سائیں پارٹی اب مزدوروں کی بجائے مولویوں کی بنا لو



سائیں فقیر آج تک اندر سے ایک پیپلیا تھا، ڈھونڈ ڈھونڈ کے یو ٹیوب پہ بھٹو کی تقریریں دیکھا کرتا تھا۔ کوشش کرتا تھا سردی گرمی اپنی آستینوں کے بٹن بند نہ کرے۔ ابھی پچھلے ہفتے بھٹو کے جنازے کی ایک تصویر ڈھونڈ کے نکالی، ساتھ ضیا الحق کے جنازے کا فوٹو لگایا، اس کے بعد دونوں کے مزاروں کی موجودہ حالت کو دیکھا، لوگوں کو اچھل اچھل کے بتایا کہ دیکھو بابا لوکو، ادھر ہمارے سائیں کا مزار ہے اور ادھر اس بندے کا ہے جس نے اسے پھانسی چڑھایا تھا، دیکھو لوگ آج تک کسے یاد کرتے ہیں۔ سائیں بھٹو فقیر کو زندہ نظر آتا تھا۔

فقیر بہت چھوٹا تھا جب بی بی شہید ادھر گھر کی باہر والی سڑک سے گزری تھی۔ شاید اپنے باپ کی انگلی پکڑے کھڑا تھا یا کسی اور بڑے کے ساتھ تھا، اتنا پتہ ہے کہ بی بی گزر رہی تھی اور لوگوں کا ایک سیلاب تھا جو ابلا پڑتا تھا۔ گلی کے جس کونے پہ فقیر کھڑا تھا وہاں پاؤں ہلانے کی جگہ نہیں تھی، بی بی گزری تو سائیں بڑی مشکل سے ایک جھلک دیکھی تھی، آج تک وہی جھلک باقی تھی۔ پھر بی بی جب الیکشن میں کھڑی ہوئی تو ہم بچہ لوگ گلیوں میں جلوس نکالتے تھے اور بی بی کے نعرے لگاتے تھے۔ سائیں بچپن سے فقیر سمجھتا تھا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر واقعی بی بی ہے اور دل کھول کے، گلا پھاڑ کے چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر کرتا تھا۔

سائیں پھر بی بی کی شادی تم سے ہو گئی۔ ان دنوں فقیر کراچی میں تھا، حالات اچھے تھے، کوئی خاص پروٹوکول یا بند راستے بھی نہیں تھے تو ہم بچہ لوگ اس جگہ کو باہر سے دیکھ دیکھ کے خوش ہوتے تھے۔ پھر بی بی کی حکومت آتی جاتی رہی، جب بھی زبردستی بی بی سے حکومت چھینی جاتی تو سائیں تب سے لے کے اس کے دوبارہ آنے تک یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور ہمارا نعرہ ہوا کرتا تھا۔ دل کے اندر سے یہ نعرہ نکلتا تھا اور بس پھیلتا جاتا تھا۔

سائیں فقیر کو آج تک یاد ہے جب ایک ٹی وی شو کے درمیان میں سے بی بی روتی ہوئی اٹھ کے چلی گئی تھی۔ پوچھنے والے نے اس سے سوال ہی ایسا کیا تھا۔ ابھی میر مرتضی کو قتل ہوئے دن ہی کتنے گزرے تھے؟ اس انٹرویو کا فقیر نے بڑا برا منایا تھا سائیں۔ پھر لوگوں سے لڑ لڑ کے انہیں یقین دلاتا تھا کہ بی بی اپنے بھائی کو خود کیسے مار سکتی ہے، بے وقوفو، نہ سوچا کرو ایسی باتیں، فقیر تو سائیں اپنے سے تگڑے لوگوں سے بھڑ جاتا تھا۔ جیسی بھی تھی بی بی کی سیاست اپنی سیاست اور اس کی پارٹی اپنی پارٹی لگا کرتی تھی۔

