عوام کو آکسیجن چاہیے مکمل کالم


کچھ سال پہلے کی بات ہے، مجھے ایک جگہ لیکچر دینے کا موقع ملا، لیکچر کا اہتمام ریٹائرڈ افسران کی ایک انجمن نے کیا تھا اور حاضرین میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ شامل تھے۔ اس لیکچر میں کہیں اس بات کا بھی ذکر تھا کہ یہ دنیا مختلف طریقوں سے کیسے تباہ ہو سکتی ہے اور ہم اسے تباہی سے کیسے بچا سکتے ہیں! لیکچر کے اختتام پر انجمن کے کرتا دھرتا ایک ریٹائرڈ افسر نے، جنہیں غیر متعلقہ گفتگو کرنے میں ملکہ حاصل تھا، کہا کہ ہم انڈیا پر ایٹم پھینک کر اسے تباہ کر سکتے ہیں اور اس ضمن میں ہمیں جوابی حملے کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دنیا کے پچاس ملکوں میں پونے دو ارب مسلمان بستے ہیں، اگر یہاں دو کروڑ بندے مر بھی گئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا!

جہاں تک مجھے یاد ہے اس بات پر تالیاں بھی بجائی گئی تھیں۔ انڈیا میں یہ جنگی جنون ہم سے بھی زیادہ ہے، وہاں عوام کا خیال ہے کہ دو چار ایٹم بم پھینک کر پاکستان کا دماغ بہت پہلے درست کر دینا چاہیے تھا۔ بالترتیب 56 ارب اور 11 ارب ڈالر سالانہ بھارت اور پاکستان اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ اپنے عوام کو ایک دوسرے محفوظ رکھ سکیں مگراس چکر میں دونوں ملکوں نے اپنا یہ حال کر لیا ہے کہ بغیر ایٹم بم برسائے یہاں لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور روز بروز اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج کی تاریخ تک بھارت میں دو لاکھ سے زائد افراد کرونا وائرس سے مر چکے ہیں اور روزانہ مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اصل اعداد و شمار البتہ اس سے کہیں زیادہ ہیں، جو خبریں انڈیا سے آ رہی ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اموات کی شرح دس گنا ہے کیونکہ حکومت صرف ان مریضوں کا نام سرکاری اعداد و شمار میں لکھ رہی ہے جن کی اسپتال میں کرونا وائرس سے موت کی تصدیق ہوتی ہو۔

وہ ہزاروں مریض سرکار کی فہرست میں شامل نہیں جنہیں اسپتالوں میں جگہ نہیں مل رہی اور وہ سڑکوں یا اپنے گھروں میں مر رہے ہیں۔ شمشان گھاٹ پر کام کرنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس بڑی تعداد میں اور ایسی درد ناک اموات پہلے کبھی نہیں دیکھیں، ایک گھر سے بیک وقت کئی جنازے اٹھ رہے ہیں اور لوگوں کو اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنے کے میں بے حد مشکل پیش آ رہی ہے۔

بھارت سے موصول ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز دل ہلا دینے والی ہیں، کسی میں کوئی عورت اپنے بھائی کی موت پر بین ڈال رہی ہے تو کسی میں کوئی بھائی اپنی بہن کی لاش سرہانے رکھ کر بیٹھا ہے، کہیں کوئی بیٹا اپنی ماں کو فٹ پاتھ پر آکسیجن دینے کی کوشش کر رہا ہے تو کہیں کوئی بیٹی اپنے باپ کی جان بچانے کے لیے اسپتال والوں کی منتیں کر رہی ہے۔ اصل مسئلہ آکسیجن کی فراہمی کا ہے، بھارت کے اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہو چکی ہے اور لوگ اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے دیوانہ وار آکسیجن کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔ ایک قیامت ہے جو وہاں برپا ہے!

اس قیامت میں جہاں کچھ فرشتے انسانوں کی شکل میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں وہاں ایسے فلمی ستارے بھی ہیں جو چارٹرڈ طیارے پر بیٹھ کر مالدیپ چلے گئے ہیں اور ساحل سمندر پر بکنی پہن کر اپنی تصویریں انسٹا گرام پر ڈال رہے ہیں۔ میڈیا میں ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کہ اس مراعات یافتہ مخلوق کو وبا کے دنوں میں مستیاں سوجھ رہی ہیں۔ اسی طرح دہلی کی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم پر جج صاحبان اور ان کے بیوی بچوں کے لیے فائیو سٹار ہوٹل میں سو کمرے بک کروا دیے کہ کرونا ہونے کی صورت میں انہیں وہاں منتقل کیا جا سکے۔

اس پر بھی بہت طوفان اٹھا اور دہلی ہائی کورٹ کو اپنے حکم کی وضاحت میں کہنا پڑا کہ ’ہم نے کب کہا کہ فائیو سٹار ہوٹل کے سو کمرے ہمارے لیے محفوظ کیے جائیں؟ ہم نے تو فقط اتنا کہا تھا کہ کسی جج یا اس کے خاندان میں سے کسی کو کرونا ہونے کی صورت میں اسپتال میں داخلہ ملنے کو یقینی بنایا جائے۔

ویسے یہ عذر بھی ناقابل قبول ہے، دہلی کے اسپتالوں کے باہر عام لوگ اپنے مریضوں کو لیے کھڑے ہیں، اندر گنجایش نہیں ہے، انتظار کے سوا چارہ نہیں ہے اور مریض اسپتال کے باہر دم توڑ رہے ہیں۔ ایسے میں دہلی کی انتظامیہ نے جج صاحبان کے لیے ہوٹل ہی بک کروانا تھا!

کرونا کا یہ طوفان اچانک یا ایک دن میں نہیں آیا۔ گزشتہ برس اپریل میں حکمران جماعت اپنے لیڈر نریندر مودی کو اس بات پر مبارکباد دے رہی تھی کہ کس دانشمندی کے ساتھ مودی جی نے کرونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی، مودی کے دست راست امیت شاہ نے اس وقت کہا تھا ”ہر ہندوستانی نریندر مودی کی قیادت میں خود کو محفوظ تصور کرتا ہے اور ان پر مکمل اعتماد کرتا ہے۔“ ابھی چند ہفتے پہلے تک بی جے پی جم کر ریاستی انتخابات کے لیے جلسے جلوس کر رہی تھی اور امیت شاہ اس مہم میں پیش پیش تھا، اس نے شہر شہر جا کر انتخابی مہم چلائی جس میں ہزاروں لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت تھی۔

اس کے علاوہ پچھلے چار ماہ سے کمبھ کا میلہ بھی جاری تھا، میلے کی انتظامیہ کے مطابق ان چار مہینوں میں نوے لاکھ لوگوں نے شرکت کی اور گنگا میں ڈبکی لگا کر اپنے پاپ دھوئے۔ نتیجہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کی شکل میں نکلا جس نے انڈیا کو تو ہلا کر رکھ دیا جبکہ پاکستان کو زور دار جھٹکا دیا۔ شکر ہے کہ پاکستان میں انڈیا جیسی صورتحال نہیں مگر کچھ ایسی اچھی بھی نہیں ہے۔ یہاں اٹھارہ ہزار اموات ہو چکی ہیں اور روزانہ مرنے والوں کی تعداد دو سو تک پہنچ چکی ہے، ان اعداد و شمار کو آپ کم از کم پانچ سے ضرب دے کر مریضوں اور اموات کی اصل تعداد نکال سکتے ہیں۔

دونوں ممالک میں کرونا سے ہونے والی تباہی نے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، پاکستان میں جو لوگ ویکسین لگوانے کے قائل نہیں تھے وہ انڈیا کے حالات دیکھ کر اب ویکسین لگوا رہے ہیں۔ اسی طرح میڈیا میں دکھائے جانے والے دلخراش مناظر نے بھی عوام کی سوچ میں کسی حد تبدیلی پیدا کی، ٹویٹر پر پاکستانی عوام نے #westandwithIndiaکا ٹرینڈ چلایا اور ادھر حکومت نے بھی بھارت کو کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے مدد کی پیشکش کی۔

کرونا وائرس کی تباہی کے نتیجے اگر کوئی مثبت بات ہو سکتی تھی تو وہ بھارت اور پاکستان کے عوام کا اس بات کو سمجھنا تھا کہ انسانی جان کس قدر قیمتی چیز ہے۔ ایٹم بم کے بارے میں تو خیر سوچنا ہی حماقت ہے، اگر خدا نخواستہ ان دو ملکوں میں کوئی چھوٹی موٹی جنگ بھی چھڑ گئی تو اس کی تباہی ایسی ہولناک ہو گی کہ لوگ پچھلی جنگیں بھول جائیں گے۔

ایسے میں کرونا وائرس نے ہمیں ایک ٹریلر دکھایا ہے کہ موت اصل میں کس قدر خوفناک چیز ہے، سرحد کے اس پار کوئی مرے یا اس پار، مرنے والا کسی نہ کسی کا بھائی، بیٹا، خاوند یا دوست ہوتا ہے، جنگوں میں برسائے جانے والے بم کسی کی شناخت، مذہب یا شہریت نہیں پوچھتے، بالکل اسی طرح جیسے کرونا وائرس یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا کس ملک سے تعلق رکھتا تھا۔

اس وبا کو نمٹنے کا ایک طریقہ سائنسی ہے اور دوسرا سیاسی۔ سائنسی طریقہ تو ویکسین کی شکل میں تا حال میں کامیابی سے جاری ہے مگر سیاسی طریقہ کار درست نہیں ہے۔ سیاسی محاذ پر ضروری ہے کہ دنیا کے ممالک آپس میں اسی طرح تعاون کریں جیسے کرونا کی ویکسین کی تحقیق میں کیا تھا، جنگی جنون کو قابو میں رکھیں اور اپنے ملکوں میں عوام کی صحت پر پیسے خرچ کریں نہ کہ میزائل چلا چلا کر سمندر میں پھینکیں۔ اس وقت انڈیا کے پاس سینکڑوں میزائل ہیں مگر آکسیجن نہیں ہے۔ عوام کو آکسیجن چاہیے!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments