں کی طرف لانا ہو گا۔ ان میں جنس مخالف کے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ جنس مخالف کی عدم رسائی کے نتیچیے میں ہم جنس پرستی میں کم عمر بچوں کو جنسی ہراسائی سے بچانا ہو گا۔

جنسی امراض سے بچاؤ کے طریقوں پر آگاہی فراہم کرنا ہو گی۔ اخلاقی طور پر بتانا ہو گا کہ کسی کا جسم خریدنے کے لئے پیسہ کوئی دلیل نہیں۔ شادی کے لئے مناسب عمر کے تعین اور فریقین کے جسمانی ذہنی اور معاشی طور پر ذمہ دار ہونے کا بھی خیال کرنا ہو گا۔

رشتوں میں باہمی احترام کو فروغ دینا ہو گا۔ جنسیت سے آگاہی بیمار ہوتے معاشرے کو حفاظتی طرز زندگی سکھائے گی۔ کیونکہ صرف مثبت اقدامات کر کے ہی معاشرے کو ایک فعال اور صحت مند معاشرہ بنایا جا سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).