ابھی کل بات لگتی ہے سائیں، جب تم دبئی میں تھے اور بی بی ادھر وطن کے پھیرے لگاتی تھی۔ ایک بار آئی، دھماکہ ہوا، بچ گئی۔ وہ تو شیر عورت تھی وہ ڈرنے کی بجائے اور مضبوطی سے کھڑی ہو گئی۔ سائیں دیکھو وہ ڈری نہیں، نہ اس نے کسی سے ہاتھ ملایا، اپنے باپ کی طرح سائیں، وہ پھر واپس آ گئی اور بتا کے آئی کہ بس اب آخری چانس ہے۔ پھر اسے مار دیا انہوں نے، سائیں وہ مر گئی پر ہاتھ نہیں ملایا!

پھر تم نے پاکستان کھپے کہا تو سائیں فقیر تمہارے ساتھ ہو گئے۔ گھر میں ماں تمہارے خلاف تھی، باپ کہتا تھا کہ پارٹی ختم ہے، دوست یار کہتے تھے کہ بی بی کے بعد اندھیرا ہے، سائیں فقیر بی بی کے نام کا فقیر تھا، بھٹو کے مزار کا فقیر تھا، تم نے مشعل اٹھائی تو سائیں تمہارے پیچھے بھاگنے لگ گیا۔ تمہاری حکومت میں جو کچھ بھی ہوا اس کا فائدہ کدھر اپنی زمین پہ نظر نہیں آیا سائیں، جو بھی ہوا وہ اوپر آسمانوں میں تھا، جاتے جاتے تم نے تین ہزار کا مہینہ باندھا، فقیر تو یہ بھی نہیں مانگتا تھا۔

سائیں تمہارے دو وزیر اعظم نکالے، فقیر تمہارے ساتھ تھا، تم نے جس جس کو للکارا، فقیر تمہارے ساتھ تھا، جس جس سے تم نے لڑائی کی، اس کے ہر چاہنے والے سے فقیر نے لڑائی کی، جس نے تمہیں کرپٹ کہا فقیر نے اس کی سات نسلیں اسی فرائی پین میں تل دیں سائیں، تمہارا سچ میرا سچ تھا، تمہارا جھوٹ میرا جھوٹ تھا، تمہاری عزت میری عزت تھی تمہاری پارٹی میری پارٹی تھی پر آج۔

سائیں آج تم نے تھکا مارا، ابھی مجھے لگتا ہے کہ پارٹی چاروں صوبے کی بجائے میرے پٹے کی زنجیر ہے، بھٹو کی موت کا بھی یقین آ گیا سائیں، میری بی بی بھی آج مر گئی، سائیں فقیر کا جیون کھپ گیا کہ کبھی اپنی حکومت ہو گی، بھٹو کبھی راج کرے گا، تم نے قادری صاحب سے ہاتھ ملا لیا؟ جس بندے کے اپنی پانچ سیٹیں نہیں ہیں سائیں؟ جس سیاست کے خلاف ساری عمر بھٹو لڑتا رہا، بی بی چیختے چیختے مر گئی، سائیں تم نے وہی کام کر دیا؟ مطلب میری پارٹی اب ان مولویوں سے ہاتھ ملائے گی سائیں جو ادھر سردیاں منانے آتے ہیں اور ساتھ ساتھ دھرنوں کی آگ جلا کے ہاتھ گرم کرتے ہیں؟ سائیں تم عمران خان کے بھی ساتھ ہو گے؟ تم مصطفی کمال کے بھی ساتھ ہو گے؟ پھر تو سائیں تم مشرف کے بھی ساتھ ہو گے! خیر ہو جائے سائیں، جیو، جگ جگ جیو!

سائیں پارٹی اب مزدوروں کی بجائے مولویوں کی بنا لو، عوام کی بجائے ناچتے گاتے برگر پال لو، جس سے مرضی ہاتھ ملاؤ سائیں، فقیر اپنا پٹہ کھولتا ہے اور دونوں ہاتھ جوڑ کے رخصت مانگتا ہے، پارٹی گاڑ دی ہے سائیں، اب کیا رہ گیا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain